شیخ ولی محمد
تعلیم کے حوالے سے ایک پُرانا نظریہ یہ بھی ہے کہ وہی بچہ اچھا ، شریف اور قابل ہے جو گھر پر والدین اور سکول میں اُستاد کے سامنے چپ چاپ رہے اور خاموشی سے تعلیم حاصل کرے۔ اگر بچے نے کلاس میں استاد کے سامنے کسی چیز کے بارے میں بات کی تو اس کوخلاف ادب اور نظم شکنی( Indiscipline)تصور کیا جاتا ہے۔ ڈسپلن کی تعریف یہی ہے کہ بچہ کلاس میں شورنہ مچائے اور کسی مضمون کے بارے میں اُستاد سے کوئی سوال نہ کرے ۔ جس چیز کی اُستاد بچے کو تعلیم دے وہ اسے من وعن قبول کرنا چاہئے ۔ اگرا متحانات میں کسی سوال کے جواب میں بچے نے اپنی ذہانت کی بنیاد پر کسی نقطے کی کمی یا اضافہ کیا تو اس کے نمبرات کاٹ دیئے جاتے ہیں ۔ مشہور ماہر تعلیم پال فریری (Paul Friere)اپنی کتاب’’ Pedagogy of the Opperssed ‘‘ میں اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ تعلیمی نظام ایک بینکنگ سسٹم کے مشابہ ہے جس کا مقصد طلباء میں علم کو اس طرح بھرا جاتا ہے جیسے بینک کو نوٹوں سے بھر ے جاتے ہیں۔ طلباء بھی محض ایک حاصل جمع کردار کے مانند بنے ہوتے ہیں جو علم کے خزانے کو بغیر تحقیق و تنقید اور بغیر سوال و جواب کئے حاصل کرتے جارہے ہیں ۔
یہ تعلیمی نظریہ کسی بھی لحاظ سے طلباء کے لئے بہتر نہیں ہے۔ اب یہ بات تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے کہ بچہ خودبخود علم حاصل کرتا ہے جس کے مختلف ذرائع ہیں ۔ کلاس میں بھی بچے کا یہی عمل ہوتا ہے کہ اسے صرف ایک راستہ دکھانا استاد کا اہم فریضہ ہے ۔ بچے کو اگر بولنے کی آزادی میسرنہ ہو اور استاد کا رسوخ بچوںپر اگر حاوی رہتا ہے تو بچے کی تخلیقی صلاحیت اس سے متاثر ہوتی ہے جو سیکھنے کے اعتبار سے بہتر نہیں کہی جاسکتی ۔ اس صورت حال میں طلباء میں اس بات کا ہمیشہ خوف رہتا ہے کہ اس کے ذریعے پوچھے گے سوال کا خمیازہ کہیں اس کی بے عزتی یا مذاق میں تبدیلی نہ ہوجائے۔حصول تعلیم کے دوران سوالات پوچھنے کی اہمیت اس لئے ضروری ہے کہ بچوں میں تنقیدی نظریہ اور سائنسی سوچ فروغ پائے ۔ جب یہ چیزیں ان میں پیدا ہوجائیں تو ان کا نصاب کی طرف رجحان بڑھے گا اور تنقید اسے تحقیق کی طرف متحرک کرے گی۔ عالم اسلام کے ممتاز اسکالر علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی تعلیمی عمل کے دوران سوالات پوچھنے پر زور دیتے ہوئے کہتا ہے کہ کسی استاد کی یہ عزت نہیں ، نہ شاگرد کے باادب ہونے کی یہ دلیل ہے کہ شاگرد حل طلب مسائل سے متعلق استاد سے سوال ہی نہ کرے کہ اسے حیا آتی ہے۔ وہ شخص علم حاصل نہیں کرسکتا جو شرم اور استاد کی بزرگی کا لحاظ رکھتے ہوئے کوئی سوال ہی نہ پوچھے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہے ’’ بہترین عورتیں انصار کی عورتیں ہیں کہ دین کا فہم و فراست حاصل کرنے میں ان کی حیا آڑے نہیں آتی‘‘ ۔ ( بخاری ) امام ابن شہاب زہری کہتے ہیں :’’علم خزانے اور سوالات ان کی چابیاں ہیں ‘‘۔ مطلب یہ کہ علماء کے سینے سے جو چیز علم کو باہر کھینچتی ہے وہ ان سے سوال کرنا ہے ۔ اس میں تو خود عالم کے لیے بھی فائدہ ہوتا ہے کہ دل میں بند اس کا علم باہر نکلتا ہے اور لوگوں میں پھیل کر حیات پاتا ہے ۔ طالب علم کے لیے فائدہ یہ ہے کہ اسے وہ چیز معلوم ہوجائے گی جو وہ نہیں جانتا اور وہ چیز زیادہ پختہ ہوجائے گی جو وہ جانتا ہے جب کہ جس بات میں اسے شک ہو اس کی بھی وضاحت ہوجاتی ہے ۔ صحابہ کرام ؓ نے بے شمار ایسے مسائل پوچھے ہیں جن کا مفہوم ان پر واضح نہ ہوسکا تھا اور انہیں جواب بھی دیا گیا ۔ حضرت عمر فرماتے ہیں : جو علم سیکھے ، وہ دوسروں کو بھی سکھائے اور جو علم نہ رکھتا ہو وہ علماء سے پوچھ لیا کرے ‘‘ ( رسول اکرم ﷺ اور تعلیم : ص ۱۷۰ ، ۱۷۱ )
