وادی کشمیر کے عوام پر سیاسی آندھی طوفان اب زندگی کا ایک معمول بن گیا ہے اور وہ اپنی کمزوری اور بے بسی کے بہ سبب اسکے وار سہنے پر مجبور ہیں، لیکن دوسری جانب انسان ساختہ مصائب بھی کچھ کم نہیں جنکی وجہ سے عام لوگوں کو جھوجھنا پڑتا ہے۔ سفیدوں کے درختوں سے اُڑنے والے روئی کے گالے جیسے زرگلPOLLENنے فضا کو بُری طرح آلودہ کرنا شروع کر دیا ہے۔کئی ایسے علاقوں میں ،جہاں سفیدوں کے درخت اچھی خاصی تعداد میںہیں، راہ چلتے لوگوں کے لئے سانس لینا بھی دشوار بنتا جا رہا ہے اور اس وبا سے ہر سال چھاتی کے امراض میں مبتلا ء ہونے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ زرِگل کے یہ گالے ہوائوں میں اُڑ کر گھروں کے اندر بھی داخل ہوتے ہیں جہاں اکثر چھوٹے بچے اسکا تختہ مشق بن جاتے ہیں۔ اس کے اس قدر باریک ریشے جو ننگی آنکھ سے دکھائی بھی نہیں دیتے آنکھ، ناک اور منہ کے راستے جسم میں داخل ہو کر انواع و اقسام کی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، جنکی وجہ سے لوگوں کو جسمانی تکالیف کے ساتھ ساتھ علاج ومعالجہ پر آنے والے خرچہ سے اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ آج کے دور میں معالجہ کے مختلف مراحل ہر شخص کے معیشی حالات سے میل نہیں کھاتے اور کم آمدن والے لوگوں، جنکی غالب اکثریت ہے، کو اس اضافی بوجھ کی وجہ سے ہفت خواں طے کرنا پڑتے ہیں۔ اگر چہ ریاستی ہائی کورٹ نے وقت پر لوگوں کی ان مشکلات کا بھر پور احساس کرکے حکومت کو ریاست بھر میں سفیدوں کی اس نوع کا صفایا کرنے کے واضح احکامات دیئے تھے لیکن اُن پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومت نے اس حوالے سے کوئی کاروائی نہیں کی ہو لیکن اگر اُسے کاغذی کارروائی سے موسوم کیا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا، کیونکہ کم و بیش ہر سال انتظامیہ کی جانب سے اخبارات کے ذریعہ نوٹس جاری کرکے سفیدے اُگانے والوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ روسی سفیدے کاٹ دیئے جائیں ، بصورت دیگر انکےخلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔ لیکن اسکے باوجود نہ تو سفیدے کاٹے جاتے ہیں اور نہ ہی حکومت کی جانب سے کسی کے خلاف کوئی قانونی کاروائی ہوتی ہے ۔اس کے برعکس اس موزی شےکی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو تا جارہا ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ کئی علاقوں میں انتظامیہ کی ناک کے نیچے روسی سفیدوں کی نرسریاں قائم کی گئی ہیں، جہاں سے بوٹے مارکیٹ میں سپلائی ہوتے ہیں۔ چونکہ سفیدے کی لکڑی باقی لکڑیوں کے مقابلے میں قدرے سستی ہوتی ہے اور مقامی میوہ جات کی پیکنگ اور مکانات کی چھتیں ڈالنے میں بڑی مقدار میں استعمال ہوتی ہے، لہٰذا اسکی تجارت کے ساتھ ایک بہت بڑا حلقہ وابستہ ہے، جو اسکے خاتمہ کو اپنے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ لکڑی کی تجارت میں اسکا ایک اہم حصہ ہے، لیکن جو شے انسانی وجود کےلئے تکلیف کا سبب بن جائے، اسکا متبادل تلا ش کرنا بہت ضروری ہے۔ عدلیہ نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے اور اب ذمہ داری انتظامیہ کی بنتی تھی جو نا معلوم وجوہات کی بنا پر کنی کترانے کو ہی ترجیح دیتی رہی ہے،حالانکہ سیلاب 2014کے بعد ندی نالوں کے کناروں سے غیر قانونی شجری کاری ،جو پانی کے بہائواور نکاس میںرکاوٹ کا سبب بن رہی تھی ،کا خاتمہ کرنے کی غرض سےعدلیہ کے احکامات من و عن نافذ کرنے کی غرض سے انتظامیہ نے بڑی مستعدی اور تند ہی کا مظاہرہ کیا تھا اور اس کے حوصلہ افزاء نتائج سامنے آئے ہیں۔ عوامی حلقوں کی جانب سے بھی اس کار خیر کےلئے ضلعی انتظامی اداروں کو سراہنے میں کوئی پس و پیش نہ کیا گیا تھابلکہ اگر دیکھا جائے تو اکثریت کی جانب سے عملی تعاون کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا تھا۔ ظاہر سی بات ہے روسی سفیدوں کے خاتمہ میں ایسے حلقے ضرور سد راہ بننے کی کوشش کرینگے ، جن کے مفادات انکے فروغ سے وابستہ ہیں مگر عوام الناس کی اکثریت کو اسکی وجہ سے بہت مشکلات اور تکالیف کا سامنا ہے، جسے دور کرنے کےلئے سنجیدہ اور کارگراقدامات کرنے کی ضرورت ۔ محض لوگوں کو متنبہہ کرنے سےکوئی نتیجہ برآمد ہونے کی توقع رکھنا بیوقوفوں کی جنت میں رہنے کے برابر ہے۔ اس مصیبت کا قلع قمع کرنے کی خاطر ایک بھر پور مہم شروع کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، وگرنہ ایذاء رسانی کا یہ موسم گزر کر پھر سال بھر کےلئے یہ دفتر بند ہوجاتا ہے۔ فی الوقت لوگوں کو جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، اُسکا کوئی پرسانِ حال نہیں۔