سوداگر

    بابو مانک رام پیشے سے نیتا تھا اور نیتا گری سے ہی اسکی پہچان تھی ۔ علاقے کے لوگ اسے جب کبھی بھی چائے پانی آفر کرتے تو صرف اسکے نیتا ہونے کی بدولت۔ گویا کہ اسکی تمام تر شہرت ہی اسلئے تھی کیونکہ وہ ایک پیشہ ور نیتا تھا ۔مانک رام نے اپنی زندگی کا آدھا عرصہ اسی پیشے میں صرف کیا تھا ۔وہ اکثر اپنے انتخابی حلقہ کا دورہ کیا کرتا ۔عوام کا حال پوچھنا، انکی پریشانیوں سے روبرو ہوتا اور در پیش مسائل کو جاننا، یہیں تک محدود تھی بابو کی نیتا گری ۔ علاقے کے لوگوں کی ہر ہر پریشانی سے آگاہ ہونے کے باوجود بھی اس نے اپنے حلقہ میں نہ تو کوئی سڑک بنوائی نہ کوئی ہسپتال اور نہ ہی اسکول بنوایا۔اتنا ہی نہیں لوگوں کی اولین ضروریات کو بھی طاق پر رکھتے ہوئے بڑی آسانی سے ۱۴ سال مکمل کر لئے ،پر لوگ پھر بھی اپنے ہر دلعزیز نیتا کی شان میں قصیدے پڑھنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے ۔
  مانک رام کے خلاف لوگ ایک لفظ بھی سننے کو تیار نہ تھے۔ان کے چاہنے والوں کی ایک کثیر تعداد تھی پورے حلقے میں ۔ لوگوں کا ماننا تھا کہ مانک رام کم از کم ہمارای خبر تو لے لیا کرتے ہیں، باقی تو یہ بھی نہیں کرتے ۔حالانکہ آلوک چند نے اس حلقے میں گذشتہ ۴ سالوں میں اتنا کام کرایا تھا جتنا بابو مانک رام نے ۱۴ سالوں میں نہیں کرایا تھا ۔آلوک چند نے پچھلے الیکشن میں ہارنے کے باوجود ہر گاؤں میں پانی کا انتظام ، غریبوں کیلئے راشن کارڈ ، بوڑھوں کیلئے وردھا پینشن اور بیت الخلا تو گھر گھر میں بنوادیا۔ اتنا ہی نہیں غریب لڑکیوں کی شادی میں وہ اپنی وسعت کے مطابق مدد کرنے سے ذرا بھی گریز نہ کرتا تھا ، لیکن لوگو ں کو ۴ سال کے بجائے ۱۴ سالوں والا نیتا زیادہ عزیز تھا ۔
 آلوک چند بغیر کسی بھید بھاؤ اور ذاتی مفاد کے خدمت کی عرض سے اپنے انتخابی حلقے میں  ترقیاتی کام کرارہاتھا جس نے عوام کو فائدہ ہوسکے ۔جیسے جیسے انتخاب کا وقت قریب آرہا تھا نیتاؤں کی سر گرمیاں بھی بڑھ رہی تھی ۔ گاؤں کے لوگ بھی موقع پاتے ہی انتخابی عنوان پر گفتگو کرنے لگے تھے اب چائے کی دوکان پر بھی فجر کے بعد سے ہی صبح کے ۹ بجے تک لمبی بحث چلا کرتی تھی ۔ اس بار مانک رام خلاف توقع پہلےانتخابات کے مقابلے زیادہ محنت کر رہاتھا ، شاید اسے آلوک چند کے چار سالوں کی محنت ڈرا رہی تھی۔ آلوک چند سے ہار کا ڈر ستا رہا تھا ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی پوری ٹیم کے ساتھ انتخابی حلقے میں گاڑیاں دوڑا کر ریلیاں کررہاتھا ۔ اس بار مانک رام نے الیکشن میں اپنی ساری طاقت جھونک دی تھی لوگ اپنا اپنا اگزٹ پول باہر نکال رہے تھے اور خود کو تسکین فراہم کر رہے تھے ۔ 
