کوئی بھی ملک ہو یا ریاست،سبھی ایک نظام کے تحت چلتے ہیں۔ہر ملک یا ریاست کو چلانے کیلئے الگ الگ اداروںکا قیام عمل میںلایا جاتا ہے پھر اِن اداروںکو مضبوطی سے چلانے کیلئے ملازمین کی تعیناتی عمل میںلائی جاتی ہے جو اپنے اپنے دائرے میں رہ کر اپنے اپنے فرائض انجام دیتے ہیںلیکن اگر کسی بھی ادارے یا محکمہ میںکوئی آفیسر اپنے دائرے سے باہر آکر اور ایمانداری کو بھول کر کام کرنا شروع ہوجائے تو پھر وہ محکمہ یا ادارہ تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ کوئی بھی آفیسر یا ملازم جس کے دل ودماغ پر تنخواہ کے علاوہ پیسہ کمانے کا جنون طار ی ہوجائے اوروہ محکمہ کے نظم و ضبط کے تحت کام کرنے سے فرار اختیار کرے توبالآخرنتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ادارے کواپنے لئے ناجائز آمدن اور لوگوںکیلئے استحصال کا اڈہ بنالیتا ہے۔افسوس ناک تو یہ ہے کہ ایسے سرکاری ملازمین لوگوںکا استحصال تو کرتے ہیںلیکن ناجائز آمد ن سے اپنی تجوریاں بھر کر اپنے آخرت کو بھی دائو پر لگانے میںکوئی عار محسوس نہیںکرتے ہیں ۔قابل رحم ہے کہ ایسے سرکاری آفیسران و ملازمین کی وجہ سے ایک صحتمند معاشعرے کی تکمیل کا خواب بھی چکنا چور ہوکر رہ جاتا ہے۔ گو کہ ایسے بھی ملازمین و آفیسران ہیںجو اپنا کام انتہائی ایمانداری سے انجام دیتے ہیںلیکن اُن کی تعداد آٹے میںنمک کے برابر ہے اور جو آفیسران ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے صحتمند معاشرے کی تکمیل میںاپنا منفردکردار نبھاتے ہیں، اُن کی تمام تر محنت بیکار ہو جاتی ہے اور اُن کی بہترمعاشرے کے تئیںفکرمندی کا جذبہ بھی ٹھنڈا پڑ جاتا ہے جب وہ سسٹم میںپنپ رہی رشوت خوری کے رجحان کو عروج پر جاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
یہاںجموںو کشمیر کی بات کی جائے تو شاید ہی کوئی محکمہ باقی رہا ہو گاجہاںرشوت خوری کا رجحان نہیں ہو۔ہر کام کیلئے دام درکار ہے،ایسے آفیسران یا ملازمین کی تعداد ناہونے کے برابر ہے جو سائل کا کام بغیر کسی لین دین کے انجام دینے میںبہتری سمجھتے ہیں۔ ہاں۔۔!! یہ بات قابل ِ یقین ہے کہ دفاترمیں بغیر دام یا لین دین کے اْن ہی افراد کے کام ہوتے ہیںجن کا اعلیٰ آفیسران کے ساتھ ساز باز ہو، دوستانہ ہو، یاری ہواور ملی بھگت ہو۔ جس کے پاس اثر رسوخ اور دام میسرنہیں، اُس کا کام ہونا مشکل ہی نہیںبلکہ نا ممکن ہے،بلکہ یوں کہا جائے کہ ایسے لوگوںکا معاشرے میںجنیا ہی محال تو بیجا نہ ہوگا۔
ہمارا ایسا ہی ایک محکمہ جنگلات کا محکمہ ہے ۔جنگلات کی اہمیت مسلمہ ہے،بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی وجہ سے جنگلات کا بے دریغ کٹائوجاری ہے اور اسی وجہ سے کرۂ ارض پر حیاتیاتی تنوع کو شدید خطرات لاحق ہے۔ جنگلات بارشوں کے زیادہ برسنے کا اہم سبب ہیں اور یہی بارش خوراک کی زیادہ پیداوار کا ذریعہ ہے۔اس وقت یکایک ماحولیات کامسئلہ ساری دنیا کے لئے اولین ترجیحات میں شامل ہوگیا ہے کیونکہ تمام بڑے شہر تیزی سے سبزے سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔اسِ تمام گھمبیر صورتحال کے ذمہ دارمحکمہ جنگلات سے جڑے ملازمین اور بالخصوص وہ افراد ہیںجو محض اپنے ذاتی مفادات کے حصول کیلئے عوام الناس کیلئے خطرہ بن رہے ہیں۔