جنگجوئیت پر قابو، بہتر انتظام اور ہمہ گیر ترقی گورنر راج کے تہرے مقاصد: رام مادھو
سرینگر// بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری رام مادھو نے ان قیاس آرائیوں کو مسترد کیا کہ انکی جماعت پی ڈی پی سے حمایت واپس لینے کے بعد حکومت سازی میں درکار ممبران کو حاصل کرنے اور مطلوبہ ہدف پورا کرنے کیلئے کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا’’ نہیں،ہماری طرف سے نہیں‘‘۔گریٹر کشمیر کو انٹر ویو دیتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ بی جے پی کو جموں میں تعداد ہے،مگر کشمیر میں انکی ساخت نہیں۔انہوں نے کہا’’مجھے وہ آپشن بتائے(حکومت سازی کیلئے)،ہم نے پی ڈی پی کے ساتھ ناطہ توڑ دیا،اور واپس جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘۔ نیشنل کانفرنس اور بی جے پی کا ناطہ نہیں جڑ سکتا،کیونکہ عمر عبداللہ نے پہلے ہی اس کو خارج از امکان قرار دیا ہے،ہماری طرف سے کوئی بھی کوشش نہیں کی جا رہی ہئے،تاہم اگر نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی سمجھتے ہیں کہ وہ مل کر الائنس بناتے ہیں،تو انہیں کون روک رہا ہے۔ رام مادھو بدھ کو سرینگر پہنچے اور ریاستی گورنر سے ملاقی ہوئے،جس کے بعد سہ پہر کو پیپلز کانفرنس(س) کے چیئرمین سجاد غنی لون سے بھی ملاقی ہوئے۔ سجاد غنی لون اور رام مادھو کے درمیان میٹنگ کے بعد یہ قیاس آرئیاں شروع ہوئیں کہ شائد نیا سیاسی الائنس بنانے کی کوششیںکی جا رہی ہے،جس میں ممکنہ طور پر سابق وزیر سجاد غنی لون کا بڑاکردار ہوگا۔رام مادھو کا کہنا تھا کہ انکی جماعت کا گورنر راج کے نفاذ کے پیچھے3نکاتی مقصد جنگجویت پر قابو پانا ، جامع ترقی اور گورننس ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ ہمارا موقف ہے،اور ہمیں امید ہے کہ گورنر راج کے دوران اس ہدف کو پورا کیا جائے گا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر گورنر راج6ماہ تک جاری رہا،اور بعد میں وسط مدتی انتخابات کرانے پڑیں تو انہوں نے کہا کہ ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ کسی حکومت سازی کی تجویز دیں،اور اگر سب ناکام رہا تو6ماہ کے بعد انتخابات ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وسط مدتی انتخابات ہی راستہ رہا،تو ہمیں انتخابات کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی محسوس کرتی ہے کہ ریاست میں گورننس میں خامیاں تھیں،جس کی وجہ سے کشمیر میں ترقیاتی اور سیاسی سرگرمیاںٹھپ ہوئیں۔انہوں نے کہا’’ بنیاد پرستی اور دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا تھا،اور ہم نے محسوس کیا کہ یہ صحیح وقت ہے کہ حکومت کا خاتمہ کیا جائے،جبکہ مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو اچھی گورننس کے اصل معنی سے آگاہ کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان کچھ وقت سے دوری بڑھتی جارہی تھی۔رام مادھو نے کہا’’ دہشت گردی سے نپٹنا ایک طرح کی حکومت ہے،تاہم ہمیں اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ سیاسی سرگرمیاں جاری رہیں،اور ترقیاتی کام بھی جاری رہے،مگر یہ نہیں ہو رہا تھا۔انہوں نے کہا کہ ان خدشات کی وجہ سے،ہم نے جموں کشمیر کے عوام کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے سرکار سے بے دخل ہونے کو اہم سمجھا۔انہوں نے بتایا کہ سرکار سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ یکایک نہیں لیا گیا،جبکہ پارٹی کے وزراء نے کئی بار کابینہ میٹنگوں کے دوران محبوبہ مفتی سے خراب صورتحال ،اور ترقی و گورننس میں خامیوںسے متعلق معاملے بھی اٹھائے،تاہم کچھ حاصل نہیں ہوا،جس کے نتیجے میں یہ فیصلہ لینا پڑا۔