حمیراعلیم
ہر سال رمضان میں لوگ صدقہ خیرات اور زکواۃ دینے کی ترغیب دیتے ہیں۔مختلف ہاسپٹلز، این جی اوز اور دیگر خیراتی ادارے تمام ٹی وی چینلز اور اخبارات میں اشتہارات دیتے ہیں جن میں یہ اپیل کی جاتی ہے کہ اپنی زکواۃ اور صدقات ان بیماروں اور مستحقین کی مدد کے لیے ان اداروں کو دی جائے۔اگرچہ یہ ایک الگ معاملہ ہے کہ اس اشتہار پر وہ کروڑوں خرچ کرتے ہیںاور اگر یہی رقم وہ اپنے ادارے کے ذریعے مستحقین پر لگائیں تو زیادہ بہتر ہو۔
جب بھی ہم صدقہ زکواۃ دینے نکلتے ہیں خواہ رمضان میں یا سال کے کسی اور مہینے میں ایک مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ کس شخص یا ادارے کو دیں؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ ان صدقات اور زکواۃ کے ذریعے غریب لوگوں کی مدد فرما کر انہیں بھی معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کے قابل بنانا چاہتا ہے۔اسی لیے زکواۃ کے آٹھ مصارف خود قرآن میں بتا دئیے۔۱۔زکوۃ کے محکمے میں کام کرنے والے عمال،۲۔ مساکین، ۳۔مسافر،۴۔بیوہ اور یتیم،۵۔غلام آزاد کرنے پر آج کل چونکہ غلام نہیں قتل تو کسی بیگناہ قیدی کی ضمانت/ جرمانہ ادا کر دیا جائے یا کسی غریب کا قرض اتار دیا جائے،۶۔ نو مسلموں کی تالیف قلب کے لیے،۷۔ اللہ کی راہ میں یعنی جہاد پر،۸۔قرض داروں کے لیے۔یاد رکھئے کہ مسجد میں زکوۃ ادا نہیں کی جا سکتی کیونکہ زکواۃ کے مصارف آٹھ ہی ہیں ،البتہ صدقات خیرات دئیے جا سکتے ہیں۔
حدیث کے مطابق ان صدقات کا پہلا حق رشتے داروں کا ہے۔کیونکہ غریب رشتے دار کی مدد کر کے صلہ رحمی کا اجر بھی ملے گا اور صدقے کا بھی۔دوسرا حق پڑوسی کا ہے اور تیسرا حق بیوہ اور یتیم کا پھر جو بھی شخص اپنا اور اپنے گھر والوں کا خرچ برداشت نہ کر سکے اس کا۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم انہی طبقوںمیں زکواۃ و صدقات تقسیم کرنے کی کوشش کریں، تاکہ حق داروں تک حق پہنچے۔کیونکہ اس پُر فتن اور جھوٹے دور میں زیادہ تر وہ لوگ زکواۃ حاصل کرتے رہتے ہیں،جو بذاتِ خود زکواۃ دینے کے اہل ہوتے ہیںاور مختلف حیلے بہانوں کی آڑ میں اپنے آپ کو زکواۃ کے مستحق قرار دے کرصاحبِ ثروت لوگوں کو لوٹتے رہتے ہیں۔ایسے ہزاروں معاملے سامنے آچکے ہیں کہ جن کا پیشہ گداگری ہے،وہی زکواٰۃحاصل کررہے ہیں، اُن کے پاس اپنی قیمتی گاڑیاں ،بڑی بڑی جائیدادیں اور مکانات موجود ہوتے ہیں جو انہوں نے کرایے پر دیئے ہوتے ہیںاور خود مسکینی اور فقیری کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔ایسے سینکڑوں گھرانے بھی دیکھے جارہے ہیں،جن کے جوان اولادیںاچھی خاصی کمائی کررہے ہوتے ہیں اور عیاشیوں میں بھی مصروف ہوتے ہیں،پھر بھی زکواۃ کی رقومات اینٹھتے رہتے ہیں۔کئی گھرانوں کی بگڑی ہوئی جوان نسل ، زکواۃ
سے حاصل کی گئی رقومات کو منشیات کے کاروبار اور استعمال میں اُڑاتے رہتے ہیں۔کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سب لوگ ہی ایسے فراڈی ہیں، بہت سے حقیقی مستحقین بھی ہیں لیکن اُنہیں ہم نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔جبکہ قرآن نے ان کی علامت بیان کی ہے کہ ایسے مستحقین، لوگوں سے لپٹ لپٹ کر مانگتے نہیں ہیں۔ سیلاب ،زلزلے،کووڈ اور دوسری کئی لاعلاج بیماریوں کے سبب ایسے بہت سے لوگ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو کہ کاروبار ی تھے،تاجر تھے،نوکری کررہے تھے،لیکن اُن سے یہ سب کچھ چھِن چکا ہے اور آج وہ اپنے گھر کا راشن اور کرایہ دینے کے قابل بھی نہیں رہے ہیںاور زکواۃ کے مستحق بھی بن چکے ہیں، وہ ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔اگرچہ وہ حقیقی معنوں میں سفید پوش بن چکے ہیںلیکن کسی سے کچھ مانگتے نہیں ہیں ۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ اُن کی مدد کی جائےلیکن اُن کی مدد کرنے کے لیے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ اُن کی عزتِ نفس کو بھی ٹھیس نہ پہنچے اور ان کی مدد بھی ہو جائے۔ہوسکتا ہے کہ آپ بھی ایسے ہی تجربات کر چکے ہیں تو پھر اپنے اردگرد سفید پوشوں کی مدد کیجئے۔ خاموشی سے پیسے ایک لفافے میں ڈالیے اور ان کے گیٹ سے اندر پھینک دیجئے۔گروسری لیجئے اور ان کے گھر کے باہر رکھ کر بیل دیجئے اور غائب ہو جائیے۔اپنے بچوں کے لیے کپڑے جوتے، کتب، بیگز لیں تو ایک ایکسٹرا لے کر اُن کے اسکول بھجوا دیجئے کہ پرنسپل کسی مستحق بچے کو دے دیں،اسی طرح کھانا بنائیں، یا کوئی اچھی ڈش۔ کوئی مٹھائی یا پھل خریدیں،اپنے بچوں کے ہاتھوںاُن کے ہاں بھی ضرور بھیج دیجئے۔تاکہ اللہ تعالیٰ ہمارے صدقات قبول فرمائے اورہمارے صدقے اصل مستحقین تک پہنچائے۔