سرینگر//گائو کدل سانحہ پر ریاستی بشری حقوق کمیشن میں درخواست گزار کی طرف سے10ماہ قبل جوابی عذرات پیش کرنے کے باوجود ابھی تک کمیشن کی تحقیقاتی ونگ کیس میں پیش رفت کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔سرینگر کے گائو کدل علاقے میں 21جنوری 1990 میں پیش آئے سانحہ سے متعلق کیس کی سماعت بدھ کو بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کی ممبر دلشادہ شاہین کے پاس ہوئی،جس کے دوران تحقیقاتی شعبے کو اس کیس کی تحقیقات مکمل کرنے کی ہدایت دی گئی۔شہر کے گائو کدل کو27قبل پیش آئے واقعے سے متعلق انٹرنیشنل فورم فر جسٹس کے چیئرمین محمد احسن اونتو نے اس سلسلے میں26دسمبر 2012کو ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے ڈویژن بینچ جن میں جاوید احمد کاوسہ اور مرحوم رفیق فدا شامل تھے نے انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کے ایس پی کو اس سلسلے میں خصوصی تحقیقات جاری کرنے کی ہدایت دی۔4 برسوں کے بعد13مارچ2017کو بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کے تحقیقاتی شعبے نے اس سلسلے میں اپنی رپورٹ پیش کی۔رپورٹ میں حکام(انتظامیہ و پولیس) کی طرف سے اس روز کرفیوں کے نفاذ کے بارے میں متضاد رپورٹیں سامنے آئیں۔رپورٹ کے مطابق ریاستی پولیس کے سربراہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس روز کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا،تاہم اتھارٹی اس روز گائو کدل علاقے میں مجسٹریٹ سے متعلق تفصیلات فراہم کرنے میں ناکام ہوئی۔پولیس اسپتال سرینگر اور دیگر اسپتالوں سے موصول ریکارر کے مطابق اس واقعے میں22افراد جان بحق جبکہ42زخمی ہوئے۔سانحہ کے حوالے سے پولیس تھانہ کرالہ کھڈ میں کیس درج کیا گیا،تاہم8برسوں کے بعد1998میں اس کیس کو ’’پتہ نہیں چلا‘‘ کے زمرے میں ڈال کر بند کیا گیا،جبکہ عدالت میں حتمی رپورٹ عدلیہ کے تعین کیلئے پیش نہیں کیا گیا۔ ضلع ترقیاتی کمشنر سسرینگر کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق، سانحہ کے وقت رائج ایکس گریشا ریلیف کے تحت فی فرد25ہزار روپے 6جان بحق ہونے والے لوگوں کے نزدیکی رشتہ داروں کو فراہم کئے گئے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ بات غیر واضح ہے کہ اس سانحہ میں جان بحق ہونے والے دیگر لوگوں کے اہل خانہ اور نزدیکی رشتہ داروں کو کیوں نظر انداز کیا گیا،اور انکے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں رکھا گیا۔کیس کی تحقیقات میں کئی خامیاں سامنے آئیں،بالخصوص ہ کیس سنیئر پولیس افسراں کی توجہ کا مرکز نہیں بنا،کہ اس کو انسانیت کے تقدس کو برقرار رکھنے اور قانون کی بالا دستی کو بنائے رکھنے کیلئے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔رپورٹ کے مطابق ایس ایچ ائو ترلوکی ناتھ نے تحقیقاتی فائل کو کئی برسوں تک اپنے ہی پاس رکھا،حتیٰ کہ اس کو پولیس کی دوسری ونگ میں بھی تبدیل کیا گیا۔فورم نے11مئی کو جوابی عذرات پیش کئے۔انٹر نیشنل فورم فار جسٹس کے چیئرمین محمد احسن اونتو کے مطابق وہ بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کی تحقیقات سے مطمئن نہیں تھے،اور تحقیقاتی رپورٹ کے خلاف جوابی دعویٰ کمیشن میں پیش کیا۔ جوابی دعوئے میں کہا گیا تھا،اس رپورٹ میں ضلع انتظامیہ کی خامیوں،اور ایس ایچ ائو ترلوکی ناتھ و ڈی ایس پی مرحوم اللہ بخش کا حوالہ دیا گیا ہے،تاہم تحقیقات کے دوران سی آر پی ایف کے اس بٹالین کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے،جو اس وقت گائو کدل میں تعینات تھی۔عرضی گزار کی طرف سے تجویز دی گئی کہ ضلع انتظامیہ اور پولیس محکمہ سے جواب طلبی کے علاوہ ایس ایچ ائو ترلوکی ناتھ کے خلاف بھی کاروائی عمل میں لائی جائے۔بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں تحقیقاتی ونگ کے ایس پی کو بھی ہدایت دی جائے کہ وہ اپنی تحقیقات مکمل کریں اور حقائق کمیشن کے سامنے لائے۔ بدھ کوسماعت کے دوران عرضی گزار محمد احسن اونتو نے کہا کہ حیرانگی کا مقام ہے کہ 10ماہ قبل جوابی عذر پیش کرنے کے بعد بھی ابھی تک ممبران کمیشن کی نظروں سے یہ نہیں گزرا،جبکہ اس بیچ کیس کی5 بار سماعت ہوئی،اور اب کمیشن تحقیقاتی ونگ کو جانچ مکمل کرنے کی ہدایت دئے رہی ہیں۔کیس کی آئندہ سماعت یکم مئی کو مقرر کی گی۔