یہ کالم لکھنے کا مقصد قطعی طور پر سرسید کو مذہبی ثابت کرنا نہیں ہے ۔اس سال یوم سرسید اور بارہ ربیع الاول قریب قریب ہی آئے ،اس لئے کچھ حقائق کا انکشاف ضروری سمجھا۔ ربیع الاول محسن انسانیت آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن ہے، ٹھیک انیس اکتوبر کو بارہ ربیع الاول ہے اور اس سے دو دن پہلے یعنی یوم سرسید منایا گیا ۔
علی گڑھ یونیورسٹی میں یومِ سرسید ہر سال جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ زیادہ تر علیگ حضرات یا دوسرے اسکالرز بھی انہیں زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔ انگریز سامراج کے عتاب کی شکار قوم کو از سر نو تعمیر کرنے میں سرسید کی خدمات کو یاد کیا جاتا ہے۔ مسلم قوم کا از سر نو ڈھانچہ کھڑا کرنے میں سرسید کا جو کردار ہے یقیناً وہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔
سرسید بھارتی مسلمانوں کو بیدار کرنے میں کتنا کامیاب ہوئے یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن اس حقیقت سے انحراف بھی گناہ کبیرہ سے کم نہیں کہ سرسید کو مسلمانوں کو راہ راست پر لانے کے لئے سب سے زیادہ مخالفت بھی مسلمانوں ہی طرف ہوئی ۔ سب سے زیادہ مخالفت علمائے سہارنپور یعنی دارالعلوم دیوبند نے کی۔ حالات کیسے بدلتے ہیں آجکل آپ جب بھی علی گڑھ جائیے گا تو کیمپس میں تبلیغی جماعت والے حضرات بڑی کثرت سے دیکھنے کو ملیں گے جو آپکو لوٹے بستر کاندھے پر اٹھانے کی تلقین کریں گے اور کہیں گے کہ چلو ہمارے ساتھ کچھ دنوں کے لئے، چلو خیر آج یہ ہمارا موضوع نہیں ۔
علی گڑھ تحریک سے متعلق کوئی بھی کتاب اٹھا لو، اسمیں یہ لکھا ملے گا کہ مذہب کے حوالے سے حضرت سرسید نیوٹرل تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ کام علماء حضرات ہی کریں ، بد قسمتی سے علماء نے ان کے خلاف پروپیگنڈوں کا بازار گرم کر دیا۔ سرسید انگریز دوست ہے، وہ انگریزوں سے فنڈنگ لیتا ہے اور فرنگیوں نے اسکو بھارتی مسلمانوں کو ورغلانے پر معمور کر دیا ہے تاکہ مسلمان اپنے مذہب سے دور ہو جائیں وغیرہ۔
آج بھی مذہبی حلقہ میں سرسید کی جس بات پر تنقید کی جاتی ہے وہ ہے انکی کتاب 'خطبات سرسیدہے۔ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کو اس کتاب پر کافی تحفظات ہیں۔ دراصل یہ کتاب انہوں نے ولیم میور نامی انگریز مصنف کی کتاب 'دی لائف آف محمدؐ کے جواب میں لکھی تھی۔ میور نے اپنی کتاب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے حوالے سے ایسی باتیں لکھی ہیں جو مسلمانوں کو ناگوار گزرتی ہیں۔ سرسید نے دیکھا کہ علماء کی طرف سے اس کتاب کا کوئی دانشوارانہ رد ِعمل نہیں آیا تو انہوں نے انگریز مصنف کو جواب دینے کی ٹھانی، اس کے جواب میں خطبات سرسید لکھی گئی جس کا اسلوب روایتی سے ہٹ کے سائنٹیفک تھا۔ علی گڑھ تحریک ہی چونکہ سائنسی اپروچ پر کھڑی تھی یعنی مسلمان جدید علوم کو اپنی زبان اردو میں پڑھیں۔
سید کی مذکورہ کتاب ولیم کے رد میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر خاموش ہو جائے۔ سرسید نے جہاں ایک طرف یہ کتاب لکھ کر ولیم کو جواب دیا وہیں دوسری طرف مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ جذباتیت کے بجائے انٹلیکچول لیول پر جواب دینا مؤثر عمل ہے ۔اسی طرح اس کتاب پر آج بھی علماء کو اعتراضات کا جواب دلائل سے پیش کرنا چاہیئے نہ کہ انکو سرے سے کافر گردان دیا جائے۔
سرسید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسقدر عشق کرتے تھے اس کا اندازہ انکے 'مد جزرالاسلام پر تبصرے سے لگایا جا سکتا ہے ۔مد جزرالاسلام الطاف حسین حالی کی معرکتہ الآرا شعری تصنیف ہے۔ حالی جو کہ سرسید کے شاگردوں، قریبی دوستوں اور علی گڑھ تحریک کے بانی ارکان میں شمار ہوتے ہیں نے اس نظم میں بہت ہی احسن انداز سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی ہے ۔ سرسید سے نے کہا تھا کہ قیامت میں جب مجھ سے سوال ہوگا کہ تو اپنے ساتھ کیا لایا ہے تو میں بے ساختہ کہہ دوں گا 'حالی کی لکھی مد جزرالاسلام ۔آخر میں بات کو سمیٹتے ہوئے پڑھے لکھے نوجوانوں سے اپیل ہے کہ سرسید کا جو اصل مشن تھا، اسکو پھیلائیں ۔ نوجوانوں کو اردو میں لکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ آپ اپنی بات کو ہر گھر کے چولھے کے آگے بیٹھے شخص تک پہچانا چاہتے ہیں تو اپنی زبان میں لکھنا شروع کرو تاکہ ہر خاص و عام علم کی دولت سے بہرہ مند ہوسکے۔
(کالم نگار کا تعلق پونچھ سے ہے اور آپ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ریسرچ سکالر ہیں)
������