کشمیر میں خریف کا موسم ختم ہوا ہے، الحمداللہ اس سال قدرت مہربان رہی اور اچھی دھان کی فصل نکلی، ہمارے کشمیر میں ایک المیہ ہے کہ یہاں کے کسان صرف سال بھر میں ایک ہی فصل یعنی دھان لگاتے ہیں اس کے بعد زمین کو خالی رکھتے ہیں جس کی وجہ کیی غلط فہمیاں ہیں مثلاً یہ زمین کو کمزور کرتی ہے وغیرہ ، بہت بڑے رقبے پر پھیلے زمین کو خالی رکھنا بہرحال نہ ہی اخلاقی طور صیح ہے اور نہ ہی ہماری معیشت کے لیے۔یہاں کی بڑی آبادی کا دارومدار زراعت پر ہے ایسے میں ہماری مذہبی ذمداری بھی یہ بنتی ہے کہ ہم زمین کے پیداوار کو بڑھاے، دین اس بات سے بندے کو روکتا ہے کہ وہ زمین خالی چھوڑے، بلکہ کاشت کاری اور شجر کاری میں سستی اور کاہلی کی ممانعت وارد ہوئی ہے '" اگر قیامت قائم ہوجائے ، تمہارے ہاتھ میں کوئی پیڑ یا پوداہو، اگر تم اس پودے کو لگا سکتے ہو تو لگاؤ ، اس سے تم کو اجر وثواب ملے گا(مسنداحمد) کاشت کاری جہاں ہماری معیشت کو بہتر کر سکتی ہے وہی اس سے ہماری آخرت بھی بہتر بن سکتا ہے، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو شخص کوئی پودا لگائے، تو اللہ عزوجل اس پودے سے نمودار ہونے اور برآمد ہونے والے پھل کے برابر ثواب عنایت فرماتے ہیں" اور یہ بھی ارشاد گرامی ہے "جو شخص کوئی درخت لگائے ، ا سکی نگہداشت اور دیکھ بھال میں اہتمام کرے، اس کے پھل آنے تک اس کی نگرانی کرے ، اس درخت کو جو بھی پھل لگے گا، اللہ عزوجل اس کو ثواب عنایت فرمائیںگے " (مسند احمد : ۱۳۳۹۱)۔
رسول کریم ﷺ حدیث مبارکہ میں فرماتے ہیں کہ شجرکاری کاعمل ترک نہ کرو، قیامت قائم ہونے سے پہلے اس درخت کے نتائج اور ثمرات ظاہر ہوسکتے ہیں، تو بھی اس کا انتظار کرے (المبادی الاقتصادیہ فی الاسلام: ۱۶) کاشت کاری کا عمل گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے فرماتے ہیں "جو شخص اپنے ہاتھ کی محنت سے بوجھل ہو کر شام کرے تو اللہ عزوجل اس کی مغفرت فرماتے ہیں".( فتح الباری )۔مسلمان معاشرہ ہونے کے ناطے ہماری دوہری ذمہ داری ہے کہ ہم زمین کو خالی نہ رہنے دیں۔
ہمارے کشمیر میں سرسوں کے تیل کا استعمال بہت زیادہ کیا جاتا مگر میعاری سرسوں کا تیل مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے اب جو بھی تیل سرسوں کے تیل کے نام پر بکتا ہے اس کی قیمت گزشتہ کئی ماہ سے آسمان کو چھو رہی ہے ایسے میں ضرورت ہے ہم دھان کی کٹایی کے بعد ربیع کے موسم میں زمین میں سرسوں کا کاشت کاری فورا شروع کریں سرسوں یا سروں (سائنسی نام: براسیکا کمپیسٹرس)ایک زرعی طور پر اگائے جانے والے پودے کا نام ہے۔ اس کے پھول چھوٹے اور پیلے رنگ کے ہوتے ہیں۔ پودے کی لمبائی تقریباً چھ فٹ ہوتی ہے اور اس میں چار پتیوں والے پیلے رنگ کے پھولوں کے گچھے لگتے ہیں۔ بیجوں کی پھلی یا ڈوڈا ایک انچ لمبا ہوتا ہے۔ پودے کا وطن ایشیا ہے اور یہ سیاہ رائی بھی کہلاتا ہے۔ اس سے ملتا جلتا پودا یورپ میں سفید رائی کہلاتا ہے۔موسم بہار میں اس کے پھول نکلتے ہیں جوزرد رنگ کے ہوتے ہیں۔یہ پھول بہت خوبصورت ہوتے ہیں، ان پھولوں سے ماحول خوشگوار ہوتا ہے ۔ان پھولوں کے اندر بیج بنتے ہیں ان بیجوں میں سے تیل نکالا جاتا ہے جوسرسوں کاتیل کہلاتا ہے۔، سرسوں کے تیل کے بہت سے فوائد ہیں سرسوں کے تیل کی خوشبو اورذائقہ نہایت فرحت بخش ہوتا ہے، اس میں متعدد وٹامنز اور غذائی عناصر موجود ہوتے ہیں جس میں وٹامن ایچ ، وٹامن اے ، کیلشیم ، پروٹین، اور اومیگا 3 شامل ہیں۔