فرانسس بیکن(Prancis Bacon)کا کہنا ہے ’’Who Questions much , shall learn much and retain much ‘‘ یعنی جو زیادہ پوچھتا ہے وہ بہت سیکھتا ہے۔ گویا سیکھنے کے لئے سوالات کا پوچھنا بہت ضروری ہے ۔ سوالات تدریسی عمل کا لازمی اور کلیدی جزو ہے جس کے بغیر موثر ،بہتر اور جدید تعلیمی تدریسی ممکن نہیں ۔ لیکچر کے دوران بچوں کے سوالات کی اہم وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ تدریسی ابہام اور غلط فہمی جوا ن کے ذہنوں میں پیدا ہوتی ہیں ان کو دور کیا جاسکے تاکہ نصاب اور کتاب کی مکمل سمجھ آسکے ۔ ساتھ ہی استاد کو یہ پتہ چلے کہ بچے کی ذہانت کس سطح پر ہے ۔بچوں کے سوالات کی اہمت کو بیان کرتے ہوئے معروف سائنس داں اور سابق صدر ہند ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا کہنا ہے۔
“One of the very important characteristics of a student is to question.Let the studetns ask questions”.یعنی بچوں کی خصوصیات میں ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ بچہ سوال کریں اور اسے موقعہ فراہم کیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری دم تک تعلیمی ادارے میں بچوں سے سوالات پوچھنے کیلئے کہتے تھے اور ہمیشہ سوالات کرنے پر ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ ایک تعلیمی ادارے میں بچوں کے ساتھ گفتگو کررہے تھے کہ اس دوران ایک بچے نے ان سے سوال کیا کہ ’’ دنیا کا پہلا سائنسدان کون تھا‘‘ ؟ ڈاکٹر اے پی جے عبد اکلام نے جواب دینے کے بجاے سکول کے سربراہ سے کہا کہ کل آپ مارننگ اسمبلی کے دوران تمام بچوں کے والدین کو بلانا اور میں اس وقت بچے کے سوال کا جواب دوں گا ۔ دوسرے روز مارننگ اسمبلی کے دوران جب تمام بچے ، ان کے والدین اور اساتذہ سبھی جمع ہوئے تو عبد الکلام نے اس بچے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ آپ ہی دنیا کے پہلے سائنسدان ہیں ‘‘۔یعنی جس بچے میں سوالات پوچھنے کی عادت ہووہی سائنس کے قریب ہے ۔ ایک تحقیق کے مطابق ایک پری سکول بچہ( Pre School Kid)دن میں اوسطاً 70سے 100سوالات پوچھتا ہے ۔ وہ کیا ہے ؟ گھاس سبز کیوں ہے ؟ مکھیاں خوبصورت کیوںہیں ؟ گلاب سرخ کیوں ہے ؟ دودھ سفید کیوں ہے ؟ شکر میٹھا کیوں ہے ؟ دوائی کھٹی کیوں ہے ؟ میرے دانت آپ سے کیوں چھوٹے ہیں ؟ اور اس طرح کے سوالات بچے کی زبان پر ہوتے ہیں ۔ والدین اور اساتذہ ایسے سوالات سُن کر بچے کوٹال دیتے ہیں ۔ حالانکہ سوالات کے جوابات سننے کے بعد بچوں میں سائنسی مزاج پیدا ہوتا ہے اور مختلف چیزوں کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں مزید سوچتے ہیں ۔ قدیم دور میں کسی چیز کے بارے میں واقفیت حاصل کرنے کے لئے سوالات کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی ۔ جو رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے جسکی وجہ سے بچوں کی سوچنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے ۔ دنیا کے بیشتر سائنسدانوں نے سوالات کے ذریعے ہی اہم معلومات اور دریافتیں کی ۔ اسحاق نیوٹن(Issac Newton )نے اگر درخت سے گرتے ہوئے سیب کے بارے میں اپنے آپ سے یہ سوال ’’ سیب اوپر کے بجائے نیچے زمین پر کیوں گرا ‘‘ ؟ نہ کیا ہوتا تو وہ ’’Father of Gravity‘‘ کے نام سے نہیں جانا جاسکتا ۔ اسی طرح البرٹ آئینسٹائین( Albert Einistien)نے جب یہ سوال کیا ’’ جب میں روشنی کی کرن پر سوار ہوجاؤں تو کیا ہوجائے گا ‘‘ ؟ تو پھر اسی کے ردعمل میں اس نے Theory of Relativityدنیا کے سامنے پیش کرکے ایک انقلاب برپاء کردیا ۔ چنانچہ آپ کا ایک مشہور قول ہے “The Important thing is not to stop Questining” یعنی سب سے اہم نقطہ یہی ہے کہ سوالات پوچھنے کا سلسلہ بند نہیں ہونا چاہئے ۔ہندوستانی سائنسدان سی وی رمن( C.V Raman)نے جب ایک آسان سوال ’’ سمندر کیوں نیلا ہے ‘‘ ؟ کا جواب چاہا تو پھر اس کو نوبل پرائز سے نوازگیا ۔ امریکہ کے معروف ماہر فلکیات ماریہ مچل( Maria Mitchel) کوجب صحافیوں نے انکی کامیاب سائنس کے متعلق ان سے پوچھا تو ان کا جو اب تھا کہ ایک آدمی کو سوال پوچھنے کے لیے سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ مشہور نوبل انعام یافتہ Isidor Isacc Rabiکا کہنا ہے کہ’’میری ماں نے مجھے سائنس دان بنادیا ‘‘۔ جب ان سے وجہ معلوم کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ Brooklynمیں ہر ایک اسرائیلی ماں اپنے بیٹے سے کہتی تھی کہ ‘‘ کیا آپ نے آج کچھ سیکھا‘‘ ؟ اس کے بجائے جب میں سکول سے گھر واپس آتا تو میری ماں مجھے پوچھتی کہ ’’ کیا آج آپ نے کوئی اچھا سوال پوچھا‘‘ ؟ ۔
Rudyard Kiplingانگریزی زبان کے مشہور ادیب سے پہلے ایک صحافی تھے۔ سوالات کا جذبہ اُبھارنے کے بارے میں انہوں نے انگریزی کی ایک رباعی میں جو باتیں بتائی ہیں وہ نہ صرف جرنلزم ( صحافت ) کے لیے بلکہ سائنسی علوم کی کھوج کے لیے کافی ہیں ۔
Once I knew six wise men
Who taught me all I know
What and Why and How and
When and Where and Who.
آج تک یہی 5Ws (Who,What,Why,When,Where)اور ایکH (How)مختلف علوم کو جاننے کی بنیادیں فراہم کرتی ہے ۔اب جبکہ حقائق سے یہ چیز ثابت ہوچکی ہے کہ بچوں کے ذریعے سوالات پوچھنے سے تعلیم کی طرف ان کی دلچسپی میںا ضافہ ہوتا ہے ۔ ان میں تجسس، تحقیق ور تنقید کا جذبہ اُبھرتا ہے ۔ کسی بھی چیز کے بارے میں غلطہ فہمی دور ہوجاتی ہے اور ان میں خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ استاد کو بچے کی صلاحیت کا اندازہ خود بخود ہوجاتا ہے۔ تو اساتذہ کرام پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ میں تعلیمی وتدریسی عمل کے دوران بچوں کی طرف سے سوالات کرنے پران کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کی طرف سے اٹھائے گئے ہر ایک نقطہ کی بھر پور وضاحت کریں جسے بچہ مطمئن ہوسکے۔اچھی سوالات کرنے پر بچوں کو انعامات سے بھی
نوزیں ۔ یہی قومی تعلیمی پالسی کا تقاضا ہے ۔