سرینگر// عمر عبداللہ کی سربراہی والی سابق مخلوط سرکار میں محفوظ راہداری پالیسی کے تحت آنے والے سابق جنگجوئوں کے ساتھ بیہائی گئی پاکستانی نژاد خواتین نے انہیں شہریت کا درجہ دینے یا واپس پاکستان روانہ کرنے کیلئے پریس کالونی لالچوک میں احتجاج کیا اور گھنٹہ گھر تک مارچ کیا۔ خواتین انے بچوں کے ہمراہ احتجاج کرتے ہوئے نعرہ بازی کی اور الزام عائد کیا کہ حکام نے انہیں شہریوں کے حقوق سے محروم رکھا ہے یہاں تک کہ انہیں سرحد پار آبائی علاقوں میںجانے کیلئے سفری دستاویزات بھی فراہم نہیں کئے جاتے ہیں۔ 2006 میں اُس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ذریعہ تشکیل دیئے گئے ورکنگ گروپ کی سفارشات کے بعد مرکزی وزارت داخلہ کے مشورے سے 2010 میں ’’ محفوظ راہداری پالیسی ‘‘ کا اعلان کیا گیا تھا۔اس پالیسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلحہ کی تربیت کیلئے پاکستان کے زیرانتظام آزاد کشمیر گئے نوجوان اپنی شریک حیات اور بچوں سمیت وادی واپس آئے تھے۔ احتجاجی خواتین کاکہنا ہے کہ ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسابرتاؤ کیا جارہا ہے۔ احتجاجی خواتین نے پولیس کا گھیرا توڑ کر لالچوک کی جانب مارچ کیا۔ اگرچہ پولیس نے ان کو منتشر کرنے کی پوری کوشش کی لیکن پھر بھی خواتین اور بچوں نے احتجاج جاری رکھتے ہوئے ، انصاف کے حصول کے لئے نعرے لگائے۔ انہوںنے کہا کہ جب سے ان کی شادی ہو گئی ہے تب سے انہیں کبھی میکے جانے کی اجازت نہیںدی گئی ہے جس کے نتیجے میں انہیںکافی پریشانیوںکا سامنا ہے ۔احتجاجی خواتین نے کہا کہ ’ہم نے کئی مرتبہ انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ ہمیں سفری دستاویز فراہم کئے جائیں تاکہ ہم اپنے آبائی علاقہ جاکر رشتہ داروں سے مل سکیں‘ ۔ احتجاج میں شامل طیبہ نے اس موقعہ پر نامہ نگاروں کو بتایا ’’ہم نے کوئی جرم نہیں کیا ہے بلکہ کشمیر کے نوجوانوں سے شادی کی ہے، نہ ہی ہمیں شہریت کا حق دیا گیا ہے اور نہ ہی ہمیں آبائی علاقوں میں واپس روانہ کیا جا رہا ہے‘‘۔انہوں نے کہا’’ ہم اپنے اہل خانہ سے ملنے کیلئے بے چین ہیں، ہمارے پاس دل ہے اور وہ اپنے والدین کے بغیر نہیں رہ سکتے ۔‘‘ احتجاج میںشامل سائرہ نے کہا ’ ہم روز احتجاج کرتے ہیں’’ ہمیں سفری دستاویزات فراہم کئے جائیںیاہمیں تسلیم کیا جائے تاہم آج تک ایسا نہیں کیا گیا‘ ۔انہوں نے کہا کہ جب تک نہ ہمارا کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے ۔ احتجاج کرنے والی خواتین نے بین الاقوامی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا اور گلوکارہ عدنان سمیع کی مثالوں کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا’’عدنان سمیع کو پاکستانی ہونے کے باوجود ہندوستانی شہریت دی گئی جبکہ ثانیہ مرزا نے پاکستانی کرکٹر شعیب ملک سے شادی کی اور اب بھی وہ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی نمائندگی کرتی ہے لیکن ہمارے معاملے میں دہرا معیار کیوں اپنایا جا رہا ہے‘‘۔انہوںنے کہاکہ وادی میں رہائش پذیر ہونے کے بعد ان کی کہیں بھی گنتی نہیں کی جارہی ہے،نہ ہمیں آدھار کارڈ ،نہ راشن کارڈاور نہ ہی ووٹر شناختی کارڈ ملتے ہیں اور یہاں تک کہ ہمیں کسی بھی تعلیمی ادارے میں اپنے بچوں کو داخل کروانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا’’ ہمارے مطالبات بہت آسان ہیں ، یا تو ہمیں قبول کریں یا ہمیں اپنے آبائی علاقوں میں بھیج دیں۔‘‘ احتجاج کی وجہ سے لالچوک میں کچھ وقت کے لئے ٹریفک میں خلل پڑ گیا۔ اعلی پولیس اور سول حکام موقع پر پہنچ گئے اور ان کے لئے بس کا انتظام کیا گیا اور انہیں صوبائی کمشنر کشمیر کے دفتر پہنچایا گیا جہاں حکام نے انہیں یقین دلایا کہ معاملہ اعلی حکام کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