کوئی بھی ملک اپنے وجود میں آنے کے وقت سے ہی اپنا انتظامی ڈھانچہ مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ سب سے اہم اپنی سالمیت کو برقرار رکھنے اور اپنی کُلہم حفاظت کو یقینی بنانے کا لایئحہ عمل تیار کرنے کو اولین ترجیح دیتا ہے، پھر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ملک اپنے دفاعی نظام کو اور بہتر بنانے کے لئے نِت نئے طریقہ کار اور تکنالوجی کا سہارا لینا اپنی ضروریات کا ایک حصہ سمجھتا ہے ۔جدیدیت اور تکنالوجی کے اس دور سے پہلے فوج اور فوجی ساز و سامان پر ہی ایک ملک کا حفاظتی نِظام منحصر رہتا تھا لیکن موجودہ دور میں کمپیوٹر تکنالوجی نے اس حفاظتی ڈھانچے کو اور مضبوط کیا ہے۔ایک طرف جہاں ٹیلی فون کی جگہ موبائل فون نے لی اور سیدھی سادھی زندگی کی جگہ کمپیوٹر تکنالوجی نے لی وہیں اب دوسری طرف اِ ن ہی چیزوں کو آلہ بنا کر کسی بھی شخص کی حرکات و سکنات پر کڑی نِگاہ رکھنا اور اُس کی Locationتک کو جاننا حکومتی اداروں کے لئے آسان بن گیا ہے۔ تکنالوجی پر منحصر اس جدید حفاظتی نِظام کی ایک کڑی ہے Spyware۔ Spywareایک ایسے کمپیوٹر سافٹ وئیر کا نام ہے ،جِس سے کسی بھی شخص کے موبائل کو اُس شخص کی جاسوسی کرنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یوں کہنا مغالطہ نہیں ہوگا کہ جِس شخص کی جیب میں موبائل فون ہو، اُس کے ساتھ ایک چلتا پھرتا جاسوس ہے جو ہر وقت اس کی نگرانی کر رہا ہے۔ لیکن اس طرز کی تکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے حکومت اور حکومتی اداروں پر اخلاقی ذمہ داریاں بھی عاید ہوتی ہیں اور اس بات کو یقینی بنایا جانا لازمی ہے کہ اس کا استعمال صحیح معنوں میں ملک کی سالمیت اور حفاظت کی ہی خاطر ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ممالک میں ایسی تکنالوجی کو استعمال کرنے کے لئے قوانین بھی بنائے گئے ہیں ۔ حال ہی میں دنیا بھر کے سیاسی و سماجی حلقوں میں اُتھل پتھل پیدا ہوئی جب اسی طرح کی ایک Spyware پیگاسس(Pegasus) کے ذریعے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے ذاتی ڈیٹا کو ہیک کئے جانے کا انکشاف ہوا۔ابتدائی معلومات کے مطابق چند سال قبل اسرائیلی Cyberarms کمپنیNSO نے پیگاسس نام کا ایک Spyware تیار کیا، جوکسی بھی شخص کے موبائل فون سے فوٹو اور ویڈیو سمیت کئی طرح کا ڈیٹا چوری کر سکتا ہے ۔حد یہ ہے کہ حیرت انگیز حد تک اس Spyware کے ذریعے کسی بھی انسان کی روز مرہ کی ذاتی بات چیت اور حرکات کی جاسوسی کرنے کے لئے اُس شخص کے موبائل کیمرہ اور مائیک کا استعمال بغیرِ اجازت کیا جاسکتا ہے۔مذکورہ spyware گزشتہ تمام Spywaresسے کافی مختلف ہے، جس کا استعمال کرنے کے لئے مشکوک شخص کا محض فون نمبر معلوم ہونا کافی ہے۔ NSO نامی اسرائیلی کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ دہشتگردانہ کاروائیوں سے دنیا کو بچانے کے لئے اور دہشت گردوں کے ڈیٹا کو حاصل کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ اگر چہ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ جدید تکنالوجی کی مدد سے کوئی بھی ملک ، ملک دشمن عناصر کے ساتھ ساتھ خطرناک جرائم میں ملوث و مطلوب ملزمین پر نظر رکھنے کے لئے مختلف Spywares کا استعمال کرتے رہتے ہیں لیکن عملی طور پر پیگاسس کا استعمال کُچھ یوں ہوا کہ دنیا بھر میں اس پر اعتراض جتایا جانے لگا، یہاں تک کہ اسرائیل جہاں یہ سپائی وئیر تیار کیا گیا ہے وہاں بھی اس کے ممکنہ غلط استعمال کے خلاف تحقیقات کا حُکم دیا گیا اور ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ نتیجتاً پیگاسس دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کی خبرساں ایجنسیوں کی ترجیحی خبر بن گئی اور یہ اسرائیلی جاسوسی سافٹ وئیر کئی ممالک میں یہ ایک سیاسی کھینچا تانی کی صورت بھی اختیار کر گیا ۔ بھارت بھی اس جاسوسی سافٹ وئیر کے استعمال اور اس سے جُڑے اعتراضات سے اچھوتا نہ رہ سکا اور اب عالم یہ ہے کہ بھارتی عدالتِ عظمیٰ میں تاحال کئی پیٹیشن دائیر کئے جا چُکے ہیں، جن کی شنوائی ۵ اگست کو ہونی متوقع ہے۔ یہ پیٹیشن پیگاسس کے شکار ہوئے نامی صحافیوں اور پارلیمانی اراکین کے ذریعے دائیر کی گئی ہیں۔ تادمِ تحریر سیاسی صورتحال یہ ہے کہ حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کے بیچ تنا تنی کا دور شروع ہوا ہے اور حزبِ اختلاف کی طرف سے پیگاسس پر پارلیمان میں بحث کی مانگ کے پیشِ نظر گزشتہ کئی دن سے پارلیمانی کام کاج بھی متاثر ہوا ۔
