سرینگر//اپنی پارٹی کے لیڈر غلام حسن میر نے جموں سے سرینگر مکمل دربار موؤ کی بجائے دونوں جگہ سیکریٹریٹ دفاتر کی فعالیت کے فیصلے کو جموں وکشمیر میں انتظامی انتشار کی کوشش قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں حسن میر نے کہاکہ یہ فیصلہ اِس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت جموں و کشمیر کے دونوں خطوں کے عوامی فلاح و بہبود اور مفادات کے لئے کام کرنے کی بجائے افسران اور ملازمین کے ایک حلقہ کو خوش رکھناچاہتی ہے ۔انہوںنے فوری طور حکمنامہ کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ کافی دیربعد جموں سیول سیکریٹریٹ میں آدھے انتظامی محکمے بحال رکھنا اور گرمائی راجدھانی سرینگرمیں چند محکموں کی منتقلی جموں وکشمیر کی عوام کے ساتھ بھدا مذاق ہے۔حسن میر نے کہا کہ یہ فیصلہ نہ صرف عوام میں تذبذب اور الجھن پیدا کرے گا بلکہ انتظامیہ کے اندر انتشار کا بھی باعث بنے گا۔ غلام حسن میر کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ موجودہ حکومت جموں وکشمیر میں حکمرانی کے طریقہ کار سے چھیڑچھاڑ کر کے دونوں خطوں کے درمیان گہری خلیج پیدا کرناچاہتی ہے۔انہوںنے متنبہ کرتے ہوئے کہاکہ کورونابحران کی وجہ سے جموں تا سرینگر دربار موؤ دفاتر کی مقررہ مدت پر منتقلی کوعارضی التوا میں رکھنا قابل فہم ہے لیکن امسال انتظامی محکموں کی تقسیم سے تو کچھ اور ہی عزائم کی عکاسی ہوتی ہے جن کی عمل آوری نہ صرف جموں وکشمیر کی عوام کے مفادات بلکہ پورے ملک کے خلاف ثابت ہوگی۔حسن میر نے کہاکہ لیفٹیننٹ گورنر گریش چندر مرمو کو فوری طور اِس فیصلے کے پیچھے دلیل کی وضاحت کرنی چاہئے۔سول سیکریٹریٹ میں کام کرنے چند افسران کی خوشی کے علاوہ یہ فیصلہ کسی بھی طور عوام کے مفادات میں نہیں ہے۔ حکومت کو اِس چیز کی وضاحت کرنی چاہئے کہ آیا انتظامی محکموں کی تقسیم سالانہ دربار موؤ کی مستقل خصوصیت ہوگی یا یہ دربار کی منتقلی پر آنے والے مالی اخراجات کو گھٹانے کے لئے یکمشت امسال کے لئے آرڈر تھا ۔انہوں نے کہا کہ بظاہر یہ فیصلہ کچھ غافل کرداروں کی مداخلت پر لیا گیا ہے جو اپنی تنگ نظری کی وجہ سے نہیں چاہتے کہ جموں و کشمیر خاص طور پر وادی کشمیر میں امن قائم ہو۔حسن میر نے کہا’’ دربارموؤ کی سرینگر منتقلی میں پہلے ہی تاخیر نے دونوں خطوں کی عوام کے درمیان نفسیاتی خلاء بڑھا دی ہے اور کشمیر کے لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے جوکہ خود کو موجودہ حکومت کے ہاتھوں ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ اب تقسیم کاحکم نامہ اُن کے لئے ایک دھچکا ہے جوکہ اِس کے پیچھے خطرنام عزائم دیکھ رہے ہیں۔