سائنس کی ترسیل ، ترویج اور توسیع | کشمیر یو نیورسٹی میںسات روزہ سائنس فیسٹول اختتام پذیر

سرینگر//اردو اور کشمیر ی زبان میں سائنس کی ترسیل ، ترویج اور توسیع کیلئے سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیر اور وگیان پرسار نئی دہلی کے اشتراک سے کشمیر یونیورسٹی کے گاندھی بھون میں ’’وگیان سروترپوجیتے،سب کے لئے SCoPEمیلہ ‘‘کے عنوان کے تحت سات روزہ سائنس فیسٹول اختتام پذیر ہوا ۔ سوموار کو اختتام تقریب میں شیر کشمیر زرعی یونیورسٹی ( سکاسٹ ) کشمیر کے وانس چانسلر پروفیسر نظیر احمد گنائی ، سنیٹرل یونیورسٹی کشمیر کے سابق وائس چانسلر پروفیسر معراج الدین میر ،سنیٹرل یو نیورسٹی آف کشمیر کے وائس چانسلر پروفیسر فاروق احمد شاہ ، رجسٹرار  محمد افضل زرگر ، کشمیر یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر نثار احمد میر کے علاوہ ڈین اسکول آف میڈیا سٹیڈیز سنیٹرل یونیورسٹی آف کشمیر اور سیکوپ کے پروجیکٹ انچارج پروفیسر شاہد رسول بھی موجودرہے ۔ اختتامی تقریب پر مہمانوں کا شکرئی ادا کرتے ہوئے ڈین اسکول آف میڈیا سٹیڈیز اور پروجیکٹ منیجر پروفیسر شاہد رسول نے تمام شرکاء کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ خراب موسمی صورتحال اور کووڈ کے وبائی بیماری کے باوجود بھی طلبہ ، اسکالروں اور دیگر مہمانوں نے فیسٹول میں شرکت کرکے اسکو کامیاب بنایا ۔ پروفیسر شاہد رسول نے کہا کہ اس پروگرام کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ہم سائنس کی تعلیم کو مقامی زبانوں کشمیر اور اردو میں لوگوں تک پہنچائے تاکہ ایک عام انسان بھی سائنس کی ترقی اور ایجادات سے واقف ہو سکیں ۔انہوںنے سات دنوں میںمنعقدہ پروگرامو ں پر بھی مختصر روشنی ڈالی ۔ اس موقعہ پر گورنمنٹ ڈگری کالج سمبل کے پرنسپل ڈاکٹر محمد شفیع خان کی لکھی کتاب کی بھی رسم رونمائی انجام دی گئی ۔ اس موقعہ پر کشمیریو نیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر نثار احمد نے سات روزہ کامیاب فیسٹول کیلئے منتظمین کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ بھی اس طرح کے پروگرام منعقد کرنے پر زور دیا ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شیر کشمیر زرعی یونیورسٹی ( سکاسٹ ) کشمیر کے وائس چانسلر نظیر احمد گنائی نے کہا کہ بنی نوح انسان کی تخلیق کے بعد انسان کی زندگی میں سائنس سے ہوئی نمایاں تبدیلی پر روشنی ڈالی ۔ اس موقعہ پر انہوںنے سکاسٹ کشمیر کے سنگ میلوں کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی میعار میں بہتری لانے کیلئے سکاسٹ کشمیر نے بہت اہم اقدامات کئے ہیں ۔ اسی دوران انہوں نے زمینداروں تک سائنسی معلومات کو مادری زبان میں پہنچانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سائنسی ایجادات و اختراحات کو سمجھانا ایک عام فہم انسان کے بس میں نہیںہے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کو مقامی زبانوں میں ہی ان لوگوں کو تک پہنچایا جائے تاکہ وہ بھی اس سے مستفید ہو سکے ۔پروگرام کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سنیٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے وائس چانسلر پروفیسر فاروق احمد شاہ نے کہا کہ موجود دور میں اگر دیکھا جائے تو سائنس کی ترقی سے دنیا میں ہوئی تبدیلیاں ہمارے سامنے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ سائنس کی ترقی تب ہی ممکن ہے جب ہماری نوجوانوں میں سائنٹفک ٹمپر موجود ہے اور اگر ایسا ممکن نہیںہوا تو کسی بھی ملک میں سائنس کی ترقی ممکن نہیںہو سکتی ہے ،۔پروفیسر فاروق احمد شاہ نے کہا کہ نوجوانوں میں سائنسی تعلیم رائج کرنے کیلئے قومی زبانوں کو رول اہم رہتا تھا ۔ لہذا سنیٹرل یونیورسٹی آف کشمیر اور کشمیر یونیورسٹی نے وگیان پرسار کے اشتراک سے اس پروجیکٹ کی شروعات کی تاکہ اردو اور کشمیری زبان میں سائنسی تعلیم کو عام کیا جائے ۔ پروفیسر شاہ نے مزید کہا کہ اس پروگرا م کے تحت سنیٹرل یونیورسٹی آف کشمیر گزشتہ چار ماہ سے اردو اور کشمیری زبان میں ماہانہ میگزین ’’ تجسس اور گاش‘‘ شائع کر رہی ہے جس میں یہی کوشش ہے کہ سائنسی تعلیم کو عام لوگوں تک علاقائی زبانوںمیں پہنچایا جا سکے ۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں میں سائنسی مزاج پیدا کرنے کے بغیر ہم سائنس کے فائدہ سے ہمکنار نہیں ہو سکتے ہیں لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ سائنس کو مادری زبان میں بچوں تک پہنچانے کیلئے اول سے ہی کوششیں کی جائے۔ انہوںنے کہا کہ اسی غرض سے سنیٹرل یونیورسٹی نے چار ماہ قبل اس پروجیکٹ کا آغاز کیا ہے جس میں وہ کامیاب ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ سائنسی تعلیم بچوں تک آسانی سے پہنچانے او ر انہیں سمجھانے کیلئے ہمیں سکھانے کا طریقہ کار تبدیل کرنا ہوگا ۔ اختتامی تقریب پر سنیٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے سابق وائس چانسلر پروفیسر معراج الدین میر نے بھی سکوپ پروجیکٹ کی سراہنا کرتے ہوئے سنیٹرل یونیورسٹی خاص طور پر پروفیسر شاہد رسول کو مبارک باد پیش کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ کوشش اب یہ ہو نی چاہیے کہ کشمیری اور اردو زبان کے بعد اس پروجیکٹ کو گوجری اور ڈوگری زبانوں میں بھی شروع کیا جائے ۔ پروفیسر معراج الدین میر نے ٹکنالوجی سے بڑھتے انقلاب کی ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں موجودہ دور میں ٹکنالوجی کا صیح استعمال کرکے اسے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے اور کہا کہ اگر اسکو ہم صیح سے استعمال نہ کر سکے تو یہ تباہی کا باعث بن سکتی ہے ۔ تقریب کے دوران مہمانوں کی شال پوشی بھی کی گئی اور انہیں گلدستہ بھی پیش کئے گئے جبکہ تقریب کو کامیاب بنانے کیلئے مختلف انتظامی کمیٹیوں کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی ۔