سرسوں کا تیل اعصاب، ہڈی اور جوڑوں کے درد کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ یہ تیل وزن کم کرنے میں بھی معاون ہوتا ہے کیوں کہ اس میں کئی وٹامنز موجود ہوتے ہیں جو جسم کی چربی کو پگھلانے میں مدد دیتے ہیں۔سرسوں کا تیل نزلہ اور انفلوئنزا کے علاج کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، سرسوں کے تیل اور کافورکے تیل کےابالتے ہوئے بخارات سے بھاپ لی جائے تو سانس کی بیماری بہتر ہوتی ہےاور سینے میں بلغم کے جمع ہونے کو روکنے میں مدد کرتاہے۔ سرسوں کے تیل میں فاسفورس ہوتا ہے، جو ہڈیوں کو مضبوط بنانے اور تعمیر کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ڈاکٹر سنتھیا الہاج کا کہنا ہے کہ ’سرسوں کے تیل کا شمار ان تیلوں میں ہوتا ہے جس میں مونوسچوریٹڈ چربی ہوتی ہے، جو کولیسٹرول کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے، یوں انسان قلبی امراض سے محفوظ رہتا ہے۔
یہ فصل اگانے کے لیے کم محنت درکار ہوتی ہے، اکتوبر اس کی کاشت کے لئے سب سے موزوں وقت ہے۔ سرسوں کے بیچ کاآدھا کلو ایک کنال زمین کے لیے کافی ہے، زمین کو اچھے سے تیار کیجئے، اگر دھان کی فصل تیار ہوئی ہو تو اس دھان کی فصل کاٹنے کے بعد زمین کو تیار کیجئے اس سے زمین میں اگر کوئی بیماری ہو تو وہ دور ہوگی، زمین تیار کرنے کے بعد فی کنال یوریاڈھائی کلو، ڈی اے پی پونے تین کلو ،ایم او پی ایک کلو سو گرام ،زنگ سلفیٹ ایک کلو، بیچ ڈالنے سے پہلے زمین میں ڈالیے، بیچ ڈالتے وقت یہ خیال رکھے کہ مٹی میں نمی ہونی چاہیے ۔ چونکہ سرسوں کا بیچ چھوٹا ہوتا ہے لہذا بیچ ذیادہگہرا نہ ڈالیے۔اس بات کی احتیاط کی جائے کہ بیج نہ ہی سطح زمین پر رہے اورنہ ہی زیادہ گہراجائے۔ بیج کی گہرائی ایک انچ سے ڈیڑھ انچ تک ہو اگر ضرورت پڑھے تو مارچ میں صرف یوریا ڈھائی کلو ایک کنال کے حساب سے دیجئے، سرسوں کے کاشت کا بہت سے فائدے ہیں، اس کے لیے آپ کو بہت محنت نہیں کرنی ہے ویسے بھی دھان کی زمین بیکار رہتی ہے۔سرسوں کی کاشت کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے pollination میں اضافہ ہوتا ہے،شہد کی مکھیوں کے لیے سرسوں کے پھول بہت ضروری ہے،یہ زمین کی خوبصورتی بڑھا دیتی ہ۔، سرسوں کی کاشت کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ دھان کی فصل لگانے سے پہلے تیار ہوتی ہے اس کے برعکس ربیع میں لگائی جانے والی دوسری فصلیں اس وقت تیار نہیں ہوتیہیں۔ایک غلط فہمی جو کاشتکارطبقہ میں ہے وہ یہ ہے کہ. اس سے زمین کمزور ہوتی ہے، ایسا بالکل نہیں ہے اگر کاشت کار کھاد کا مناسب استعمال کریں تو زمین کی کمزوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہےجب فصل کا رنگ زرد ہوجائے، 30 سے 40 فی فیصد پھلیاں بھورے رنگ کی ہوجائیں اور دانے نیم سرخی مائل ہوجائیں تو فصل کو فوراً کاٹ لینا چاہیے ۔اس کے بعد چار پانچ روز تک دھوپ میں خشک کرکے بیلوں کا بیج نکا ل لینے چاہیں ۔آئندہ سا ل کے لئے بیج محفوظ رکھنے کے صورت میں اسے دوائی لگا کر خشک گودام میں زخیرہ چاہیے ۔سرسوں کی کھلی جانوروں کے لیے استعمال کی جاتی ہے یہ کھلی بہت ہی مفید ہوتی ہے چونکہ بازار میں جو جانوروں کا خوراک دستیاب ہے اس کے بجائے یہ کھلی زیادہ نیچرل ہے۔ لہذا تاخیر مت کیجیے، جلد از جلد زمین تیار کیجئے اور سرسوں کی کاشت کرکے قوم کی خدمت کیجئے ۔
)بارہمولہ کشمیر ۔واٹس اپ رابط 9906653927)
������