گزشتہ ہفتے لتہ پورہ پلوامہ میں جموں سے آرہی نیم فوجی عملے (سی آر پی ایف)کی کانوائے پر فدائین حملہ ہوا،جس کے نتیجہ میں تقریباً پچاس اہلکاروں کی موت واقع ہوئی ۔دھماکہ انتہائی شدید اور ہولناک تھا۔بارود سے بھری کار کو ایک مقامی ملی ٹنٹ عادل ڈار چلا رہا تھا اور کانوائے کی ایک گاڑی کے ساتھ کار کو ٹکرا کر خود بھی اپنی جان گنوا بیٹھا ۔دھماکہ سے پہلے فوجی وردی میں ملبوس ،کلاشنکوف کو ہاتھ میںاٹھا کرعادل اپنا ویڈیو بناتاہے جس میں اپنے مشن کی آگاہی دیتا ہے اور وجوہات بھی بتاتا ہے کہ وہ کیوں یہ راستہ اختیار کرتا ہے۔
’’اپنے ‘‘اور ’’ان کے‘‘کی تقسیم سے اوپر اٹھ کر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ فورسز اہلکاروں کے خون میں بھی وہی سرخ رنگ ہے جو یہاں کے ملی ٹنٹوں کے خون کا ہے ۔وہی گوشت کے چیتھڑے سڑک پر دور دور تک بکھرے پڑے تھے جس طرح ملی ٹنٹوں کے ٹکڑے ملبوں کے ڈھیر میں تلاش کئے جاتے ہیں ۔بعض اہلکاوں کی سوختہ لاشیں ،کٹے اعضاء یا معدوم شدہ جسم کی محض راکھ ہی تھی اور یہاں بھی بعض تصادم آرائیوں کی جگہوں پر اسی طرح کے ہوش ربا مناظر دیکھے جاتے ہیں۔دونوں طرف انسان ہی ہیں ۔اپنی مائوں کے لخت جگر ہیں۔اپنے والدین کی امیدوں کا سہارا ہیں ۔اقرباء اور دوستوں کے چہیتے ہیں اور اپنی زندگیوں کا شباب لئے ہوئے ہیں۔وہاں بھی غموں کے پہاڑ ،یہاں بھی جدائی کی کرب انگیز قیامتیں ،وہاں بھی سوگوار درو دیوار ،یہاں بھی ماتم کناں فضائیں،وہاں بھی درد انگیز نالے ،یہاں بھی الم و نوحے ،وہاں بھی غم ِ جدائی ،یہاں بھی داغِ مفارقت !!
یہ انتہائی دُکھ کا مقام ہے کہ ہم نے انسانیت کو نسل پرستی ،قوم پرستی اور مذہبی تعصب کے خانوں میں بانٹ دیا ہے حالانکہ ہم سب کی اصل ایک ہے ۔یہ برادریاں ،یہ قبیلے ،یہ قومیں محض پہچان کی چیزیں ہیں۔ورنہ اقدارِ انسانیت اور اخلاق ِ انسانیت ناقابل تقسیم ہیں۔اگر واقعی انسانیت اسی کا مرکب ہے ،تو کیوں ہم ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ہم جنگلی درندے تو نہیں جو بقائے ذیست کیلئے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے پھریں ۔ایسا وہ کریں قابل فہم ہے ،اس لئے کہ وہ جبلت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ ہم تو شعور اور آگاہی رکھنے والے اشرف المخلوقات ہیں ،جو ’’جیو اور جینے دو‘‘کے اسلوب ِ فطرت پر تخلیق پاچکے ہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ ہم نے اس دنیا کو ظلم اور فساد سے بھر دیا ہے ۔ہم نے چیر پھاڑ کرنے والے جانوروں کی درندگی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔جس خون کی حرمت کے ہم محافظ ٹھہرائے گئے تھے ، اسی کو بہانے میںہمیں کوئی عار و شرم نہیں۔یہ سب اس لئے ہے کہ رنگ و نسل اور زبان و قوم پر انسانیت کو ترجیح دی گئی ہے ۔یا درکھئے اس قسم کے پیراہن جہاں تیار کئے گئے ،انسانیت کا کفن بھی وہیں سے ہی تیار ہوا۔زور آور نے جہاں کمزور کی گردنیں مسلنی شروع کیں،کمزور بھی سانس لینے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا ۔آخر بقائے ذیست کیلئے اسے بھی اس دنیا میں اپنا حصہ ڈھونڈنا ہے ۔
