رحیم رہبر
“ مجھے ایک سوال کا جواب چاہیے”
اس بار احمد نے بہت ہی انکساری سے کہا۔اس جمُلے نے میری سوچ کے کینواس پر کچھ مزید سوالات اُبھارے۔اس طرح میں دھیرے دھیرے سوالات کے حصار میں بند ہوا۔میں جس سیارے پہ رہتا ہوں۔ یہ ہمیشہ گردش میں رہتا ہے۔اس کا ایک فلکیاتی جسم ہے۔اس گردش میں میرے وہ چند لمحات خرچ ہورہے ہیں جو میں اُدھار لے کر آیا ہوں۔ !اب گنتی کے قلیل لمحات میرے پاس بچے ہیں۔میں ان لمحات کو ہرگز احمد کے سوال پر خرچ نہیں کرنا چاہتا تھا۔اب جب بھی احمد اپنا جُملہ دہراتا تھا، میں خاموشی اختیار کرتا تھا۔
اس دن سیارے نے سورج کے گرد ایک چکر مُکمل کیا تھا۔آج میری عُمر کا ایک اور حصہ کٹ چُکا تھا!مجھے عُمر کے کٹ جانے کا غم اتنا نہیں ستا رہا تھا جتنا احمد کا وہ جُملہ جو وہ مجھے بار بار پوچھُ رہا تھا” مجھے ایک سوال کا جواب چاہئے”
میرا سیارہ کب گھومنا بند کرے گا؟ اس میں کب ٹھہرائو آئیے گا؟ لیکن وہ ٹھہرائو اپنے ساتھ قیامت لے کر آئے گا!ہر سُو النفسی النفسی کی گونج سُنائی دے گی! شیر خوار بچے کے چہرے پہ سفید داڈھی اُگ آئے گی؟ (ان کفر تُم يوماً یجعلُ الولدان شیبا!)پھر اسرافیل کے صور کی آواز سے سیارے پہ آگ اُگ آئے گی!میرے وہ حسین خواب خاکستر ہونگے۔۔۔۔۔۔ پھر پھر کیا ہوگا۔۔۔۔۔ خاموشی! ان لبوں پر جن پر کبھی میرا نام ہوتا تھا، جن کو میرے نام کے ساتھ عقیدت تھی! وہ سوال پھر سوال ہی رہے گا!” میری سوچ سنسان ہوجاتی تھی۔میرے خدشات بڑھ جاتے تھے، میں اب خوُد کے سامنے سوالی بن گیا تھا۔ میرے اندر کی دُنیا میں طلاطمُ تھا!
میں اب خود سے یہ سوال کرتا تھا ،” پھر کیا ہوگا؟” میں اس سے آگے اور کُچھ نہیں سوچتا تھا۔
احمد نے میرے ادراک کے دریچے کو وا کیا۔اُس رات جب آندھی گرج رہی تھی، تُند ہوائیں میرے دہلیز پہ دستک دے رہی تھیں!میرے آنگن کے پھول سہمے ہوئے تھے۔ گملوں کے پھول ڈر کے مارے زردپڑرہے تھے!میرے آنگن کی کلی تھر تھرا رہی تھی۔میرا گھر آج ماتم کدہ بن گیا تھا!اسی اثنا میں احمد گیٹ کے اندر آگیا۔اُس نے سنجیدگی سے پھر وہی جُملہ دہرایا،” مجھے ایک سوال کا جواب چاہیے۔” اس بار اسکی آنکھیں نم تھیں۔
“ سراسر بکواس۔۔۔nonsense !” میں نے غصے میں بولا۔احمد کی آنکھوں سے آنسوں اُمڈ آئے۔احمد کی عاجزی دیکھ کر میرا سخت لہجہ خود بخود نرم ہوگیا۔
“ پوچھیں کیا پوچھنا ہے” میں نے نرم لہجے میں بولا۔
“ جناب! مجھے خاموش رہنا پسند ہے لیکن میری خاموشی میں کچھ مضُمر ہے! وہ کیا چیز ہے؟”
“ تمہاری آواز” میں نے دفعتاً جواب دیا۔
میرا جواب سُنکر احمد نے سکوُن کی سانس لی۔ اس کے ہونٹ یک لخط بول پڑے:
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زبان اب تک تیری ہے!
���
آزاد کالونی پیٹھ کانہامہ ماگام، کشمیر
موبائل نمبر؛ 9906534724