انکا کہنا تھا کہ حکومت سازی کا مطلب صرف جنگجوئوں کو ختم کرنا نہیں ،بلکہ صورتحال کو بھی ٹھیک کرنا ہے۔رام مادھو نے کہاکہ بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ اس امید میں تین برسوں تک کام کیا کہ وہ گورننس کا بہتر نظام مہیا کرسکیں لیکن انکی پارٹی میں یہ احساس روز بہ روز بڑھ رہا تھا کہ مقاصد اور اہداف حاصل نہیں ہورہے تھے ۔انہوں نے کہاکہ یہ الزام تراشی نہیں بلکہ یہ ہمارا نظریہ ہے کہ مقاصد حاصل نہیں ہورہے تھے ۔پی ڈی پی کے اس الزام کہ بھاجپا بھی حکومت کا حصہ تھی ،اس لئے وہ بھاگ نہیں سکتی ،رام مادھو کا کہنا تھا کہ ،یہ سچ ہے کہ ہم حکومت میں شامل تھے لیکن ہم ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں تھے ۔اس جگہ پی ڈی پی اور محبوبہ مفتی تھیں ۔رام مادھو نے کہاکہ گذشتہ تین برسوں میں کورپشن بڑھ گیا ۔اور اس جیسے دیگر اشوز کو بہتر انداز سے حل کیا جاسکتا تھا ۔انہوں نے کہاکہ پی ڈی پی ہماری مرضی کے بغیر بھی فیصلے لیتی تھی جیسے کہ انہوں نے بڑی تعداد میں صلاح کار تعینات کئے تھے ۔اتنی تعداد میں صلاح کار بڑی بڑی تنخواہوں کے عوض کس وجہ سے تعینات کئے جانے تھے حالانکہ آپ کے پاس باصلاحیت کے اے ایس اور آئی اے ایس افسران کی کافی تعداد موجود ہے ۔اور ان صلاح کاروں کی تعیناتی سے کیا فائدہ ہوا۔آپ ریاست کی صورتحال کو دیکھیں ،ہمیں محسوس ہوا کہ ہماری اور ان کی سوچ میں تضاد بڑھ رہا ہے ۔سیز فائر ے بارے میں رام مادھو کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت نے جنگجوئوں کے خلاف آپریشن کو مضبوطی کی پوزیشن میں روک دیا تاکہ عوام کو راحت ملے ۔انہوں نے کہاکہ حکومت ہند نے توقع کی تھی کہ جنگجو نہیں بلکہ حریت اور دیگر سیاسی پارٹیوں سے مثبت رد عمل سامنے آئے گا ۔لیکن اسکے جواب میں کسی سیاسی سرگرمی کا مظاہرہ نہیں ہوا،نہ ہی حریت اور نہ ہی جنگجوئوں کی طرف سے اس پر کوئی ردعمل آیا اور جنگجوئوں کی طرف سے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا ۔انہوں نے کہاکہ شجاعت بخاری (ایڈیٹر ان چیف رائزنگ کشمیر)کو ایک وی آئی پی علاقے میں دن کے اجالے میں قتل کیا گیا ۔اس طرح سے یہ صورتحال سامنے آئی کہ مرکزی حکومت کی طرف سے مثبت پہل کا مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا ۔حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ سارا سسٹم ہی اس مرکزی پہل سے متحرک ہوتا لیکن دوسری جانب سے ایسا کچھ نہیں ہوا اور ہم یہ محسوس کرنے لگے کہ آپریشن روکنے سے کوئی مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔رام مادھو کا مزید کہنا تھا کہ حکومت ہند نے ایک خصوصی نمائندہ مزاکرات کیلئے تعینات کیا لیکن حریت نے ملنے سے انکار کیا ۔وزیر داخلہ کی جانب سے مذاکرات کا اعلان کئے جانے کے باوجود وہ سامنے نہیں آئے ۔ایسے میں پولیس والوں کا تھانوں میں قتل کیا جاتا ہے حریت والے مذمت بھی نہیں کرتے ۔تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نظام صحیح طریقے سے کام نہیں کررہا ہے اور ہم اس نظام میں کام نہیں کرسکتے تھے ۔مذاکرات کے بارے میں رام مادھو کا کہنا تھا کہ نئی دلی سے مذاکرات کی پیش کش برقرار ہے ۔حریت والوں کو آگے آنا ہوگا ۔انہوں نے کہاکہ مرکزی نمائندہ بھی اس وقت یہاں موجود ہیں ۔انہوں نے کہاکہ حریت والے بات نہ کرنے کے کئی بہانے بناتے ہیں ۔مذاکرات میں شمولیت کی حامی بھرنے کیلئے پیشگی شرائط نہیں رکھی جاتی ہیں ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے ساتھ کس طرح بات کرنی ہے وہ مرکز کو اچھی طرح معلوم ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہمیں جموں وکشمیر کی فکر ہے اور ہم یہاں امن و امان دیکھنا چاہتے ہیں ۔