پیرا ملٹری فورسز کے اہلکاروں کے مارے جانے پر پورا بھارت غم زدہ ہے ۔ہر طرف سے واقعہ کی نہ صرف مذمت کی جارہی ہے بلکہ ’’بدلہ لینے ‘‘اور ’’سبق سکھانے ‘‘کی قسمیں کھائی جارہی ہیں۔اور ایسا کرنے کیلئے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ فوج کو ان کے الفاظ میں ’’کھلی چھوٹ ‘‘دی گئی ہے اور وہ جیسے اور جس طرح چاہیں ،’’گناہ گاروں کو سزا‘‘دیں۔
اپنے عزیز و اقارب کے کھونے پر جو غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے ،اس کا احساس کشمیریوں سے بڑھ کر اور کس کو ہوگا،جن کو روز اپنے بیٹوں کو لحدوں میں اتارنا پڑتا ہے ،جن کو روز اس دھرتی کے سینے کو اپنے چہیتوں کے کون سے نہلانے کے جگر سوز مناظر دیکھنے پڑتے ہیں،جن کو اپنے گھروں اور بستیوں میں اپنے لخت جگروں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں یا کٹے بکھرے اعضاء اور سوختہ باقیات وصول کرنی پڑتی ہیںاور جن کو چھروں والی بندوقوں سے بینائی چھینی جاتی ہے ۔جہاں روز مقتل سجتے ہوں ،جہاں روز والد کندھے پر کفن اٹھائے پھرتا ہے اور جہاں ہر روز گورکھن قبر کھودنے میں لگا ہوا ہے،اس بستی کے لوگ ہی جانتے ہیں کہ موت کی چادر کتنی بھیانک ہوتی ہے۔جدائی کا زہر کتنا کڑوا ہوتا ہے،اُس ماں سے پوچھو جو اپنے جوان بیٹے کی مردہ لاش سے ایکبار ،محض ایک بار آنکھیں کھولنے کی کرب انگیز التجائیں کرتے کرتے بے ہوش ہوجاتی ہے۔ہم زندگی کو جیتے جیتے موت کو جی رہے ہیں۔
ہماری خوشیاں غم کے ہونٹوں سے ’’مسکراتی ‘‘ہیں اور چھلکتے آنسوئوں کے شعلوں سے ’’کھِل‘‘ اٹھتی ہیں۔اسی لئے ہم سے زیادہ کون اس درد و کرب کو محسوس کرے جو پچاس کے قریب گھر والوںپر ٹوٹ پڑا جب اپنے پیاروں کو کھونے کی خبر ان کو ملی ہوگی ۔یہاں کسی نے ان انسانی ہلاکتوں پر اس سب کے باوجود جشن نہیں منایا بلکہ دکھ کا اظہار کیا۔لیکن ایک سوال ضرور بھارت کے حکمرانوں ،پولٹیکل اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سول سوسائٹی سے پوچھ رہے ہیںکہ آخر ہمارے بچے بھی اپنی مائوں بہنوں کے چشم و چراغ ہیں ،ان کے پھلنے پھولنے اور جوان کرنے میں ان کی بے چین راتوں ،دعائوں اور آنسوئوںکی انوسٹمنٹ( investment)ہے ۔وہ کسی پیڑ کی ٹہنی سے جنم نہیں لے چکے ہیں۔اپنی مائوں کی گود سے تمہارے ’’ویروں‘‘کی طرح وہ بھی زندگی پاکر جوان ہوئے ہیں۔مگر ہمارے بیٹوں کی ادھ کھلی جوانی لٹنے پر وہاں ۔تمہارے ہاں کسی افسوس اور دکھ کا معمولی سا اظہار بھی نہیں ہوتا بلکہ ٹیریرسٹ یعنی دہشت گرد کی لیبل لگا کر اس کا جشن منایاجاتا ہے ۔ان کے مارنے پر انعام دئے جاتے ہیں،پراموشن دی جاتی ہے اور سینوں پر تمغے سجائے جاتے ہیں۔آخر انسانی ہلاکتوں پر اس قسم کا دوہرا رویہ کیوں ؟ لہو کی یہ خانہ بندی کیوں ؟
