تلخ حقائق
ڈاکٹرآزاد احمد شاہ
گھر کی چار دیواری کو مضبوط بنانے کے لیے لوہے کے دروازے، سی سی ٹی وی کیمرے اور تالے تو لگا دئیے جاتے ہیں، لیکن فتنے اب ان دیواروں کو عبور کر کے ہاتھ میں پکڑے موبائل کے ذریعے داخل ہو رہے ہیں۔ والدین مطمئن رہتے ہیں کہ ان کی اولاد محفوظ ہے، کیونکہ وہ گھر کے اندر موجود ہے، لیکن انہیں یہ خبر نہیں کہ ان کے بچے کن لوگوں سے رابطے میں ہیں، کون ان کے ذہنوں کو آلودہ کر رہا ہے اور کس طرح دھوکہ، فریب اور گناہ کی دلدل میں دھنسا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا ایک ایسا جال بن چکا ہے جو نہ نظر آتا ہے، نہ محسوس ہوتا ہے۔ لیکن جب اس کے نقصانات سامنے آتے ہیں تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ محبت کے نام پر دھوکہ، دوستی کے نام پر بلیک میلنگ، عزتوں کی نیلامی اور گھرانوں کی تباہی،یہ سب کچھ آج کل عام ہو چکا ہے۔ کتنی ہی معصوم لڑکیاں جذبات میں آ کر اپنی زندگیاں برباد کر بیٹھتی ہیں۔ ایک لمحے کی کوتاہی زندگی بھر کا پچھتاوا بن جاتی ہے۔
مسئلہ یہ نہیں کہ انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا بذاتِ خود بُرا ہے، بلکہ اصل مسئلہ اس کا غلط استعمال اور بے راہ روی ہے۔ والدین اپنی ذمہ داریوں کو صرف کھانے پینے، لباس اور سکول کی فیس تک محدود نہ سمجھیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اخلاقی اور دینی تربیت کریں، انہیں صحیح اور غلط کا شعور دیں اور یہ سمجھائیں کہ آن لائن دنیا میں کس طرح اپنے ایمان، عزت اور وقار کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔
نبی کریم ؐ نے فرمایا:’’تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘(بخاری و مسلم)
یہ حدیث والدین کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ کیا آج کے والدین اپنی نگہبانی کا حق ادا کر رہے ہیں؟ کیا وہ جانتے ہیں کہ ان کے بیٹے اور بیٹیاں رات دیر تک موبائل پر کس سے بات کر رہے ہیں؟ کیا انہیں معلوم ہے کہ ان کی اولاد کن ویب سائٹس پر وقت گزار رہی ہے؟ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اپنی آنکھیں کھولیں، اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور ان سے محبت کے ساتھ بات کریں تاکہ وہ کسی اور کے فریب میں نہ آ سکیں۔
بیٹیوں کو خاص طور پر شعور دینا بہت ضروری ہے۔ انہیں یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ہر مسکراہٹ خلوص نہیں ہوتی، ہر میٹھے لفظ کے پیچھے نیکی نہیں ہوتی اور ہر تعارف نیک نیتی پر مبنی نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا پر موجود نامحرم مردوں سے بات چیت، تصاویر کا تبادلہ اور جذباتی وابستگی اکثر نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ بہت سی لڑکیاں اس فریب کا شکار ہو کر اپنی عزت، سکون اور اعتماد سب کچھ کھو بیٹھتی ہیں۔ پھر یا تو بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا خودکشی جیسے انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
یہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ روزانہ نہ جانے کتنی لڑکیاں آن لائن دھوکہ کھا کر برباد ہو رہی ہیں۔ بہت سے گھرانوں کی عزتیں سوشل میڈیا پر نیلام ہو چکی ہیں اور کتنے ہی والدین اپنی عزت بچانے کے لیے خاموش آنسو بہانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ایسے میں اگر والدین اپنی اولاد کو وقت پر سمجھائیں، انہیں دین اور حیا کی تعلیم دیں اور ان کے دلوں میں خوفِ خدا پیدا کریں، تو بہت سی زندگیاں برباد ہونے سے بچ سکتی ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ خود بھی موبائل اور سوشل میڈیا کے استعمال میں محتاط رہیں، کیونکہ بچے والدین کے اعمال کی نقل کرتے ہیں۔ اگر ماں باپ خود موبائل کی دنیا میں مگن رہیں گے، ہر وقت بے مقصد اسکرین دیکھتے رہیں گےاور اپنی اولاد کو وقت نہیں دیں گے تو پھر ان کے بچے بھی یہی رویہ اپنائیں گے۔ گھر میں ایک اسلامی ماحول پیدا کریں، قرآن و حدیث کی روشنی میں زندگی گزارنے کی کوشش کریں اور بچوں کے ساتھ وقت گزاریں تاکہ وہ احساسِ محرومی کا شکار نہ ہوں اور باہر غلط دوستوں یا اجنبیوں میں اپنائیت تلاش نہ کریں۔
دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے متعلق بھی بچوں کو آگاہ کریں۔ انہیں بتائیں کہ انٹرنیٹ پر ہر نظر آنے والی چیز سچ نہیں ہوتی، ہر پروفائل حقیقی نہیں ہوتا اور ہر دوستی مخلص نہیں ہوتی۔ انہیں یہ سکھائیں کہ اپنے راز دوسروں کے ساتھ شیئر کرنا، اپنی تصاویر کسی کو بھیجنا اور نامحرم افراد کے ساتھ بے تکلف گفتگو کرنا کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
سب سے بڑھ کر اپنے گھروں میں حیا اور خوفِ خدا کا ماحول پیدا کریں۔ جب دلوں میں تقویٰ ہوگا، جب بچپن سے بچوں کو سکھایا جائے گا کہ اللہ دیکھ رہا ہے، جب والدین عملی طور پر اسلامی تعلیمات پر عمل کریں گے، تبھی سچی حفاظت ممکن ہوگی۔ گھروں کی چابیاں محفوظ رکھنے سے زیادہ ضروری دلوں کی حفاظت ہے۔ کیونکہ چوری صرف مادی چیزوں کی نہیں ہوتی، ایمان، عزت اور کردار کی بھی چوری ہوتی ہے اور یہ سب سے خطرناک چوری ہے۔
سوشل میڈیا ایک خاموش دشمن کی طرح ہے۔ یہ دھیرے دھیرے ذہنوں کو مسموم کرتا ہے، تعلقات کو بگاڑتا ہے اور انسان کو ایسی گمراہی میں ڈال دیتا ہے جہاں سے واپسی مشکل ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر والدین اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، اپنی اولاد کو وقت دیں، انہیں صحیح اور غلط کی تمیز سکھائیں اور سب سے بڑھ کر اللہ سے دعا کریں تو اس فتنے سے بچا جا سکتا ہے۔حفاظت صرف دروازے بند کرنے سے نہیں بلکہ دلوں میں خوفِ خدا اور حیا پیدا کرنے سے ممکن ہے۔ اللہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو اس فتنے سے محفوظ رکھے۔ آمین
[email protected]