زُبان کی جمالیات!

زبان کے حلیہ اور اس کی ہیت میں اگرچہ یکسان مماثلت پائی جاتی ہے لیکن اس کا انفراد اس وقت کھل کر سامنے آجاتا ہے جب اس کی جمالیات عیاں ہو جاتی ہے اور جمال کے ساتھ اس کا جلال بھی ظاہر ہوتا ہے جو ماچس اور پٹرول کی مدد کے بغیر ہی نہ بجھنے والی آگ دہل دیتی ہے ۔ 
ہر متنفس زبان کی دولت سے مالا مال ہے جس کی بدولت ایک سماجی رابطہ قائم کیا جاتا ہے ،رشتے پیدا کیے جاتے ہیں اوربگھاڑے جاتے ہیں دوستیاں جنم لیتی ہیں تو زبان کی وجہ سے، دشمنی کو پیدا کرنے کا سہارا بھی زبان کو ہی حاصل ہے ۔ ہر نفس زبان کا استعمال اپنی ضرورت ، طاقت اور استعداد کے مطابق کرتا ہے۔ جب بھی کوئی شخص اپنی زبان کا استعمال مقرر کردہ قیود و حدودسے نکل کر کرتا ہے تو اس پر زبان درازی کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، کچھ تو مفت مشورہ صادر کر کے کہتے ہیں ’’ زبان کو لگام دو ‘‘ جس کے محاوراتی معنیٰ ہے چپ رہو، سمجھ کر بولو لیکن کیا کیجئے گا زبان کو لگام دینے سے کوئی فایدہ نہیں کیونکہ لگام اگر کس کر رکھنی ہے تو وہ سارے انسانی وجود کی کسکر رکھنی ہو گی کیونکہ بہرحال زبان کا استعمال مخاطب اور مخاطب الیہ دونوں پر اپنا اثر بنائے رکھتاہے ۔ 
زبان کا بنیادی وجود انسان کے خمیر سے اُٹھتا ہے ،جہاں جیسی تعمیر ہوئی ہوگی وہی زبان سامنے آئے گی، وہی بول بولے جا سکتے ہیں، جن سے یا تو محبت کے شگوفے کھل اُٹھیں گے یا پھرنفرت کے خارنکل آینگے ۔ دونوں صورتوں میں زبان کی جمالیات ہی کام آتی ہے۔ جو دل کی باتیں ،دماغ کے خیالات، اپنے احساسات اور جذبات کو لوگوں کے سامنے لاتی ہے، سامنے آنے کے ساتھ ہی لوگوں کے پاس شخص کی شخصیت کا اظہار ہو جاتا ہے، اس کی دانش، فہم و فراصت کا معیار قائم کیا جاتا ہے ، وسعت علوم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے شخص کی جاہلیت عوامی گفتگو کا مرکز بن جاتی ہے، جس گفتگو سے ایک نئی جمالیات جنم لیتی ہے ،جہاں ہزار طرح کے نئے سوالات سامنے آجاتے ہیں جن سے جمالیاتی اظہار بیان میں نئی طرح کی زبان دانیاں معرض وجود آجاتی ہیں ۔ 
زبان بندی کو اگر چہ دنیا کے سیاسی اصولوں اور جمہوری قوائد نے خلاف حقوق ِ انسانی قرار بھی دیا ہے لیکن نہ جانے کتنی ظاہری اور غیبی طاقتیں اس پر شد و مد کے ساتھ کام کرتی ہیں ۔ جس سے انسان کے بنیادی حقوق تلفی سے تصور کیا جاسکتا ہے ۔ جی ہاں! حضور ِ والا کون سا ملک ،کون سا دیش ،کون سا ادارہ ، کون سا گھرانہ ایسا ہے، جہاں زبان بندی لازم نہیں ہے ،جہاں زبان کی جمالیات کو مجروح کر کے رکھ دیا گیاہے ، جہاں سچ بولنا خود پر واجب القتل کی مہر ثبت کرنا ہے ، جہاں اگر زندہ رہنا ہے تو محض فریب کاری سے کام لینا ہوگا ۔ زبان کی جمالیات تب کیا رنگ لاتی ہے جب عام عاشق رستم پہلوان سے زیادہ طاقت ور ثابت ہوتا ہے ،جہاں یقین محکم کے ساتھ بد صورت عاشق کو حسن یوسف سے تعبیر کیا جاتا ہے ، جہاں دعوائے محبوبی کی بنیاد پر بے چارے عاشق کو شرین کا فرہاد بھی قرار دیا جاتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ مخاطب الیہ دل ہی دل میں اندیشہ ہائے دور دراز کی مانند ایسے ہی خیالی عاشق کو پانے کی چاہ میں ڈوب جاتا ہے، جہاں سے کچھ بچ نکل کر آجاتے ہیں اور کچھ ڈوب کر مر جاتے ہیں ۔زبان کا جمالیاتی پن اس وقت نئے ہزار چشمے پھوٹنے کا نرالا انداز پیدا کرتا ہے جب عاشق محبوب کی تعریف میں ملک الزیبتھ کو بھی مماثلت میں نہیں لاتا اور جہاں مونالیزا کی مسکراہٹ بھی معنی ندارد جیسی ٹھرتی ہے :