بھارتی میڈیا ،نیوز چینلز ،حکومت اور سیاسی لیڈروں نے پلوامہ بم دھماکے کے پس منظر میں جس قسم کی ہیجان انگیزی کی اور جنگ کے طبلے بجانے شروع کئے ،اس میں کسی کو یہ ہوش ہی نہیں کہ کہ وہ یہ پوچھے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کشمیر کی اب چوتھی نسل مرنے مارنے پر آمادہ ہوچکی ہے ؟ کیوں وہ اس طرح کے انتہا پسندانہ اقدامات کرنے پر خود کو مجبور پارہی ہے جہاں موت سے ان کو خوف نہیں اور جس قسم کے گھٹن میں وہ جی رہے ہیں،اس پر موت کو ہی ترجیح دیتے ہیں ؟ ٹھیک ہے تمام سیاسی پارٹیاں پلوامہ کے واقعہ پر سوگ میں شریک ہوئیں اور فورسز کے ساتھ ’’یکجہتی‘‘کا اظہار کیا اور غم زدہ خاندان کے ساتھ شریکِ غم ہوئیں ۔مگر اب تک جو ہزارو ں کشمیری معصوم نہتے لوگ (ملی ٹنٹوں کو چھوڑ کر)قتل کئے گئے اور بڑے پیمانے پرزیادتیاں کی گئیں (جن کاذکر ایمنسٹی انٹر نیشنل ،اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن اوریورپی پارلیمان کی رپورٹوں میں آیا ہے)،آخر اس طرح کی میٹنگوں اور قراردادوں میں ہمارے ہزاروں سوگوار خاندانوں کے حق میں غم گساری کا ایک لفظ بھی بھاری کیوںپڑتاہے؟ کیا ہم انسان نہیں ہیں یا قو م پرستی کا جنون تمہاری آنکھوں سے اقدارِ انسانیت کی پوری روشنی چھین چکا ہے ؟
ہمیں معلوم ہے کہ اس قسم کے واقعات پر سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے مفادات کی روٹیاں سینکتی ہیں اور چناوی فائدے کے نکتہ نظر سے عوامی جذبات کو بھڑکاتی ہیں۔حکمران بی جے پی جس طرح سے اس واقعہ پر سیاست کررہی ہے ،لگتا ہے وہ اپنی چناوی مہم کا مرکز ثقل اسی ایشو کو بناچکی ہے ۔اسی لئے وہ جنگی جنون بھی پیداکررہی ہے ۔وہ یہ ادراک کرچکی ہے کہ اپنی پانچ سالہ ناقص کارکردگی اور گائے کے اردگردنفرت اور تفریق کی سیاست چلا کر اور آئینی اداروں کو کمزور کرنے ،غریبوں ،کسانوں اور مڈل کلاس طبقوں کی زندگیاں اجیرن بنا کے اس نے خود اپنے ہاتھوں ناکامی اور شکست کا سامان تیار کر رکھا ہے ،اس لئے اگر کچھ تلافی ہوسکتی ہتے تونوے کی دہائی کے رتھ یاتراکی طرح جنون کی کاشت کرکے اقتدار پر دوبارہ قبضہ کیا جاسکے ۔ لیکن سوال ہی ہے کہ کیا پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے سے کشمیر کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ؟ اور کیا جنگ شروع کرنے کے بعد نتائج کے بارے میں مودی سرکا ر اپنی قوم کو یہ اطمینان دلاسکتی ہے کہ نتائج ہر صورت میں بھارت کے حق میں نکلیں گے اور جنگ کا اختتام بھی ان کی مرضی پر ہوگا۔کوئی عقلمند آدمی اس قسم کی حماقت ہی نہیں کرسکتا ۔جہاں دونوں ہمسایہ ممالک نیوکلیئر ہتھیاروں ، بھاری فوجی طاقت اور اسلحہ سے لیس ہیں ،ایسے میں جنگ سرے سے ہی کوئی آپشن نہیں ،اِلّا یہ کہ بھاجپا حکومت نے پورے خطے کواپنے اقتدار کیلئے تباہ کرنے کا ارادہ کیا ہو۔
