میر امتیاز آفریں
ارکانِ اسلام میں زکوٰۃ نماز کے بعد دوسرا اہم ترین رکن ہے۔قرآن میں 82 مقامات پر زکوٰۃ ادا کرنے کا تاکیدی حکم آیا ہے اور 32 مقامات پر نماز اور زکوٰۃ کا ذکر یکجا کیا گیا ہے ،جس سے اسلام میں زکوٰۃ کی اہمیت اور مقام کا انداز ہ کیا جا سکتا ہے۔جس طرح نماز حقوق اللہ کی ادائیگی کی سب سے اہم کڑی ہے، اسی طرح حقوق العباد میں یہی حیثیت زکوٰۃ کو حاصل ہے۔
زکوٰۃ کے معنی پاکیزگی اور صفائی کے ہیں، اپنے مال سے بخوشی خدا کا حق نکالنے سے مال بھی پاک ہو جاتا ہے اور آدمی کا اپنا نفس بھی خود غرضی، دنیا پرستی اور مادہ پرستی سے پاک و صاف ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہو کر ارشاد فرماتا ہے: خذ من اموالھم مصدقۃ تطھّر ھم و تزکیھم بھا۔ یعنی ’’اے نبی ؐ! ان ( مومنوں ) کے مالوں میں سے زکوٰۃ لے کر ان کے ظاہر و باطن کو پاک صاف کیجئے۔‘‘ (التوبہ:103)
زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرتِ ابو بکرؓکے دورِ خلافت میں جب بعض قبائل نے بیت المال میں زکوٰۃ جمع کرنے سے انکار کردیا تو آپؓ نے ان سے تب تک جنگ کرنے کا فیصلہ کیا ، جب تک وہ اسی طرح زکوٰۃ ادا نہیں کرتے جس طرح دورِ نبویؐ میں ادا کیا کرتے تھے۔حالانکہ وہ لوگ نماز پڑھتے تھے اور اسلا م کا اقرار بھی کرتے تھے۔آپؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم نماز اور زکوٰۃ کے درمیان جو لوگ فرق کریں گے، میں ضروران کے خلاف جہاد کروں گا، پھر تمام صحابہ کرام نے اس نظرئے کو قبول کیا اوراس پر سب کا اجماع ہو گیا۔
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام میں ساری نیکیوں کی حیثیت نماز اور زکوٰۃ کو حاصل ہے۔ دوسری نیکیاں انہیں دو بڑی نیکیوں کے تحت ہیں۔غور کیجئے تو ایک آدمی کے اللہ کا پیارا بندہ بننے کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ ایک اس چیز کی کہ وہ اپنے رب سے ٹھیک ٹھیک جُڑ جائے اور دوسری چیز یہ کہ خلق(یعنی لوگوں) کے ساتھ اس کا تعلق صحیح بنیاد پر قائم ہو جائے۔نماز انسان کو اپنے رب سے صحیح طور پر جوڑ دیتی ہے اور زکوٰۃ و انفاق سے خلق سے اس کا تعلق صحیح بنیاد پر استوار ہو جاتا ہے۔ایک شخص اپنے رب کے حقوق ادا کرتا ہے اور خلق کے حقوق پہچانتا ہے تو وہ تمام نیکیوں کی چابی پا لیتا ہے۔ان ہی دو عبادات کی مدد سے وہ دوسری ساری نیکیوں کے دروازے بھی کھول لیتا ہے اور دیگر اعمال کو اختیار کرلینا، اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے۔ قران کریم میں خدا کی محبت میں بندوں پر مال خرچ کرنے کے لئے تین اصطلاحات کا استعمال کیا گیا ہے: زکوٰۃ، انفاق اور صدقات۔ اِنفاق فی المال کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے سرمایہ و دولت کو ضرورت مندوں پر اس طرح خرچ کیا جائے کہ ان کا معاشی تعطل ختم ہو اور ان کی تخلیقی جد و جہد بحال ہو جانے کی صورت میں وہ معاشرہ میں مطلوبہ کردار بحسن و خوبی سر انجام دے سکیں۔ اس انفاق کی عملی مثال مواخاتِ مدینہ ہے اور حصولِ نصب العین کے لیے فعلِ اِحسان کی عملی صورت مال کا اِنفاق ہے۔
صدقہ صدق اور سچائى سے ماخوذ ہے، كيونكہ يہ صدقہ كرنے والے كے ايمان كى سچائى اور صدق كى دليل ہے.نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ہر دن، جس میں سورج طلوع ہوتا ہے، انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ کرنا واجب ہے۔ ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے تمہارا دو آدمیوں کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے، کسی آدمی کو اس کی سواری پر بٹھانے یا اس کا سامان اٹھا کر اس پر رکھوانے میں اس کی مدد کرنا بھی صدقہ ہے، اچھی بات کہنا صدقہ ہے، نماز کی طرف جانے کے لیے اٹھنے والا ہر قدم صدقہ ہے اور راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کا ہٹانا بھی صدقہ ہے ۔‘‘ (بخاری 2989)۔اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ ہر دن ایک مسلمان کو کچھ نہ کچھ راہ خدا میں خرچ کرنا چاہئے۔ انفاق چاہے مال کا ہو یا وقت کا یا کسی اور چیز کا۔راہِ خدا میں مخلوق کی امداد کے لئے ہر روز کچھ نہ کچھ پیش کیا جانا چاہئے۔