یوںتو جنگلات کی اہمیت سے متعلق 30جنوری کو جنگلات کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے اور دنیا بھر کے باسیوںکو اِس امر سے آگاہی دی جاتی ہے کہ جنگلات کی موجودگی کسی ملک کے ماحول ، شہری ترقی ،معیشت اور انسانوںکو مختلف جہتوں سے توانائی فراہم کرتی ہے لیکن عملی طور پر جنگلات کی اہمیت و افادیت کو سمجھنے کیلئے انسان کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہر ہ نہیںکرتا ہے۔ جنگلات کے بغیر انسانی معاشرے کی بقا کا تصور تقریباً ناممکن ہے لیکن ہمارے مفاد پرستانہ اور غیر سنجیدہ عمل سے اس وقت زمین سبزے سے خالی ہو رہی ہے۔
گزشتہ کئی ماہ سے یہ خبریں اخبارات میں مسلسل شائع ہورہی ہیںکہ محکمہ جنگلات نے جموںو کشمیر کے مختلف علاقوںمیںجنگلات اراضی سے غیر قانونی قبضہ چھڑا کر بہت بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں ،آئے روز سرکار کی جانب سے الگ الگ حکم نامے بھی صادر ہو رہے ہیںکہ جتنی بھی جنگلاتی اراضی پر غیر قانونی قبضہ ہے، اُسے فوری طور قبضے سے چھڑالیا جائے۔اگر صوبہ جموںکی بات کی جائے تو اِس حقیقت سے کسی کو انکار نہیںہونا چاہیے کہ جنگلاتی اراضی پر زیادہ تروہی لوگ قابض ہیںجوسیاسی اثر ورسوخ رکھتے ہیں یا جس کو محکمہ کے اعلیٰ آفیسران کے ساتھ دوستانہ ہو، ساز باز ہو۔یہی وجہ ہے کہ جنگلاتی اراضی میںاگر کوئی غیر سیاسی یا بغیر اثر رسوخ والاشخص اپنی ضرورت کے مطابق ڈھارا(کچا مکان )بنانے کی کوشش کرے تو اُس پر محکمہ کارروائی کرنے میںایک منٹ نہیں لگاتا بلکہ جن لوگوںکے پاس کسی قسم کا اپروچ نہیںہے ،وہ اگر صدیوںسے جنگلات میںبغرض مال مویشی پالنے کیلئے جاتے تھے تو محکمہ کو وہ بھی ناگوار گزرا اور ایسے لوگوںکے ڈھارے مسمار کرے دیئے گئے۔جبکہ صورتحال کا دوسرا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ محکمہ ایسے افراد کو غیر قانونی طور تعمیرات کی کھلی چھوٹ دیتا ہے جو حقیقی معنوں میںاِس کے مستحق بھی نہیںہیں، یعنی جن لوگوں کا مال مویشی پالنے سے دور ، دور کا واسطہ نہیں۔انہیں جنگلاتی اراضی میںکیونکر تعمیر کی اجازت دی جاتی ہے ،اِس سوال کا جواب نہ ہی محکمہ دے پاتا ہے اور نہ وہ لوگ جو اِس طرح کی تعمیرات کرنے میںاپنا بھر پور زور لگا دیتے ہیں۔
اگر محکمہ کے پاس ایسا کوئی ضابطہ یا معیار نہیںجس کے تحت وہ لوگوںکو ڈھارے بنانے کی اجازت دے سکیں، تو پھر کس بنیاد پر بغیر کسی تحقیق کے محکمہ کسی بھی فرد کو تعمیرات کی اجازت دیتا ہے۔ اگرمحکمہ کے پاس ایسا کوئی قانون ہے کہ وہ ڈھارے(کچامکان) بنانے کی اجازت دے سکتا ہے تو پھر اُن کے پاس یہ اصول و ضوابط بھی واضح ہونگے کہ کس طرح سے یہ تحقیق کرنی ہے کہ کون اِس چیز کا مستحق ہے ،یعنی کون لوگ ہیں جو حقیقی معنوںمیںمال مویشی کی خاطر ڈھوک کی پرمیشن مانگتے ہیں۔اگر ایسا نہیںتو پھر ہر کوئی ایسی مانگ کر سکتا ہے اور محکمہ کو پھرچاہیے کہ وہ بغیر کسی تفریق کے سب کو ڈھوک بنانے کی اجازت دے یا پھر مکمل طور سے امیر ، غریب اور اثر رسوخ کا فرق کئے بغیرجنگلات اراضی میںکسی قسم کی تعمیر پر روک لگائی جائے اور جو اراضی لوگوں کے قبضے میںہے ،اُس فوری طور بازیاب کیا جائے۔یاد رکھئے اگر محکمہ متعلقہ نے جنگلات سے متعلق اپنی غیر سنجیدہ دشمنانہ پالیسیوں میں تبدیلی نہیں لائی تو وہ دن دور نہیںجب جنگلات نام کی چیز کہیںدیکھنے کو نہیںملے گی۔
رابطہ : 97971101754/7780918848
ای میل : [email protected]