سنکیانگ میں مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کی خبریں گاہ بگاہ بہت سارے اخبارات و جرائد میں شایع ہوتی رہتی ہیں لیکن ابھی تک مسلم ممالک کی طرف سے کوئی بھی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔حال میں ہی سنکیانگ میں مسلمانوں پر روزے اور پردے پر پابندی عائد کرنے کی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں ۔سنکیانگ میں اندر ہی اندر ایک بھیانک منظر چھپا ہوا ہے جس کی منظر کشی پر چین نے سخت قسم کی پابندی عائد کی ہے۔یہ بھیانک مناظر ایغور مسلمانوں کی مظلومیت سے عبارت ہے۔ائبوٹا سریک ایک مسلم قزاق نژاد چینی خاتون ہے جس کے والد کو پچھلے سال ماہ فروری 2018 میں پولیس نے زیر حراست لیا تھا لیکن تا ہنوز اس کا کوئی اَتہ پتہ نہیں ہے کہ وہ کس حال میں ہیں، زندہ بھی ہے؟ یا ماراجاچکا ہے ؟بی بی سی کو دئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں اس خاتون نے بتایا کہ’’مجھے نہیں معلوم، میرے والد کو پولیس نے کیوںمحبوس کر کے رکھا ہے، نہ تو انہوں نے کسی چینی قانون کی خلاف ورزی کی تھی اور نہ ہی عدالت میں ان کے خلاف کوئی مقدمہ چل رہا تھا۔‘‘یہ کہتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔اس طرح کے سینکڑوں انٹر ویوز ہیں جو چینی مسلمانوں کی غم و الم کی اَن سنی داستانیں ہیں اور جنہیں سن کر دل مغموم اور آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں ۔ سنکیانگ کے مظلوم مسلم آبادی نے اپنے اوپر ڈھائے جانے والے بے تحاشہ مظالم کی داستانیں بین الاقوامی اداروں کے سامنے رو رو کے بیان کیں ،لیکن کوئی نہیں ہے جو ان کی مدد کرنے کے لئے تیار ہو۔کئی کئی سال سے بچے اپنے والدین سے اور والدین اپنے بچوں کے حال احوال سے بالکل بے خبر ہیں، کسی کو پتہ نہیں کہ ان کے جگر ٹکڑوں پر کیا بیت رہی ہے۔چین کے حراستی مراکز میں جو جو ناگفتہ بہ ظلم زیر حراست مسلمانوں پر ڈھایا جا رہا ہے، اس کا ذکر کر تے ہوئے رونگھٹے کھڑے جاتے ہیں اور دل تھر تھر کانپ اٹھتا ہے ۔حال ہی میں ’’وائس آف امریکہ‘‘ واشنگٹن کی جانب سے یہ خبر شائع کی گئی :اویغور مسلمان اکثریت والے چینی صوبے سنکیانگ میں حکام نے روزہ رکھنے پر سخت پابندی عائد کر دی ہے اور ہر ایغور مسلمان گھرانے کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر کڑی نظر رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بھی شخص روزہ نہ رکھے۔ ان احکام کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں ایغور برادری کو اجتماعی سزائیں دئے جانے کا خطرہ ہے۔اس بات کا انکشاف جلاوطنی اختیار کرنے والے ایغور افراد کی طرف سے قائم کردہ’ ’ورلڈ ایغور کانگریس‘ ‘نے جرمنی میں موجود اپنے صدر دفتر سے کیا ہے۔‘‘
سنکیانگ سے مختلف معتبر ذرائع سے باہر موصول کی گئیں رپوٹوں کے مطابق چینی حکام نے سنکیانگ میں ماہ صیام کے پورے مہینے میں ریسٹورانٹ کے مالکان کو دن بھر ریستوران کھلے رکھنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے اور اس پرظلم کی انتہا یہ بھی کہ چینی حکام کی طرف سے ہر دن مختلف کھانے پینے کی مجالس کا انعقاد کیا جاتا ہے، جن میں شرکت کرنے کے لئے مسلمانوں کو باضابطہ دعوتی خطوط ارسال کئے جاتے ہیں۔ان مجالس میں عدم شرکت کا مطلب ہے حراستی مراکز میں متوقع غیر معینہ حراست۔ان حراستی مراکز میں قیدیوں کو شراب زبردستی پلائی جاتی ہے اور جبراً حرام گوشت کھلایا جاتا ہے۔مسلم میٹرس ڈاٹ او آر جی کی سربراہ ہناہ زبری کے بقول ’’جب ہم ایغور مسلمانوں سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ پوری دنیا کے مسلمانوں نے ہمیں چھوڑ دیا ہے ۔ ‘‘ کیا اقوام متحدہ اور نام نہاد عالمی برادری ایغور کے مظلوم ومقہور مسلمانوں کے تئیں اپنی انسانی ذمہ داریوں اور فرائض سے یونہی اعراض برتے گی ؟۔
����