حد متارکہ پر ہندوپاک افواج کے مابین حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور ایک طرح سے دونوں ممالک کی طرف سے غیر اعلانیہ جنگ لڑی جارہی ہے ،جس سے نہ صرف شہری اور فوجی شہری ہلاکتیں ہورہی ہیںسرحدی آبادی ،یہاں تک کہ زخمی افراد بھی گھروں میں محصور ہوکربے بیان مشکلات کا شکار ہیں ۔گزشتہ روز پونچھ اور مینڈھرسیکٹروں میں ہوئی شدید فائرنگ اور گولہ باری نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اوراس کے نتیجہ میں ایک کمسن بچی، ایک خاتون و فورسز کا اہلکارہلاک ہوئے جبکہ5 اہلکاروں سمیت کم از کم 22افراد زخمی ہوئے ،جن میں سے کچھ زخمیوں کو گورنمنٹ میڈیکل کالج ہسپتال جموں تو کچھ کو ضلع ہسپتال راجوری منتقل کیاگیاجبکہ کچھ زخمی توکشیدگی کی وجہ سے رات بھر محصور ہوکر اپنے ہی گھروں میں تڑپتے رہے ۔اس سرحدی ضلع میں ہنگامی صورتحال برپا کی گئی اور اس سے نمٹنے کیلئے انتظامیہ کی طرف سے اقدامات بھی عبث رہے ہیں ۔زخمیوں کے بروقت علاج میں ناکامی کا اندازہ اس حقیقت سے ہوتاہے کہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا 4افراد کو جموں منتقلی کیلئے چار گھنٹوں تک ہیلی کاپٹر کا انتظار کرناپڑاجس پر ضلع ہسپتال پونچھ کے باہرلوگوںنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا اور انتظامیہ پر غفلت کا الزام لگایا۔ اسی طرح کا ایک احتجاج شام کے وقت سب ضلع ہسپتال مینڈھر میں بھی کیاگیا جہاں بھی بڑی تعداد میں زخمیوں کو لایاگیاتاہم انہیں بھی وقت پر علاج کی سہولت نہیں ملی ۔یہ صورتحال سرحدی عوام کیلئے بہت بڑی پریشانی کا باعث ہے اور ان کا چین و سکون غارت ہوچکاہے ۔انہیں دو نیوکلیائی طاقتوں کی آپسی لڑائی اور کشیدگی کا نشانہ بنناپڑرہاہے اور روزانہ تباہی دیکھناپڑتی ہے ۔سرحدی آبادی کی معمول کی زندگی بری طرح سے مفلوج ہو کررہ گئی اور جہاں بچے سکول نہیں جاسکتے اور ان کا مستقبل تاریک بنتاجارہاہے وہیں کسان کھیتی باڑی کیلئے اپنی زمینوں پر جانے کی جرأت نہیں کرسکتے اور نہ ہی مال مویشیوں کیلئے چارے کا کوئی بندوبست ہے ۔بدقسمتی سے نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان سفارتی کشیدگی کا نزلہ سرحدوں ،بالخصوص خطہ پیر پنچال میں کھینچی گئی حد متارکہ پربس رہی آبادی پر گرایاجاتاہے، جس کا نہ تو کوئی قصور ہے اور نہ ہی وہ اس جنگ میں کوئی فریق ہے ۔ریاست کے لوگ ہندوپاک کشیدگی سے بری طرح سے متاثر ہورہے ہیں اور خاص طور پر پلوامہ فدائین حملے کے بعد پیدا ہوئی صورتحال نے ان کا جینا محال بنادیاہے ۔حیران کن امر ہے کہ ایک طرف کرتار پور راہداری اور شاردہ پیٹھ کےراستے کھولنے کیلئے سفارتی سرگرمیاں چل رہی ہیں تودوسری طرف حد متارکہ کے عوام کی زندگیوں کو جہنم زار بنایاجارہاہے ۔آخر سرحدی کشیدگی کے باعث ہورہی ہلاکتوں کا ذمہ دار کون ہے اور اس سے ملناکیا ہے ؟۔دونوں ممالک کی سیاسی و فوجی قیادت کویہ سمجھناہوگاکہ سرحدی کشیدگی اور آر پار آبادی کو نشانہ بنانا لاحاصل عمل ہے اور اس سے تباہی و بربادی کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوناہے ۔نہ تو اس طرح سے نفسیاتی یا سیاسی جنگ جیتی جاسکتی ہے اور نہ ہی سرحدکو تبدیل کیاجاسکتاہے ۔خدا راایسے حالات نہ پیدا کئے جائیں جس سے ہنگامی صورتحال برپا ہوکیونکہ پھر نہ ہی زخمیوں کا علاج ہوپاتاہے اور نہ ہی مرنے والوں کے لواحقین سے انصاف!