سنجیدہ فکر شہری کا نقش راہ
ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ساری دنیا کو اس وقت پانی کی قلت کا سامنا ہے کیونکہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ حد ت میں اضافہ کی وجہ سے برفانی ذخائر میں تیزی کے ساتھ کمی واقع ہو رہی ہے۔ ایسےحالات میں اگر پانی کے وسائل کی جانب سنجیدگی کے ساتھ توجہ مرکوز نہ کی جائے تو آنے والی نسلوں کو بھیانک صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس مایوس کن صورتحال میں یہ خبر ایک نوید سے کچھ کم نہیں کہ لداخ جیسے بلند و بالا پہاڑی خطہ میں ایک شہری نے، جو پیشہ سے انجینئر رہا ہے۔17مصنوعی گلیشر تیار کرکے اس خطہ کے کئی علاقوں میں پانی کی قلت کا توڑ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس کا میابی کہانی چیونگ نارفل نامی شہری، جو اسوقت معمر اور بزرگ ہیں، کی اتبدائی جوانی کے ایام میں شروع ہوئی ہے، جب اُ س نے پانی کے ایک ٹوٹے ہوئے نل سے بہنے والی پانی کو ایک کھڈ میں جمع ہوکر جمتے ہوئے دیکھا اور دیکھتے دیکھتے وہ ایک چھوٹے سے گلیشر میں تبدیل ہوگیا۔ یہی نوجوان جب اپنی تعلیم مکمل کرکے انجینئر بن کر واپس آگیا تو اس نے لداخ کے طول و عرض میں 17مقاما ت پر مصنوعی گلیشر قائم کرکے ہزاروں لوگوں کی مشکلات کا سدباب کیا۔ آج کی صورتحال کو دیکھ کر اس قابل احترام ہستی کو مشعل راہ بناکر حالا ت کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ ریاست ، خاص کر وادی کشمیر کے اندر قدرتی آبگاہوں کو جس قدر انسانی دست برد کا سامنا ہے ،وہ انتہائی تشویشناک ہے۔میڈیا رپورٹوں کے ذریعے بار بار کشمیر میں جھیلوں اور آبگاہوں کی تباہی کا جو نقشہ ابھر کر سامنے آتا ہے، اس کو دیکھ کر کسی بھی ذی حس انسان کا جگر پاش پاش ہوسکتا ہے۔ایشیاء میں تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیل ولر ، جسکا رقبہ 1911میں 217مربع کلومیٹر تھا، ایک رپورٹ کے مطابق سکٹر سمٹ کرمحض 58مربع کلو میٹر پر محیط رہ گئی ہے۔یہ انکشاف ویٹ لینڈ انٹرنیشنل ۔سائوتھ ایشاء نامی ایجنسی نے ایک سروئے کے بعد کیا تھا۔جھیل کے سکڑنے کا سبب اسکے کناروں پر تسلسل کے ساتھ ناجائز تجاوزات کا عمل ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق جھیل کے 70ہزار کنال رقبے کو بھرائی اور شجر کاری کے ذریعے اراضی میں تبدیل کیا گیا ہے ۔جھیل کا 28فیصدحصہ زرعی زمین میں تبدیل کیا جاچکا ہے اور 17فیصد حصے پر شجر کاری کی گئی ہے۔متذکرہ سروئے سے پتہ چلا ہے کہ جہلم کی وساطت سے ولر جھیل میں پہنچنے والی گندگی اور غلاظت کی وجہ سے اسکی حالت ابتر ہوگئی ہے ۔ یہ جھیل جو کبھی میٹھے پانی کیلئے مشہور تھی گندگی اور غلاظت سے اٹی ہوئی ہے۔زیادہ دور کی بات نہیں بلکہ چند دہائیاں قبل تک جھیل ولر وادی کشمیر میں موسم کی ناسازگاری کے بعد پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال کے تدارک کا ایک کلیدی ذریعہ تھی۔ یہ اپنے شکم میں سیلابی پانی کا ایک بڑا حصہ سمیٹ لیتی تھی۔ یہ جھیل مہاجر پرندوں کی بھی ایک بڑی آماجگاہ تصور کی جاتی تھی۔ اسکی اہمیت کے پیش نظر ہی 1990میں رامسر کنونشن کے تحت جھیل ولر کو بین الاقوامی اہمیت کی حامل جھیل قرار دیا گیا تھا۔بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ ہماری متواتر حکومتیں جس طرح ڈل ، نگین اور آنچار جھیلوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں بالکل اسی طرح جھیل ولر کے تحفظ کے بارے میں اب تک کی حکومتوں کے تمام دعوے سراب ثابت ہوچکے ہیں۔ حالانکہ ریاست کے ان قدرتی وسائل کے تحفظ اور بحالی کے لئے تسلسل کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اربوں روپے کی امداد حاصل کی گئی ہے۔ مرکزی سرکار نے صرف 6سال پہلے یعنی 2011میں جھیل ولر کے تحفظ کیلئے 389کروڑ روپے کی منظوری دے دی ۔لیکن بالخصوص گزشتہ چھ دہائیوں سے ہمارے حکمرانوں اور افسر شاہی کی لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے ریاست کے قدرتی وسائل تباہ ہی ہوتے چلے آرہے ہیں۔ بلکہ اب تو یہ ایک عام تاثر ہے کہ ہمارے قدرتی وسائل موٹی توند والوں کا شکم بھرنے کا ایک ذریعہ بن کر رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف ولر ہی نہیں بلکہ ڈل ، نگین اور آنچار جھیلوں اور دیگر آبگاہوں کی حالت بھی دن بدن بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے اسلاف ’ناخواندہ ‘ تھے لیکن اسکے باوجود انہیں ماحولیات کے تحفظ کی ضرورت کا بھر پور احساس تھا۔زبان ذد عام مقولہ ’’ان پوشہ تیلہ یلیہ ون پوشہ‘‘ کے ذریعہ شیخ نور الدین نوارنیؒ نے صدیوں پہلے ہمیں وہ بات سمجھائی تھی جو آج ہمیں سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں پتہ چل رہی ہے۔ہمارے اسلاف جھیلوں اور دریائوں میں گندگی پھینکنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے لیکن ہم ’تعلیم یافتہ‘ لوگوں اورہمارے حکام نے گندی نالیوں اور ڈرنیج کا رخ آبی ذخائر کی طرف موڑنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی اور نہ کررہے ہیں۔ ہمارے بزرگوں کی زندگیوں میں ہمارے جنگلات پھل پھول رہے تھے ، لیکن ہماری خود غرضیوں کی وجہ سے اب یہ تسلسل کے ساتھ سکڑتے جارہے ہیں۔ہماری زرعی زمینوں پر کنکریٹ کے دیو قامت ڈھانچے تعمیر ہورہے ہیں اور ہم اس پر فخرکرتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ مادیت کی دوڈ میں ہم بے حس ہوگئے ہیں اور’’کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا‘‘ کے مصداق ہمیں اپنے لٹنے کا کوئی ملال بھی نہیں ہے۔ متمدن معاشرے اور قومیں ہمہ وقت اپنے ماحولیات ، تمدن تہذیب اور اخلاق و اقدار کے تحفظ میں محو رہتے ہیںجبکہ ہم خود ان چیزوں کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس بات کا بھی احساس نہیں کہ یہ معاشرہ اور یہ زمین ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو منتقل کرکے چلے جانا ہے۔ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے بارے میں بھی فکر مند نہیں ۔کیا اس سے بڑی کوئی خود غرضی ہوسکتی ہے؟ایسے حالات میں کیا ہمارے لئے لداخ کے دور دراز خطے کے اس سنجیدہ فکر شہری کی جلائی ہوئی مشعل کو لے کر آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں؟۔