گُل افروزرسوئی میں کام میں مصروف تھی کہ دفعتاً سائیرن بج اٹھنے سے اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔اس نے ڈرتے ڈرتے کھڑکی کا پٹ کھول کر باہر جھانکا تو زندگی حسب معمول رواں دواں تھی ۔لوگ باگ اپنے اپنے کھیتوں میں کام میں مشغول تھے ،خوش پوش وردیوں میں ملبوس بچے سکولوں کی جانب رواں دواں ، جب کہ بڑے میدان میں بہت سے مویشی اطمیناں سے پیٹ کی آگ بجھانے میں مصروف تھے۔چند لمحے حالات کا جائیزہ لینے کے بعد اس نے دوسری طرف کی کھڑکی کھولی جہاں سے اس گائوں بلکہ اس ملک کی آخری حدیں دکھائی دے رہی تھیں،اس طرف بھی سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا ۔حد متارکہ پر ملک کی حفاظت پر معمور فوجی چوکیاں ،جن پر ملک کے جھنڈے اونچے لہرائے ہوئے تھے ،بھی پر سکون تھیں۔باہر کانظارہ بھی کافی پر کشش تھا کیوںکہ کئی دن کی لگاتار بارشوں کے بعد آج مطلع صاف تھا ،بلند وبالا پہاڑ سورج کی روشنی میں نہائے ہوئے تھے ،اونچے اونچے درختوں کی ٹہنیاں سورج کی شعائوں سے سنہری ہورہی تھیں۔پاس ہی موجود آبشار بھی شور مچا رہا تھا جب کہ ارد گرد دور دور تک پھیلے ہوئے سرسوں کے کھیتوں کا مسحور کن نظارہ قابل دید تھا ،جن میں کھلے ان گنت معصوم پھول کئی دنوں تک طوفانی بارشوں سے نبر آزما رہنے کے بعد مسکراتے ہوئے اپنی فتح کا اعلان کر رہے تھے ۔اب اس کو کسی حدتک اطمینان ہوگیا کہ یہ ایک معمول کا سائیرن تھا اور خطرے کی کوئی بات نہیں ہے ۔
’’کاش میں کوئی پنچھی ہوتی‘‘۔
کھڑکی سے با ہر جھانکتے ہوئے د لفریب نظاروں کے سحر میں کھو کر گل افروز، جسے گھر کی چار دیواری سانپ بن کر ڈس رہی تھی، کے مُنہ سے بے ساختہ نکلا ۔ اس نے ایک لمبی انگڑائی لی اور بدستور کچھ دوری پر واقع سلمان کے گھر، جس کاآدھا حصہ ہی نظر آرہا تھا ،کی طرف دیکھتے ہوئے گنگنانے لگی ۔۔۔۔۔۔
’’گل پُتّر ۔۔۔۔۔۔ آج میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے ،تم کچھ دیر کے لئے بکریاں لے کر میدان چلی جائو‘‘۔
سلمان کے گھر کی طرف نظریں ٹکائے سرور کی کیفیت میں گنگنانے میں مصروف گل افروز، کی سماعتوں سے دفعتاً ماں کی آواز ٹکرائی۔
اچھا مائی ۔۔۔۔۔۔ اس نے چونک کر سر کی چادر ٹھیک کرتے ہوئے کہا اور بکریاں لے کر گھر سے تھوڑی دوری پر واقع میدان کی طرف چل نکلی ۔آج بہت دنوں کے بعد بکریوں کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے دل افروز باغ باغ ہو رہی تھی ۔یوں تو اس کی ساری عمر بکریوں کے پیچھے پیچھے ہی گزری تھی لیکن یہاں کے رواج کے مطابق شادی طئے ہوجانے کے بعد لڑکیاں بہت کم گھروں سے باہر قدم رکھتی ہیں ۔ چند مہینے قبل گل افروز کی شادی بھی سلمان کے ساتھ طے ہو چکی تھی اور رخصتی کی رسم صرف دو دن بعد انجام پانے والی تھی۔ میٹھی سوچوں میں ڈوبی گل افروز، جس کے نفسیاتی زیر و بم میں عجیب سرور چھایا ہوا تھا، کو پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کب میدان میں پہنچی جہاں بکریاں چرنے میں مصروف ہوگئیں اور وہ ندی کنارے بیٹھ کر سرسوں کے پھولوں کے خوب صورت نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ماضی کی سنہری یادوں میں کھو گئی۔۔۔۔۔۔