  الیکشن ختم ہوا کچھ دنوں بعد جب نتیجہ آیا تو اکثریت والوں کا اگزٹ پول فیل ہوگیا ، آلوک چند نےپانچ ووٹوں سے اپنے مخالف مانک رام کو شکست دے دی ۔اسکے ساتھ ہی مانک رام کے سارےتر خواب چکنا چور ہوگئے۔ ساتھ ہی ان لوگوں کے بھی جو مانک رام کے خلاف ذرا سی بات پر لڑائی پر اتر آتے تھے ۔آلوک چند سابق ایم ایل اے ترلوک چند کا بیٹا تھا لہٰذا سیاسی شعور تو اسے وراثت میں ملاتھا۔ وہ سیاست کی ہر چال سے بخوبی واقف تھا اور پڑھا لکھا بھی تھا۔ آلوک چند کی جیت کے بعد بابو مانک رام نے اس سے دوستانہ تعلقات پیداکرنا چاہےپر آلوک چند نے اسے خود کیلئے مضر سمجھا اور دوری بنائے رکھنا ہی بہتر جانا ۔ مانک رام یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ جب تک آلوک کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہوجاتے ہر کاروبار رفتہ رفتہ چوپٹ ہوتاجائیگا ،لہٰذ ا اس نے ہر ممکنہ کوشش کی پر سوائےناکامی کے کچھ حاصل نہ ہوا ۔
  وقت گذرنے کے ساتھ دونوں میں دوریاں بڑھتی گئیں اور دشمنی میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنا  اب انکا مشغلہ بن چکا تھا ۔ اب مانک رام کا کاروبار تیزی سے گھاٹے کی طرف بڑھ رہا تھا اور اسکی موٹی کمائی کے بیشتر راستے بند ہو چکےغیر قانونی دھندھوں کو گذشتہ کئی سالوں سے بغیر کسی کے روک ٹوک کے بے خوف ہوکر چلا رہاتھا پر یہ کاروبار کون کون سے ہیں کسی کو معلوم نہ تھا ۔مانک رام نے نہایت دور اندیشی سے اپنے دھندے کو بلندی تک پہنچایا تھا ، پر اب ہر نئی صبح اسکے لئے نئے نئے مشکلات کھڑی کر رہی تھی کیونکہ اب ہر روز اسکے کسی نہ کسی غیر قانوں دھندے کا پردہ فاش ہورہاتھا اسکا وہ چہرہ سامنے آرہاتھا، جس سے لوگ واقف نہ تھے ۔ اب مانک رام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہورہاتھا کیونکہ اب تو اسکے چاہنے والوں کی تعداد بھی گھٹتی جا رہی تھی اور یہ بات اس کے لئے ناقابل برداشت تھی کیونکہ مانک رام نے اپنی زندگی میں دولت کے علاوہ اگرکچھ حاصل کیا تھا تو وہ عوام کا یقین تھا۔ ایک برس کے اندر ہی آلوک چند نے اسے دھوبی کا کتا بنا دیا جوگھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔ نہ عوام سے ہی کوئی تعلق رہا نہ انہو نے رشتہ ۔ کیونکہ اب اسکے پاس نہ تو پیسہ تھا اور نہ ہی چاہنے والوں کی ہمدردی۔ اب اسے نہ تو پولیس پہچانتی تھی نہ افسر اور نہ ہی عوام ۔ اب لوگوں کی زبانوں کے بول بدلنے لگتے تھے۔ اب تو آلوک چند کانام لوگوں کی زباں پر آنے لگا تھا، جو پچھلے کئی سالوں سے نہیں سنا تھا ۔ صبح اٹھ کر جب میں اپنی گاڑی سے اسکول کیلئے روانہ ہوا تو گاؤں کے باہر منکو دادا نے لفٹ کیلئے ہاتھ ہلایا میں نے اسے گاڑی میں بٹھالیا اور پوچھا ’’دادا کہاں چل دئیے صبح  سویرے ؟  ‘‘۔
’’ رونق پور جارہاہوں ۔میں نے سوچا تمہارا ادھر سے ہی جانا ہوتا ہے اسلئے تمہیں روک لیا۔‘‘ داد انے جواب دیدیا۔