زکوٰۃ اسلام کے اقتصادی نظام (Economic System) میں ریڑھ کی ہڈی (backbone)کی حیثیت رکھتی ہے۔ زکوٰۃ کے حکم کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرما ہے کہ اسلامی حکومت پورے معاشرے کو ایسا اقتصادی و معاشی نظام، طرزِ زندگی اور سماجی ڈھانچہ مہیا کرے جس سے حرام کمائی کے راستے مسدود ہو جائیں اور رزقِ حلال کے دروازے کھلتے چلے جائیں۔اس لئے اسلام نے ہر صاحبِ مال پر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ وہ سالانہ بنیادوں پر اپنے جمع شدہ اموال پر اڑھائی فی صد (2.5)کے حساب سے مال نکال کر اجتماعی طور پر بیت المال میں جمع کرادے تاکہ وہ اس سے معاشرے کے پس ماندہ اور محتاج افراد کی ضروریات پوری کرنے پر صرف کر سکے۔اس شرح سے اگر سب مالدار اپنے سال بھر کے اندوختہ مال سے اپنااپنا حصہ نکالتے رہیں تو اس طرح نہ صرف ان کی کمائی حلال اور ان کا مال و متاع آلائشوں سے پاک و صاف ہو جائے گا بلکہ معاشرے میں پائی جانے والی معاشی ناہمواریاں (Inequalities) بھی از خود دور ہوتی رہیں گی۔دورِ حاضر کے سرخیل ماہرِ اقتصادیات (top economists) نے تسلیم کیا ہے کہ اگر اسلام کا نظامِ زکوٰۃعملاً نافذ کیا جائے تو جلد ہی دنیائے اسلام سے افلاس و غربت کا خاتمہ ہو جائے۔علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں:’’اسلام نے مسئلہ غربت کا جو حل پیش کیا ہے اور جس طرح ضرورت مندوں اور کمزوروں کی کفالت کا نظام قائم کیا اس کی آسمانی مذاہب میں یا وضعی قوانین میں کوئی نظیر نہیں ملتی اور اسلام نے اس سلسلے میں جو نظام تربیت و راہنمائی دیا ہے اور جو قوانین و تنظیمات (institutions ) فراہم کئے ہیں اور جو ان قوانین کے نفاذ اور تطبیق (applications ) کے جو قواعد بتائے ہیں ان کی دنیا کے مذاہب و قوانین میں کوئی مثال نہیں ملتی۔‘‘ (فقہ الزکوٰۃ)
یہ بات خوش آئند ہے کہ دن بہ دن زکوٰۃ کے متعلق امت بیدار ہو رہی ہے۔گارڈین کے مطابق ساڑھے تین ٹریلین ڈالر ہر سال زکوٰۃ کی صورت میں مال مسلمان دیتے ہیں، امت مسلمہ کے بہت سے افراد حساب لگا کر زکوٰۃ نکالتے ہیں لیکن زکوٰۃ کے وہ عملی اثرات جو معاشرے پر پڑنے چاہیے نہیں پڑ رہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے زکوٰۃ کو انفرادی طور پر ادا کرنا شروع کیا ہے، امت مسلمہ میں نظمِ زکوٰۃ کا تصور پایا نہیں جاتا، اس وجہ سے زکوٰۃ کا بنیادی مقصد فوت ہو جاتا ہے، زکوٰۃ ایک منظم پروگرام ہے اس کا مقصد جہاں ازالہ غربت ہے وہیں یہ عالم اسلام میں حقیقی وحدت پیدا کردیتا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جید علماء کرام اور ماہرین معاشیات کے اشتراک سے ایک ایسا عالمی سطح کا متحدہ ملی ادارہ قائم کیا جائے جو پہلے اس بات کو یقینی بنائیں کہ سارے صاحبانِ نصاب زکوٰۃ ادا کریں اور اس کے بعد اس مال کو منظم و شفاف طریقے سے مستحقین میں خرچ کریں۔
یہ اسلام کے نظامِ زکوٰۃ کا ہی فیضان تھا کہ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور حکومت میں زکوٰۃ ادا کرنے والے تو ملتے تھے مگر زکوٰۃ لینے والے مشکل سے ملتے تھے، اس قدر غربت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔لہٰذا اگر آج بھی زکوٰۃکا نظام تعلیماتِ نبویؐ کی روشنی میں نافذ کیا جائے تو کچھ بعید نہیں کہ مسلم سماج سے غریبی و لاچاری کا خاتمہ ہو جائے اور وہ مصطفوی و معاشی انقلاب پھر سے بھرپا ہوجائے ،جس سے ہر فرد و بشر کو امن و سکون کی زندگی میسر ہوجائے۔آج اس مقدس ماہ مبارک میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کریں اور اللہ کی رضا حاصل کرتے ہوئے غرباء، فقراء و مساکین کی بھرپور امداد کریں تاکہ ہمارے معاشرے کا ہر فرد معاشی بدحالی سے نجات پاسکے۔
[email protected]