عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر //ایک اندازے کے مطابق وادی کشمیر کے کسان 900.00 کروڑ روپے کی سبزیاں برآمد کر رہے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر تیار ہونے والی گرین پتے کی سبزیاں 10فیصد تک خراب ہوجاتی ہیں جس سے تقریباً 50کروڑ کا نقصان بھی ہوجاتا ہے۔ مارکیٹنگ کی مضبوط حکمت عملیوں کو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ایک مضبوط بر آمدی سسٹم ہونا لازی ہے۔ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ سبزیوں کے ہول سیل ڈیلر روزانہ مقامی منڈیوں میں جمع ہوتے ہیں۔
سبزیوں کو لوگوں تک پہنچانے کیلئیدکانداروں کے طور پر یا پھر سڑکوں سے گزرے والے گشتی دکانوں کے ذریعے بھی ذرائع استعمال ہوتے ہیںتاکہ سبزیاں براہ راست صارفین تک پہنچیں۔سبزیاں اگانے والے کاشتکاروں کو وہ آمدن نہیں ہوتی ہے جو انہیں ملنی چاہیے، کیونکہ وہ سبزیوں کو قابل فروخت بنانے کے لیے تمام اخراجات اٹھاتے ہیں۔لیکن ہول سیل ڈیلر صارفین کو اضافی کل مارکیٹنگ لاگت سمیت سبزیاں فروخت کرتے ہیں اور ہر ایک ہول سیل ڈیلر کی طرف سے منافع کی رقم 7.75 فیصد سے کم نہیں ہوتی۔پیاز،ٹماٹر، گوبھی میں 12 فیصد سے زیادہ شرح منافع ہوتا ہے۔صارفین کی قیمت میں ٹرانسپورٹیشن چارجز، اس کے بعدپیکنگ پر لاگت اور دیگر لاگت بھی دینی پڑتی ہے۔ٹماٹر کے علاوہ تمام سبزیوں کو عام طور پر پلاسٹک کے کریٹوں میں لے جایا جاتا تھا ۔کریٹس پر ابتدائی لاگت کے بعد پیکنگ پر اضافی لاگت آتی ہے جو تقریباً 7 فیصد سے زیادہ ہوتی ہے۔خراب ہونے والی سبزیوں کی شرح 10فیصد ہوتی ہے۔سب سے زیادہ خراب ہونے والی سبزیوں میںٹماٹر، ساگ، پالک،کدو، بینگن اور دیگر سبز پتے کی سبزیاں ہوتی ہیں اور ٹماٹر کا نمبر اس میں پہلا ہے۔کھیتوں سے نکالنے کے دوران کسانوں کی طرف سے مناسب دیکھ بھال نہیں کی جاتی ہے۔نقل و حمل کے نتیجے میں پیداوار کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ نقصان میں غیر فروخت شدہ پیداوار کا حصہ بھی شامل ہے۔سڑنے اور داغ لگنے کی وجہ سے سبزیاںبرباد ہوجاتی ہیں۔