دنیا بھر کے کئی ممالک میں نامور اشخاص کے فون ٹیپ ہونے اور Spyware سے کی جانے والی جاسوسی کے بارے میں سنسنی خیز انکشاف تب ہوا جب Forbidden Stories نامی ایک فرانسیسی NGO نے Amnesty International کے اشتراک سے اس Spyware کے بارے میں دنیا کو آگاہ کیا۔ آغاز میں Forbidden Stories نامی این جی او نے دنیا بھر کے لگ بھگ 50,000 ایسے فون نمبرات کی فہرست تیار کی جو پیگاسس سپائی ویئر کی جاسوسی کی زد میں آئے ہیں ۔ یہ فون نمبرات کا جائیزہ لیتے ہوئے معلوم ہوا ہے کہ پیگاسس کا استعمال کئی ممالک میں ہوا ہے ،جن میں آذربایجان ، سعودی عرب، موروکو، بحرین، متحدہ عرب امارات، قزاقستان، میکسیکو، ہنگری اور بھارت شامل ہیں۔ سوال گھوم پھر کے وہیں پہ آتا ہے۔ کیا اس Spyware کا استعمال ویسے ہی ہوا ہے جیسا NSO نامی اسرائیلی کمپنی نے دعوے کیا تھا؟ کیا اس سپائی وئیر کے استعمال میں اخلاقی ذمہ داریوں کا خیال رکھا گیا ہے؟ کیا اس کا استعمال ان ممالک میں خونریز حملوں میں ملوث افراد پہ یا ڈرگ مافیا کے ہی خلاف کیا گیا ہے؟ جواب شائد آ پ کو چونکا دے لیکن یہ واضع ہوچُکا ہے کہ اس کا استعمال جن افراد پہ ہوا ہے اُن میں عرب کے شاہی خاندان کے افراد کے علاوہ کئی ممالک کے سیاستدان، نامور تاجر، صحافی، انسانی حقوق کے کارکنان، نامور وکلاء یہاں تک کہ چند ایک ممالک کے سربراہان شامِل ہیں بلکہ ایک خبر کے مطابق فرانسیسی صدر میکرون کو اس جاسوسی Spyware کے نشانے پہ آنے کے بعد اپنا فون تک بدلنا پڑا تھا۔پیگاسس کا استعمال کہاں ہونا تھا اور کہاں ہوا ،اسے اس مِثال سے سمجھنا شاید آسان ہو کہ میکسیکو نے جہاں یہ دعوے کیا تھا کہ پیگاسس کا استعمال منشیات کے خطرناک مجرم اور حکومت کو مطلوب El Chappo کو ٹریس کرنے اور گرفتار کرنے کے لئے کیا گیا ہے وہاںیہ بھی بتایا جاتا ہے کہ پیگاسس کی مدد سے اُس صحافی کا موبائل بھی ہیک کیا گیا تھا، جِس نے میکسیکو میں ایک اعلیٰ نوعیت کے گھوٹالے کا پردہ فاش کیا تھا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ مذکورہ صحافی کا بعدازاں قتل ہوا تھا۔
بات اگر بھارت کی کریں تو یہاں بھی پیگاسس کے استعمال پر سوال اُٹھائے جا رہے ہیں۔ خبررساںایجنسیوں کے مطابق Pegasus کا استعال بھارت میں ۲۰۱۷ء سے ۲۰۱۹ء کے بیچ کیا گیا ہے اوربھارت میں قریباََ ۳۰۰ ایسے فون نمبرات کی فہرست ملتی ہے جن کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ فون نمبرات جاسوسی کے کام میں مستعمل رہے ہیں۔ ان میں بھارت کی کئی نامی ہستیوں کے فون نمبرات شامل ہیں جیسے پارلیمانی سطح کے سیاستدان، قومی و بین الاقوامی سطح کے صحافی، سپریم کورٹ کے وکلاء اور سپریم کورٹ جج ۔ جو نام شروعاتی فہرست میں سامنے آئے ہیں اُن میں مندجہ زیل نام قابلِ ذکر ہیں :
۱۔ گانگریس کے رہنما راہُل گاندھی جو فی الوقت حزبِ اختلاف کے نمایاں چہرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۲۔ الیکشن سٹریٹجسٹ پرشانت کشور ،جس نے ۲۰۱۴ء پارلیمانی چُنائو کے بعد بھاجپا سے کنارہ کیا تھا جبکہ ۲۰۱۴ء چُنائو کے دوران پرشانت نے بھاجپا کے کمپیننگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
۳۔ مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ ممتا بنرجی کے بھتیجے اور ترنمول کانگریس کے رکنِ پارلیمان ابھیشیک بنرجی۔
۴۔ راجستھان کی سابقہ وزیرِ اعلیٰ وسندھرا راجے کے پرسنل سیکریٹری۔
۵۔ وِشوا ہِندو پریشد کے سابقہ سربراہ پروین توگڈیا، جس نے VHP سے کنارہ کشی کرنے کے بعد بھاجپا پر سوال اُٹھائے تھے۔
۶۔ بھارت کے موجودہ IT Minister اشوِنی ویشنو جو ۲۰۱۹ء میں بھاجپا ٹکٹ پر اُڑیسہ سے چُنے گئے تھے۔
۷۔ سابقہ CBI چیف الوک ورما اور سینئیر CBI افسر راکیش استھانا .