جنگ اور بدلے کی آگ کو بھڑکانے کے اس ہیجانی ماحول میں اگر چہ عقل و شعور رکھنے والے لوگ بھی کچھ گھبراسا جاتے ہیں اور کھل کر بات کہنے میں ہچکچاتے ہیں تاہم یہی ہے وہ موقعہ جب صاحبانِ عقل کو جرأت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے اور وہ تمام مصلحتوں سے بالاتر صورتحال کی نزاکت سمجھ کر ارباب ِ حل و عقد کو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ دیتے ہیںاور ان کی توجہ مسئلہ کی اصل جڑ کی طر ف مبذول کرتے ہیں۔نوجوت سنگھ سدھو،سابق کرکٹر اور پنچاب اسمبلی کے وزیر او ر کانگریسی لیڈر ہیں۔انہوںنے پلوامہ واقعہ کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت سرکار اور عوام سے کہا کہ دہشت گردی اگر چہ بری چیز ہے مگر اس کے وجوہات بھی تلاش کریں۔مسئلہ کی جڑ کیا ہے ،اس کو تلاش کرو اور حل کرو۔اس معقول بات پر اگر چہ ان کی پورے بھارت میں مذمت کی گئی مگر وہ اپنے بیان پر پورے اطمینان اور اعتماد کے ساتھ ڈٹے رہے ۔
اس کے ساتھ ہی ہندوستان ٹائمز نے جہاں مودی سرکارکوہوش مندی کے ساتھ واقعہ پر رسپانڈ کرنے کا مشورہ دیاوہیں نوجوت سنگھ سدھو کی طرح مسئلہ کے اسباب ڈھونڈنے کی بھی صلاح دی۔اپنے اداریہ ’’مرکز کو اپنے آپشن پورے احتیاط سے طے کرنے چاہئیں ‘‘(19فروری2019)میں اخبار نے حکومت سے کہا کہ وہ اس حقیقت پر غور کرے کہ آخر کیوں ’’مقامی نوجوان اپنے جسموں کو میزائیلوں میں تبدیل کررہے ہیں‘‘یعنی فدائین بن رہے ہیں۔یہی ہے وہ بڑی حقیقت جس پر حکومت ،سیاست دان ،سیول سوسائٹی اور فوج کو غور کرنا ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کشمیر کے لوگ بالخصوص نوجوان اس مقام تک آچکے ہیں ۔اس کا جواب صرف یہ ہے کہ کشمیر میںمودی سرکار نے جو مسکیولر اور جارحانہ پالیسی مزاحمتی تحریک کو کچلنے کیلئے اختیار کر رکھی ہے ،اس میں پر امن طور پر بات چیت کے ذریعے مسئلہ کو حل کرنے کی راہیں مسدود بنا ئی گئی ہیں۔نوجوان خود کو دیوار سے لگے اور تاریک گلی میں محصور پارہے ہیں۔اسی لئے جیسا کہ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس قسم کے اقدامات اٹھاتے ہیں۔لیکن افسوس بجائے اس کے کہ نوجوانوں کے جذبات کو سمجھ کر بات چیت کی راہ اختیار کی جائے ،یہاں صرف دھمکیاںدی جارہی ہیں اور فوج کو کھلی چھٹی دینے کی بات فخر کے ساتھ دہرائی جاتی ہے ۔ضرورت یہ ہے کہ سدھو اور ہندوستان ٹائمز کی معقول تجاویز پر غور کریں اور ان کو عملی جامہ پہنائیں۔
بشکریہ ہفت روزہ’’ نوائے جہلم ‘‘ سری نگر