 میں سمجھ گیا کہ وہ بیٹی سے ملنے جارہے ہیں ۔ اور میں نے پوچھ لیا۔
’’ اچھا منکو دادا پھرکوئی خبر آئی کہ نہیں مانک رام سے متعلق ؟ ‘‘۔
’’ ہاں خبر تو ہر روز کچھ نہ کچھ آرہی تبھی تو چائے کی دوکان پر بحث ہوتی ہے زوروں کی ۔‘‘ دادا نے جواب دیا۔
’’ پر مانک رام کے خلاف سارے مقدمے جھوٹے ہیں نا دادا ؟ ‘‘۔ میں نےتھوڑا کردیتے ہوئے پوچھا۔
’’ ارے بیٹا ایسی بات نہیں ہے ۔ یہ سیاست کا کھیل ہی گندا ہوتا ہے ،جسکی قمیض پر ایک بارسیاست کاکی کیچڑ لگ گئی تو پھر وہ داغ نہیں جاتا ،ویسے مجھے نہیں لگتا کہ اسکے خلاف ایک بھی جھوٹا مقدمہ دائر کیا گیا ہو ۔ ‘‘ اُس نے ٹھنڈی آہ لیتے ہوئے جوا ب دیا۔
’’ آپ کو ایساکیسے لگتا ہے ؟‘‘۔ میں نے اپنا استفسار جاری رکھا۔
’’ کیونکہ میں جانتا ہوں ، مانک کو آج سے نہیں برسوں سے جانتا ہوں۔ نیتا تو وہ بس کہنے کو ہے بس اسکی قمیض سے اسکی کرتوت چھپی ہوئی تھی جو باہر آچکی ہے ۔ ‘‘
’’ کیسی کرتوت دادا؟ ایسا کیا کردیا اس نے ؟ ‘‘ میرے چونک کر پوچھنے پر داد بولنے لگے۔
’’ اس نے اپنی زندگی میں جو بھی کیاسب غلط ہی تو کیا ہے۔ سارے دھندے غیر قانونی ،سارا کام جعلی ،چوری ،ڈکیتی ، عصمت دری ، شراب کا دھندہ ، ہتھیاروں کا کاروبار، سرکاری فنڈ کی بندر بانٹ ،کیا کچھ نہیں کیا ۔اُس نے مانک رام نے ایک نیتا کا کردار اچھی طرح ضرور ادا کیا پر زندگی کے ہر شعبہ میں اس نے صرف سوداگر ی ہی کی تھی‘‘۔ دادا نے آہستہ آہستہ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا گیا۔ 
’’ اس نے اپنے سیاسی زندگی میں جو کامیابی پائی ہے نا وہ صرف لوگوں میں دہشت پھیلا کر پائی ہے۔ نہ جانے اس نے کتنے غیر قانونی دھندے چالو کئے پر کسی میں اسکے خلاف بولنے کی ہمت نہیں تھی اور یہی وجہ بنی مانک رام کے بابو مانک رام بننے کی۔ بالو مانک رام میں وہ ساری خوبیاں تھیں۔ جو ایک بنئے میں ہوتی ہیں، جس کی نظریں صرف اپنے فائدے پر لگی ہوتی ہیں۔
 وجہ بنی ایک قاتل کے سماج کا رہنما بننے کا مانک رامیں وہ ساری خوبیاں ہیں جو ایک بنئے میں ہوتا ہے ۔مانک رام بھول گیا تھا کہ قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں ۔جس قانون سے اس نے ایک زمانہ تک کھلواڑ کیا، اُسکا سودا کیا آج وہی سوداگر قانون کی گرفت میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اتنے میں دادا کی بیٹی کا گھر آگیا اور میں اُس سے مخاطب ہوا‘‘۔ وہ اُترے تو میں سکول کی طرف چل پڑا۔
’’ دادا آپ کی بیٹی کا گھر آگیا‘‘ اسکول پہنچ کر جیسے ہی اخبار اٹھا یا مانک رام کا پرانا  مسکراتا ہوا فوٹو دکھا ئی دیا۔ پر مجھے منکو دادا کی سنائی ہوئی کہانی یاد آرہی تھی، جس کے مطابق مانک رام نے صرف سودا گری ہی کی تھی نہ کہ نیتا گری ۔  
……………………
رابطہ :پرنسپل الحرا پبلک اسکول ہنوارہ گڈا 
����