سلمان اور گل افروز ایک دوسرے کے پڑوسی تھے جو بچپن سے ان ہی سرسوں کے کھیتوں میںاکٹھے ہنستے کھیلتے جوان ہوئے تھے ۔تین چار سال اکٹھے سکول بھی گئے تھے ۔غربت کے سبب دونوں نے تعلیم کو خیر آباد کہا اور خوب صورت جنگلی نظاروں کے بیچ ایک ساتھ کئی سالوں تک مویشی چراتے ر ہے ۔چھو ٹی عمر سے ہی ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی تھا اور ایک دوسرے کا بے حد خیال بھی رکھتے تھے ۔جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ان کا یہ معصوم سا تعلق کب پیار میں بدل گیا انہیں پتہ ہی نہیں چلا ۔گل افروز پر شباب کے پھول کھلنا کیا شروع ہوئے کہ سلمان اس پر فریفتہ ہوگیا، اس کادُھلا دُھلا گلاب جیسا چہرہ۔۔۔۔۔۔ معصوم آنکھیں جن میں عجیب سی چمک تھی ۔۔۔۔۔۔ گھنے سنہرے بال ۔۔۔۔۔ خوب صورت خدوخال ۔۔۔۔۔۔ تیکھے تیکھے نقوش اور پتلے پتلے ہونٹوں پر ہر وقت تبسم کی ہلکی سی لہر یوں کھیلتی رہتی تھی کی یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا تھا کی یہ مسکرا چکی ہے یا مسکرانے والی ہے ۔دن بہ دن اس کے حسن میں آتے نکھار سے سلمان کی دیوانگی میں اضافہ ہونے لگا ،جب ضبط کی ساری حدیں پار ہو گئیں تو ایک دن اس نے سرسوں کے پھولوں کو گواہ بنا کر ڈرتے ڈرتے گل افروز کو اپنے دل کا حال بتاتے ہوئے کہا ۔
’’گل ۔۔۔۔۔۔ اے گل ۔۔۔۔۔۔ میں تمہارے ساتھ بہت پیار کرتا ہوں ،تمہارے بغیر ایک پل بھی جینا مشکل ہو رہا ہے‘‘ ۔
’’ہائے میں مر گئی ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
گل افروز،جس کے دل پر سلمان کی ہی حکومت چلتی تھی، کے دل کے تار جھنجھنا اٹھے ۔ اس نے لاج کے مارے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بے ساختہ کہا اور خوشی سے پاگل ہوکر دوڑتے دوڑتے گھر کی طرف چلی گئی ۔اس دن کے بعد دونوں چوری چھپے پیار کی پینگیں بڑھاتے ہوئے خوابوں کے اڑن کھٹولوں پر سوار ہو کر آسمانوں کی سیر کرنے لگے ۔ وعدے ہوئے ،ساتھ جینے ساتھ مرنے کی قسمیں اٹھائی گئیں۔ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے کے مصداق دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی بچگانہ حرکتوں کی خبر ان کے والدین کے کانوں تک پہنچی، جنہونے صلاح مشورہ کرکے بڑی دانشمندی سے دونوں کا رشتہ پکا کردیا۔اسطرح گل افروز کا بکریوں کے پیچھے جانا بھی بند ہوگیا اور دونوںکے ملنے ملانےپر پابندیاں لگ گئیں ۔رشتہ طے ہونے کے بعد گل افروز سلمان سے کبھی نہیں ملی تھی صرف دو تین بار اس کو دور سے ہی دیکھا تھا ۔یہ سارا وقت اگر چہ اس نے تڑپ تڑپ کر انگاروں پر گزارا تھا لیکن اب وہ بہت خوش تھی کیوں کہ محض دو دن ہی کی بات تو تھی جس کے بعد وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سلمان کے ساتھ ہی رہنے والی تھی۔۔۔۔۔۔ ’’تڑاک ۔۔۔تڑاک ۔۔۔تڑاک ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
