اس درجہ خوفناک لہو کی تھی سرخیاں
خود سے پناہ مانگتی پھرتی تھی بجلیاں
منظر تمام خون کی رنگت سے بھر گئے
گنبد کے آس پاس بکھرتی تھی تتلیاں
بارود بھر کے آگ بکف آندھی اک چلی
کربل کی طرح خیمہ جلا دل کا آشیاں
آمد تھی ہر طرف سے جو موسم بہار کی
اُزتری شجر شجر پہ خزاؤں کی زردیاں
نفرت کی، ہے، فضا نے مسخّر کیا چمن
یا سرد پڑگئی ہیں محبت کی گرمیاں
آہوں کی صرصریں کہ ہیں اشکوں کی بارشیں
پھر مشتہر فلک پہ وہی دُکھ کی عرضیاں
شیداّؔ دلوں کو پھر سے محبت کا درس دیں
انسانیت کا رکھ کے صحیفہ ہی درمیاں
علی شیداؔ
(نجدہ ون) نپورہ اسلام آباد کشمیر،9419045087