نام کتاب: سِول سروسز راہ نما
مصنف: ساحل احمد لون
سن اشاعت: 2021
قیمت: 250روپے
تعدادِ صفحات: 128
ساحل احمد لون کی محنت ،ادب دوستی اور کتابوں کے تئیں اُس کاشوق دیکھ کرراقم محسوس کر رہا ہے کہ یہ نوجوان ایک دن وادی کے افق پر چھا جائے گا ۔ ایک بار ملنا چاہا، میں سرینگر میں ہی تھا کہ ایک طرف سے جہانگیر چوک سے ہانپتا کانپتا نوجوان بھی کیا بلکہ نوجوانی سے کم ہی عمر کا ایک لڑکا آتا دکھائی دیا۔ آتے ہی باتیں شروع کی۔ میں دیکھتا ہی رہ گیا کہ کیا واقعی یہ وہی ساحل احمد لون ہے جو ادب کے افق پر اپنی حیثیت مضبوط کئے جارہا ہے ،جس کی ستائش اہل ادب شوق سے کر رہے ہیں۔ میں تو سوچ رہا تھاکہ کوئی موٹا تگڑا آدمی ہوگا پر یہ تو اس عمر کا ہے جب ہمیں ادب کیا، پڑھائی بھی بوجھ لگتی تھی اور یہ ہے کہ ایسی کتابوں پر تبصرے کر رہا ہے جنہیں ہم پڑھنے کے لئے سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔ خیر مجھے اس نوجوان کی آنکھوں میں بلا کا سکوں نظر آیا۔ اس کی امیدیں بلندیوں کا طواف کر رہی ہیں، اس کے اندر علم پانے کی خواہشات مچل رہی ہیں۔ یہ جو نسلِ نو کا اک حسیں گلدستہ میسر آیا تو میں نے اسے مضبوط جکڑ لیا۔ اس کی سنتا رہا۔ اس کی شکل کو دیکھ کر سوچ رہا تھا او بھائی تیرا رب تیرا حامی ہو، تو کمال کا ہے کہ اس کچی عمر میں اور ایسے پریشان کن ماحول میں تو مجھ جیسے طلبہ کی امید ہے۔ بس التماس یوں ہے کہ؎
حیاء نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
(اقبالؒ)
یہ تو صاحب کتاب کے حوالے سے چند تاثرات تھیں۔اب جہاں تک اُن کی ’سول سروسز راہ نما‘ نامی کتاب کا تعلق ہے تو یہ کتاب دراصل ملک کے مشکل ترین تصور کیے جانے والے یو پی ایس سی سول سروسز امتحان کے بارے میں تحریر کی گئی ہے۔ گرچہ اس امتحان کی تیاری کے لئے مختلف کتابیں پائی جاتی ہیں پر زبان یار ( اردو) میںیہ غالباً اولین کوشش ہے ۔ہاں برصغیر میں اگر کسی صاحب نے اس سلسلے میں کوئی کام کیا ہو پر کم از کم ریاست میں ایسی کوئی کتاب اردو زبان میں میسر نہیں ہے۔ یہ کتاب مختلف ابواب پر مشتمل ہے اور بالترتیب اس امتحان کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتی ہے مثلاً سول سروسز کیا ہے،اس کا نصاب کیا ہے،تیاری کی شروعات کیسے کریں،حالاتِ حاضرہ کی اہمیت اس امتحان میں کیا ہے اور اُن کی تیاری کیسے کی جائے،اختیاری(Optional) مضمون کی اہمیت اور اگرآپ اُردو کو اختیاری مضمون کے طور چنتے ہیں تو اس کی تیاری کا طریقہ کار کیا ہوگا،کوچنگ کی اس امتحان میں کیا اہمیت ہے وغیرہ وغیرہ۔اس کے علاوہ کتاب میں چند ایسی حقیقی کہانیاں بیان کی گئی ہیں جو اس امتحان کے خواہش مند طلباء کے ساتھ ساتھ عام قاری کے لیے بھی باعث تحریک ہے۔اسی طرح کتاب کے آخر میں سوال جواب کا ایک باب بھی شامل ہے جس میں اس امتحان کے حوالے سے مختلف سولات کے جوابات درج کیے گئے ہیں۔
کوئی بھی انسان بڑا نہیں ہوتا ہے بلکہ اُس کا کردار اور مقصد اُسے بڑا بنا دیتا ہے۔کائنات کی ہر چیز دو بار بنتی ہے، پہلی بار انسان کے دماغ میں اور دوسری بار حقیقت میں۔ اگر ہم نے کامیاب ہونے کا کوئی خواب نہیں دیکھا، ہمارے دماغ میں کامیابی کی کوئی تصویر ہی نہیں تو ہماری ناکامی سو فیصدیقینی ہے ورنہ خواب بُنیے اور کسی نہ کسی رنگ میں کامیابی پالیجیے۔جو لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھے یہ سوچتے ہیں کہ کامیابی کا راستہ ہمارے ہی گھر سے جاتا ہے اس لئے محنت کی کوئی ضرورت نہیں ،وہ غلط روش پر ہیں۔اس کتاب کے مطالعہ کے بعد ان باتوں کی تصدیق ہوجاتی ہے۔یہ آپ کو حوصلہ دیتی ہے۔ بس یوں سمجھیں کہ یہ کتاب اک حسیں تحفہ ہے پورے ملک کے اردو داں طبقہ کے لئے، جو اگرچاہیں تو اس سے مستفید ہوکر اپنی کامیابیوں کا لوہا منوا سکتے ہیں۔ ویسے بھی جن کے خواب بڑے ہوتے ہیں، خوابوں کو پانے کے لئے ارادے مضبوط ہوتے ہیںاور ہر وقت خوابوں کو حاصل کرنے کیلئے محو جستجو ہوتے ہیں، وہ کبھی بھی بے مقصد اپنے وقت کا ضیاع نہیں کرتے۔ بس اپنے خواب بنتے رہتے ہیں اور انہیں پانے کی طلب میں محو پرواز رہتے ہیں ۔ منزلیں کتنی بھی دشوار ہو، کس قدر بھی کٹھن اور سخت ہوں ،پر ان ہی راستوں پر چل کر کامیابی قدم چومتی ہے اور جو لوگ حوصلے بکھیر دیں ،ان کے قدم منزلیں نہیں چومتیں بلکہ وہ اندھیروں کے اندر کھو جاتے ہیں، جن کی پھر کوئی منزل ہی نہیں رہتی ۔یہ چیز بڑے ہی خوبصورت طریقے سے ہمار ا مصنف ساحل احمد لون مسلسل سمجھا رہا ہے اپنی تحریرات کے ذریعہ اور اس کتابی کاوش نے تو اس کی پہچان مزید وسیع کردی کہ اک معصوم سی صورت، معصوم ہاتھوں سے لرزتی انگلیاں خون جگر سے بگو کر کیسے کیسے ادب ،سیرت یا معاشرے کی معاون بن جایا کرتی ہیں۔
خیر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ اس کاوش کو قوم کے لیے سود مند اور مصنف کے لیے توشہ آخرت بنادے۔آمین
پتہ ۔ سوپور کشمیر