’’اگر اِسلام میں بُت پرستی جائز ہوتی تو میں سر سید احمد خان کا بُت بناکر اُس کی پوجا کرتا‘‘ یہ الفاظ ابوالکلام آزاد کے ہیں ،اور اس حقیقت کے معترف ہیں کہ مولانا ابوالکلام آزاد جیسی شخصیت جوکہ اُردو نثر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں ۔ وہ بھی کسی شخصیت کی عظمت کو سلام کرتے ہیں اور جس شخصیت کی عظمت کا وہ کُھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں، اُس شخصیت کو زمانہ سر سید احمد خان کے نام سے یاد کرتا ہے ۔
یہ قول یونہی نہیں بلکہ سر سید احمد خان واقع ہی اُس سایہ دار شجر کی مانند تھے، جس کے سائے تلے گوناگوں، دردمندوں، بے سہاروں اور جاہلوں نے ہزاروں میلوں کی مُسافت کا کامیاب سفر طے کیا۔
آج میں خود کو بڑا خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ آج ایک عظیم مُفکر، دانشور، سیاستدان، بیدارِ مغز اور عالمِ دین کی حیات و ادبی کارناموں پر روشنی ڈالنے کا موقع نصیب ہوا۔
درحقیقت یہ وہ شخصیت ہے ،جس کے بارے میں اگر ہزاروں قصیدے پڑھے جائیں، مقالات و مضامین تحریر کئے جائیں،تب بھی اس کثیرالعظیم شخصیت کے بہت سارے پہلو تَشنہ ہی رہے جائیں گے۔بہرحال اس عظیم شخصیت کے بارے ميں اپنے احساسات وجذبات اور تصورات کا اظہار کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش کر رہا ہوں۔جس کے بارے ميں میرے احساسات صد فیصد کچھ ایسے ہی ہیں کہ :
شرق وغرب کو ایک کرنے والا
اخلاص کا رنگ سب میں بھرنے والا
سیّد کی زبان میں اثر تھا اتنا
ہر لفظ دِلوں میں تھا اُترنے والا
دراصل جس وقت سر سید احمد خان نے اس جہانِ فانی میں آنکھ کھولی ۔اُس وقت ہندوستان کی مُسلم Community انتہائی کرب کے عارضے میں مُبتلا تھی۔کیونکہ EAST INDIA COMPANY کے متعصب انگریز مُسلمانوں سے انتہائی درجے کی نفرت کرتے تھے، عیسائیوں کا یہ ٹولہ تاجروں کے لباس میں ہندوستان میں داخل ہوا اور سازشوں کے تحت ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ بنگال کا مُسلمان جو آج Secularism کا راغ الاپتے الاپتے اپنی اصل سے باگ رہا تھا ۔یہی وہ علاقہ تھا جو سب سے پہلے اِس سامراج کے راستے کی چٹان ثابت ہوا تھا۔اس کے بعد میسور کے شیر ٹیپو سلطان نے اُن کا راستہ روکنے کی کامیاب کوشش کی تھی ۔لیکن بَدقسمتی ہندوستان کے مسلمانوں کی یہ رہی ہے کہ اکثر یہ خود ہی اپنی پیٹھ میں چُھرا گونپتے ہیں ۔
سامراجی لوگ یہ واضح طور پر محسوس کر رہے تھے کہ اُن کے سامنے سب سے بڑی رُکاوٹ مسلمان ہی ہیں ۔انگریزوں نے LONG TERM POLICY کے تحت سب سے پہلے مُسلمانوں کے بچوں کی تعلیم پر شب خون مارا۔عیسائی مشنری اسکول کھولے گئے اور عیسائیوں نے مشنری تعلیم دینی شروع کی اور مسلمانوں کے بچے جو کورے کاغذ کی مانند تھے اُن پر گہری سیاہی سے عیسائیت تحریر کرنے کی کوشش کی۔جن جن علاقوں میں یہ تاجر جاتے تھے، مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو بند کرتے تھے اور اُن کی جاگیروں اور جائیدادوں کو جبراً چھین کر اُنھیں مجبور و محتاج بنا دیتے تھے۔اِس صورتحال سے HINDU COMMUNITY نے بھر پور فائدہ اٹھایا، ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا ہوگئی۔
برِصغیر کے مُسلمانوں کی تقدیر بدل دینے والوں میں اوّل نام سر سید احمد خان کا ہی آتا ہے ۔یہ بات آج ہمیں ہر صورت میں ماننی ہوگی کہ سر سید احمد خان ہی ہندوستان کی مِلت اسلامیہ کے معمار اعظم اور عظیم دفاعی حصّار تھے۔کیونکہ1857 کی جنگِ آزادی کی ناکامی کی وجہ سے اُس پُر آشوب دور میں کوئی ایک بھی مردِ مُجاہد ایسا نہ تھا جو ہندوستان کی تباہ حال مِلت اسلامیہ کی ابتر حالت کو سنوارنے کی طاقت رکھتا ہو۔اُس وقت کوئی بھی ہندوستان کے مُسلمانوں کا پُرسانِ حال نہیں تھا۔ لهٰذا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ سر سید احمد خان مُسلمان قوم کے لئے معمار اعظم تھے۔سر سید احمد خان جیسی شخصیات صدیوں کے بعد پیدا ہوتیں ہیں کہ :
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے
اگر رب العزت نے مسلمانوں کو غلام ہی رکھنا ہوتا تو سر سید احمد خان جیسی شخصیت پیدا نہ ہوتی۔ سر سید احمد خان کی ایک تحریر کے آئینے میں اُس زمانے کی تصویر ملاحظہ فرمائیں ۔
ً کوئی آفت ایسی نہیں تھی جو اُس زمانے میں نہ ہوئی ہو اور یہ نہ کہا گیا ہو کہ مُسلمانوں نے کی، کوئی بھلا آسمان پر سے نہیں چلی، جس نے زمین پر پہنچنے سے پہلے مُسلمانوں کا گھر نہ ڈھونڈا ہو، جو کتابیں اس ہنگامے کے تحت تصنیف ہوئیں اُن میں بھی یہی کہا گیا کہ ہندوستان میں مُفسِد اور بَدذات کوئی نہیں مگر مُسلمان ،مسلمان ،مُسلمان، کوئی کانٹوں والا درخت اُس زمانے میں نہیں اُگا، جس کی نسبت یہ نہ کہا گیا کہ اُس کا بیچ مسلمانوں نے بویا تھا ۔کوئی آتشیں بگولہ نہیں اُٹھا جو یہ نہ کہا گیا کہ مُسلمانوں نے اُٹھایا تھا ،
اس صورتحال میں دُشمنوں سے مُقابلہ آرائی اور تصادم اجتماعی خودکشی کے مُترادف تھا۔سر سید احمد خان اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ تھے کہ قوموں کی ترقی کا راز ظاہری قوت سے زیادہ ذہنی قوت میں مُضمر ہوا کرتا ہے ۔خود انگریزوں کی برتری اور بالا دستی عیسائیت کے بجائے علمی تفوق کے رہیں منت تھی۔چنانچہ سر سید احمد خان نے اپنی پوری زندگی علم وادب کے فروغ واشاعت کے لئے وقف کردی۔سر سید احمد خان کے زمانے میں تعلیم کا رواج برائے نام تھا۔ وہ بھی صرف مذہبی اور روایتی علوم تک محدود تھا۔انگریزی علوم کو لوگ شجرِ ممنوعہ سمجھتے تھے ۔سر سید احمد خان نے انگریزی زبان اور جدید علوم کی آفادیت واضح کرتے ہوئے لوگوں کو اسطرف راغب کیا، سر سید احمد خان کا خیال تھا کہ ’’ اگر مُسلمان جدید علوم یعنی مغربی تعلیم کی تحصیل کی طرف متوجہ نہ ہونگے تو وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے‘‘۔
سر سید احمد خان نے اُردو زبان وادب کی بھی گراں قدر خدمات انجام دیں ۔انہوں نے اپنی زندگی میں مختلف قیمتی کتابوں کے علاوہ رسائل و جرائید بھی اجراء کرائے،جو علمی و ادبی اعتبار سے آج بھی اُردو زبان وادب میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اس کے علاوہ علی گڑھ تحریک مسلمان قوم کے محسن اور اُردو زبان وادب کے مسیحا سر سید احمد خان کی مُسلسل کوششوں اور بے مثال قربانیوں سے وجود میں آئی ۔یہ تحریک اپنے وقت کا تقاضا اور اُس زمانے کی ایک اہم ضرورت تھی ۔یہ وہ زمانہ تھا جب ہندستانی مسلمان برباد ہو رہے تھے ۔دراصل اس کی بربادی کا آغاز مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھرنے کے ساتھ ہی ہوا تھا۔لیکن 1857 کی بغاوت نے اس بربادی اور تباہی کو انتہائی درجے تک پہنچا دیا ۔اُن حالات نے سر سید احمد خان کی فکری و عملی زندگی میں تلاتم برپا کردیا۔انہوں نے گوشہ عافیت تلاش کرنے کے بجائے اپنی قوم کو تباہ و برباد ہونے سے بچانے کا فیصلہ کیااور آگے چل کر اُن کی اس کوشش نے ایک تحریک کی شکل اختیار کی ۔
اُس وقت کے حالات اِس قدر ابتر تھے کہ ملک میں کسی بھی قسم کی حالات و واقعات کے اعتبار سے تبدیلی جو اگرچہ فطری بھی ہوتی لیکن تو بھی اس کے لئے مسلمانوں کو ہی ذمہ دار قرار دیا جاتا تھا۔اور ایسا وقت آنے کے اندیشے تھے کہ اگر مسلمانوں کے خلاف اُسی قسم کی لہر جاری رہتی تو وہ وقت دور نہیں تھا، جب مسلمانوں کے سانس لینے پر بھی پابندیاں عائد کر دی جاتیں۔الغرض سر سید احمد خان کی شخصیت قوس وقزع کے مختلف النوع رنگوں کی سی شخصیت ہے، جن کے ہزاروں مَداحوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں تنقید نگار بھی زمانے میں موجود ہیں ۔لیکن انہوں نے اپنے مشن کو جاری رکھا اور پھر آج ذمانہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوا کہ سر سیّد احمد خان مُسلمان قوم کو طغیانیوں سے نکالنے والا مسیحا ہے، اور آج میں بلا جھجھک یہ کہوںکہ :
تاریک جو ہوگی رات ڈھل جائے گی
آئے گی کوئی بلا تو ٹل جائے گی
سید کی طرح کوئی سنبھالے گا اگر
بگڑی ہوئی قوم سنبھل جائے گی
(رابطہ نمبرات:۔ 7006842761,9419409070)