گل ا فروز میٹھی سوچوں کے سمندر میں غوطہ زن تھی کہ اچانک گولیاں چلنے کی خوفناک آوازیں آنے لگیں،جس کے ساتھ ہی زور دار آواز میں سائیرن بج اٹھا اور لوگ اپنا اپنا کام چھوڑ کر چیختے چلاتے افراتفری کے عالم میں ادھر اُدھر بھاگنے لگے، جب کہ میدان میں چر رہے مویشی بھی دم بخود ہو کر رہ گئے ۔گل افروز یہ منظر دیکھ کر بہت زیادہ گھبرا گئی، خوف و دہشت کے سائے اس کے وجود کے ریشوں پر چھا گئے۔ پہلے اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے لیکن جب سارا علاقہ گولیوں کی سنسناہٹ اور دھماکوں کے سماعت شکن آوازوں سے دہل اٹھا اورسرسوں کے پھول سہم کر رہ گئے تو وہ مٹھیاں بند کرکے روتے ہوئے خوف زدہ ہرنی کی طرح گھر کی طرف بھاگنے لگی، لیکن نصف فاصلہ طے کرنے کے بعد ہی ایک زور دار دھماکے کے ساتھ اس کے سر سے کوئی چیز زور سے ٹکرائی اور وہ سرسوں کے لہلہاتے کھیت میں دھڑام سے نیچے گر پڑی۔۔۔۔۔۔
’’سلمان ۔۔۔۔۔۔ سلمان ۔۔۔۔۔۔۔ جلد۔۔۔۔۔۔‘‘
غنودگی کی حالت میں سلمان کو پکارتے ہوئے کچھ لمحے تڑپنے کے بعد وہ بے ہوش ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ یہ خوب صورت گائوں ملک کی سرحد کے نزدیک واقع تھا ،جہاں کے لوگ سیدھی سادھی زندگی گزرتے تھے ۔ زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی اور مال مویشی پالن کے پیشوں سے وابستہ تھے اور سخت محنت کرکے اپنی زندگی کی ضروریات پوری کرتے تھے ۔گولہ بار ی اور فائیرنگ کے واقعات رونما ہونا یہاںکوئی نئی بات نہیں تھی ۔دہائیوں سے پڑوسی ملک کے ساتھ جاری کشیدگی کے سبب یہ غریب بستی کٹھن حالات سے دوچار تھی ،یہاں رہائیش پذ یر لوگ سرحد پر جاری پر تنائو صورت حال اور آئے روز کی گولہ باری کے سبب گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبور تھے ،جن کے ذہنوں میںہر وقت اندیشوں اور خدشات کے اذیت ناک ناگ پھن پھیلائے پھرتے تھے ۔سرحد پر کسی بھی وقت بندوقوں اور توپوں کے دہانے کھلتے تھے جس کے نتیجے میں سرحد کی حفاطت پر معمور فوجی جوانوں کے ساتھ ساتھ بستی کے لوگوں کو بھی جانی اور مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ان حالات کے چلتے آج تک کئی گھرانے اجڑ چکے تھے جب کہ بیسوں لوگ مضروب ہو کر عمر بھر کے لئے ناکارہ ہو چکے تھے ۔
گل افروزکو جب ہوش آیا تووہ اسپتال کے ایمر جنسی وارڑ میں چارپائی پر دراز تھی ،سر اور جسم کے کئی حصوں سے درد کی شدید ٹیسیں اُٹھ رہی تھیں۔کچھ دیرتذبذب کی حالت میں ادھر اُدھر دیکھنے کے بعد وہ چونک کر اپنی ماں، جو اس کے سامنے کھڑی تھی، سے مخاطب ہوئی۔
’’مائی ۔۔۔۔۔۔ سلمان کہاںہے؟وہ ٹھیک تو ہے نا‘‘؟
’’تو ٹھیک ہے نا گُل پُتر۔۔۔۔۔۔ ‘‘۔
ماں نے اپنے چہرے سے آنسوں صاف کرکے اس کی بات ٹالتے ہوئے کہا ،کیوں کہ وہ اس کو یہ نہیں بتانا چاہتی تھی کہ سرسوں کے پھولوں کو گواہ بنا کر سلماں اس کو بچاتے ہوئے خودگولہ باری کی زد میں آکر بر ی طرح سے زخم زخم ہو کر موت و خیات کی کشمکش میں مبتلا ہے ۔
……………………
رابطہ ۔۔۔۔۔۔ اجس بانڈی پورہ193502کشمیر
ای میل ۔۔۔۔۔۔[email protected]