سر سید ایک دردمند مصلح، دور اندیش درویش، مایہ ناز عالم، دینی وعصری علوم کے ماہر، ناموس رسالت کے محافظ، کامیاب مصنف، بے مثال ادیب، عظیم فلاسفر، بلند پایہ اسلامک اسکالر اور اس ملک کی عظیم درسگاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی تھے۔ 17 اکتوبر 1817 کو دہلی کے ایک سادات خاندان میں آنکھیں کھولیں اور پوری زندگی اپنی قوم کو زوال وانحطاط کی کھائی سے نکالنے کی انتھک کوششیں کرتے ہوئے 27 مارچ 1898 میں اس دار فانی کو الوداع کہہ گئے۔
یومِ ولادت کے موقع پر اس مرد مجاہد کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے جمود وتعطل کی شکار مسلمانوں کے اندر علمی تحریک پیدا کرنے، تعلیمی بیداری لانے اور ان کے اندر سے جہالت وناخواندگی کو دور کرنے میں بے مثال کردار ادا کیا۔
سر سید احمد خان نے قوم کی اصلاح وترقی تعلیم وتربیت کا بیڑا اس وقت اٹھا یا تھا جب برصغیر کی سر زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور ظالم انگریز ان کے خون کے پیاسے تھے۔ انہیں پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا جارہا تھا، گولیوں کا نشانہ بنایا جارہا تھا اور توپوں سے اڑایا جارہا تھا۔سر سید نے اپنی آنکھوں سے دہلی کو اجڑتے اور اپنی قوم کو لٹتے دیکھا تھا۔ ان کے گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی، ان کی جائیدادیں ضبط کرلی گئیں تھیں، تجارت ومعیشت کی تمام راہیں مسدود تھیں اور ملازمت کے دروازے ان پر بند تھے۔اس بے بسی، لاچارگی اور اپنی قوم کی تباہی وبربادی نے سر سید علیہ الرحمہ کو جھنجھوڑ دیا۔ وہ خود لکھتے ہیں "غدر کے بعد مجھ کو نہ تو اپنے گھر کے لٹنے کا رنج تھا اور نہ ہی مال واسباب کے تلف ہونے کا، جو کچھ رنج تھا وہ قوم کی بربادی کا تھا، آپ یقین کیجئے اس غم نے مجھے نڈھال کردیا اور میرے بال سفید کردیئے اور یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ نہایت ہی نامردی اور بے مروتی کی بات ہوگی کہ اپنی قوم کو تباہی کی حالت میں چھوڑ کر میں کسی گوشئہ عافیت میں جابیٹھوں اس مصیبت میں ان کے ساتھ رہنا چاہئے"۔ پھر ارض وسماں نے دیکھا کہ تا عمر سرسید قوم کا مقدر سنوارتے اور انہیں سہارا دیتے نظر آئے
بڑی مدت میں ساقی بھیجتا ہے ایسا مستانہ
بدل دیتا ہے جو بگڑا ہوا دستور میخانہ
سرسید کی دور اندیش نگاہوں نے یہ دیکھ لیا تھا کہ اگر قوم کو تباہی وبربادی سے بچانا ہے اور انہیں زوال وانحطاط، پسماندگی وذلت سے ترقی کی راہ پر لانا ہے تو انہیں انگریزی تعلیم سے آشنا اور عصری علوم سے آراستہ کرنا ہوگا۔ وہ آکسفورڈ اور کیمبرج دیکھ آئے تھے اور چاہتے تھے کہ ہماری قوم کے نوجوانوں کے ایک ہاتھ میں فلسفہ، دوسرے ہاتھ میں نیچرل سائنس اور سر پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا تاج ہو۔ اپنے ملک میں بھی ایک ایسی درسگاہ ہو جہاں سے علم کی روشنی پوری دْنیا میں پھیلے لیکن اس دورِ بے کسی میں یہ اتنا آسان نہ تھا، اس کے لئے سر سید کو اپنے گھر کے ساز و سامان تک فروخت کرنے پڑے۔اس مشن کی تکمیل کے لئے آپ نے کبھی چندہ کے لئے دامن پھیلایا تو کبھی پاؤں میں گھنگھرو باندھے۔ بدلے میں مخالفین نے گالیاں دیں، طنز کے نشتر مارے، طعنوں کے تیر برسائے ، اخبارات میں آپ کے خلاف مضامین لکھے گئے،آگرہ سے شائع ہونیوالے تیرھویں صدی، کانپور سے نکلنے والے نورالافاق اور مرادآباد سے شائع ہونیوالے لوح محفوظ میں آپ کے کارٹون تک چھاپے گئے۔