۸۔ سابقہ الیکشن کمشنر اشوک لواسا جنہوں نے پارلیمانی چُنائو کے دوران بھاجپا پر سوال اُٹھائے تھے اور کہا تھا کہ بھاجپا کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
پیگاسس Spyware کا استعمال چند صحافیوں کے فون ریکارڈ کرنے کے لئے بھی کیا گیا ہے۔ جِن میں روہنی سنگھ بھی شامل ہیں جنہوں نے امیت شاہ کے بیٹے جے شاہ کی کمپنی پر سوال اُٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ کس طرح کمپنی نے محض ایک سال میں ناقابلِ یقین حد تک منافع کمایا تھا۔"I am Troll" نامی کتاب کی تخلیق کار سواتی چترویدی ، جنہوں نے اپنی کتاب میں حزبِ اقتدار کی آئی ٹی سیل کے تنقید کی تھی، بھی پیگاسس کی حدف بنی ۔ رفائل پر سوال اُٹھانے والے انڈین ایکسپریس کے سابقہ ایسوسیٹ ایڈیٹر سُشانت سنگھ اور انڈیا ٹوڈے کے صحافی سندیپ کے علاوہ’’ دی ہندو‘‘ کی صحافی وجیتا سنگھ کا بھی فون ٹریس کیا گیا پیگاسس کے استعمال سے۔ سیاستدان اور صحافیوں کے علاوہ اس سافٹ وئیر کی زد میں CJI رنجن گوگوئے پر جنسی زیادتی کا الزام لگانے والی سپریم کورٹ کی ایک خاتون سٹاف ممبر کا موبائل بھی آیا تھا، جس پر صحافتی و سماجی حلقوں میں اب چمیگوئیاں ہو رہی ہیں۔ علاوہ ازیں جموں کشمیر کے ۲۵ سے زائید ایسے افراد کی نشاندہی بھی ہوچُکی ہے جِن کے بارے میں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ پیگاسس کے راڈار پہ رہے۔ اِن میں علیحدگی پسند اور مین اسٹریم سیاستدانوں کے علاوہ معروف صحافی اور حقوقِ انسانی کے اراکین بھی شامل ہیں۔
جیسا کہ راقم الحروف نے مضمون کے آغاز میں ہی عرض کیا کہ ملک کی سالمیت کو بچانے کے لئے سائیبر سیکیورٹی کا ستعمال کرنا، ملک دشمن عناصر اور قومی سطح کے مطلوب مجرموں کی حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھنا ملک کا حق ضرور ہوتا ہے اور اس کے لئے Spywares کا استعمال ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیگاسس سپائی وئیر کی نگرانی میں جن افراد کے موبائل فونز رہے ہیں، اِنہیں کِس ضمرے میں رکھا جائے ؟ اِ ن کی جاسوسی سےکس کا نفع یا نقصان طےہو سکتا تھا؟ کیونکہ اتنا بڑا سپائی ویئر استعمال کرنے کے لئے کافی رقومات کی کھپت ہوتی ہے بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق صرف دس موبائل فونز کو اس سپائی وئیر سے ٹریک کرنے کے لئے ۵ کروڈ کی کھپت ہوتی ہے ۔ پھر اگر یہ کھپت ملک کی سالمیت کو بچانے یا ممکنہ حادثات کو روکنے کے بجائے سیاستدانوں، انسانی حقوق کے کارکنان اور وکلاء و صحافیوں پر نگاہیں مرکوز کرنے کی خاطر کی جائے تو یہ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ ایسی اہم اور مہنگی تکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اخلاقی ذمہ داریوں کا خاص خیال رکھا جانا ضروری ہے۔ بہر کیف جب تک پیگاسس پہ کھُل کر پارلیمان میں بحث نہیں ہوتی اور خدشات کا جواب نہیں دیا جاتاتب تک اس معاملے کی پیچیدگیوں کو سمجھنا عام شہری کے لئے مشکل ہے۔
ہردوشیو اہ،زینہ گیر
رابطہ:9906607520
�����