یہیں پر بس نہیں ہوا علماء مکہ سے آپ کے خلاف کفر کا فتویٰ منگوایا گیا جس میں لکھا گیا تھا کہ "سرسید خارج از اسلام ہیں اس لئے اہل ایمان پر یہ فرض ہے کہ اس کے بنائے ہوئے درسگاہ کو منہدم کردیں۔" ان شدید ترین مخالفتوں کا سامنا کرتے ہوئے انجمن اسلامیہ لاہور میں ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کرتے ہوئے درد بھرے انداز میں آپ نے فرمایا تھا ؛ "لوگو! ہاں میں عرض کرتا ہوں کہ میں کافر ہوں مگر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر ایک کافر آپ کی قوم کی بھلائی کی کوشش کرے تو کیا آپ ان کو اپنا خادم اور خیر خواہ نہیں سمجھیں گے؟ آپ میری محنت اور اپنی مشقت سے اپنے بچوں کے لئے ایک عظیم تعلیمی ادارہ بننے دیجئے، اس کالج کو قائم کرنے میں مجھے دس سال لگے ہیں اور آپ ایک دن میں برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں" ۔جب مخالفت حد سے بڑھی تو آپ کے چند رفقاء نے کہا کہ ہمیں اجازت ہو ہم ان مخالفین کو جواب دینا چاہتے ہیں تو اس مرد قلندر نے کہ" رہنے دو میں تو ہدف ملامت بن چکا ہوں مجھے کہاں تک بچاؤ گے؟ یہ جو کہتے ہیں انہیں کہنے دو ایک وقت آئے گا جب لوگ میرے سوزِ دل کی قدر کریں گے۔‘‘
تاریخ کی آنکھوں نے وہ وقت بھی دیکھا کہ سرسیدنے جس عزم کے ساتھ 1875 میں مدرستہ العلوم کی بنیاد ڈالی تھی وہ 1877 میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میں تبدیل ہوا اور پھر یہ آپ کی جی توڑ محنت، خلوص و للہیت کا نتیجہ تھا کہ وہی کالج 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنا اور آج پورا ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اس چمنستان سرسید سے فیضیاب ہورہی ہے، چشمہ علم وادب سے سیراب ہورہی ہے اور انشاء اللہ تا قیامت ہوتی رہے گی ۔
شام در شام جلیں گے تیری یادوں کے چراغ
نسل در نسل تیرا درد نمایاں ہو گا……
سر سید ایک عظیم مفکر، مسیحائے قوم ودرمند مصلح ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سچے محب وطن وگنگا جمنی تہذیب کے حقیقی علمبردار بھی تھے۔سرسید کے نزدیک قوم سے مراد ہندو ومسلمان دونوں ہیں ۔ان کا وہ سچا وپیارا جملہ بھلا کون بھلا سکتا ہے کہ" یہ ملک ایک خوبصورت دلہن کی مانند ہے، ہندو مسلمان اس کی دو پیاری آنکھیں ہیں، کسی ایک آنکھ کو اگر نقصان پہنچتا ہے تو دلہن کا حسن یعنی اس ملک کی خوبصورتی ختم ہوجائے گی‘‘۔
آج ضرورت ہے کہ سرسید کے اس پیغام کو عام کیا جائے۔ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک میں گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دیا جائے۔ہندو مسلم اتحاد کی مثال قائم کی جائے۔ علی گڑھ تحریک جسے آپ اور آپ کے جانثاروں نے خون پسینے سے پروان چڑھایا تھا، اسے پھر سے زندہ کیا جائے اور اپنی نئی نسل کو اسی تعلیمی مشن سے جوڑا جائے جس سے وہ ہمیں جوڑ کر گئے تھے تا کہ عزت وسرخروئی ہمارا مقدر ہو۔میں اپنی تحریر کو ایک ایسے نامور شاعر کے خوبصورت شعر پر مکمل کرنا چاہوں گا جو سر سید کی سوچ وفکر، جدت پسندی اور انگریزی تعلیم پر ہمیشہ طنز کیا کرتے تھے لیکن جب انہوں نے قوم کے غم میں سرسید کو گھلتے دیکھا، قوم کی ترقی کے لئے ان کی محنت، جد و جہد، انتھک کوششوں اور بے مثال قربانیوں کا مشاہدہ کیا تو بالآخر ایک دن وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ؎
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے، کرنے والے میں
کہے جو چاہے کوئی، میں تو یہ کہتا ہوں اے اکبر
خدا بخشے، بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
رابطہ ۔ متعلم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
موبائل نمبر۔9536236908