سو دیکھ کر تیرے رخسار ولب پے یقین آیا 
کہ پھول کھلتے ہیں گلزار کے علاوہ بھی 
(احمد فراز ؔ)
شعراء حضرات کی زبان دانی کا کہاں کوئی ثانی ممکن ٹھہرا، جہاں محبوب کے لب و رخسار کی روشنی چاند کی روشنی کے مترادف ٹھہرائی گئی ہو ،جہاں معشوق کے رخسار اور دہن میں بہترین خوشنما پھولوں کا باغ بھی آباد کیا جائے ، جہاں شبنم بھی آگ کے شعلوں میں زندہ باد کا نعرہ لگا کر مسکرا رہی ہو ۔زبان کا جمالیاتی ہنر زبان دانوں کو ہی بہ خوبی آتا ہے ،ہم اور آپ تو ٹھہرے عام انسان جن کی زبان سیدھی سادھی بے چاری لفظوں کے انتخاب میں بھی کمزور معلوم ہوئی جہاں اپنی بات سامنے رکھنے سے بھی زبان مجبور و محکور لگتی ہے، جس کا فائدہ سیدھے سیاست دان حضرات اپنی سیاسی بیان بازی سے حاصل کر لیتے ہیں جو ں ہی محترم خواتین و حضرات سے کوئی غلطی سر زد ہوتی ہے تو ان کے سیاسی آقا فوراً اپنی خوبصورت زبان کی جمالیات کا جلوہ دکھا کر بول اٹھتے ہیں کہ یہ’’ موصوف کی سیاسی معصومیت تھی ‘‘لیجئے جناب !اب کیا کیجئے گا اس زبان دانی کا، جو سیاسی معصومیت ٹھہری ،اس کا کیا جب ہمار ی اصلی معصومیت کو زبان کی نوک پر ، جنجر کے وار سے پابند سلاسل کر دیا گیا یا جب ہماری سیدھی سادھی گفتگو کو دراندازی کا لبادہ پہناکر سرکاری کاغذوں میں درج کر کے ہمیں چار دیواری میں مجبور و بے بس کر کے رکھ دیا، تو بہ میری توبہ ایسی زبان دانی سے، جس میں نہ جمال ہی تھا اور نہ جلالی پن تھا بلکہ بات ایسی تھی جس میں کوئی بات ہی نہ تھی : بقول وزیر آغا  ؎
آہستہ بات کر کہ ہوا تیز ہے بہت 
ایسا نہ ہو کہ سارا نگر بولنے لگے 
سقراط نے اپنے قوت برداشت اور صبر کے عناصر کو زیادہ مضبوط اور پختہ بنانے کے لیے اپنے لیے بد مزاج بیوی کا انتخاب کیا، جو بات بات پر نئی کہانیاں بناتی تھی ، سقراط کو برے برے ناموں سے بلاتی رہتی تھی ،لن ترانیاں ، گالی گلوچ اور خلاف شان باتیں کرنا ان کا معمول تھا ،سگھڈپن اور ناشائستہ القاب و آداب سے ہر ایک کو یاد کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔سقراط جان بوجھ کر انہیں لڑائی کے لیے اکساتا رہتا تھا جس کی وجہ سے سقراط کو ایک نئی قوت اور طاقت مل جاتی تھی ۔بقول سقراط ’’اپنی بیوی کی بدمزاجی ،لن ترانی اور ناشائستہ کلام بار بار سن کر میرے قوت برداشت کو اور زیادہ صبر کرنے کا موقع مل جاتا تھا ‘‘۔یہی وجہ ہے کہ سقراط نے رہتی دنیا تک اپنا نام زندہ رکھا جو کہ تلخ حقائق کا بڑی بہادری کے  ساتھ مقابلہ کیا جس کا ہنر واقعی ان کی بیوی کی زبان کی جمالیات میں موجود تھا ۔
زبان کی جمالیات کی بربادی کا منظر نامہ بھی ایک خوبصورت تاریخ رکھتا ہے ،جس کی شروعات غیبت کی غضبناکی سے ہوتی ہے، جب زبان غیبت بیان کرتی ہے تو بیان کرنے والا خود کو جہنم کے لیے رقم کرتا جاتا ہے اور اس عمل کے دوران نئے بہتان بیان کر دیے جاتے ہیں ،جس کا دور دور سے بھی شخص کے کوئی تعلق نہیں ہو تا ہے۔ زبان سے ادا کیے جانے والے الفاظ نیکولیر بم سے بھی زیادہ تیز اثر رکھتے ہیں جس بھی شخص کے لیے یہ الفاظ نکل جاتے ہیں عمر بھر اس کے دل پر تازہ بہ تازہ ان کا اثر رہتا ہے۔ اگر الفاظ سے برائی پیش ہوتی ہے تو ناممکن ہے کہ سننے والے کا دل آپ کے لیے کبھی صاف ہوجائے اور تعریفی کلمات بیان ہوئے تو عمر بھر کے لیے صاحب آپ کی تعریف کرتے ہوئے تھکتا نظر نہ آئے گا۔زبان کے جمالیاتی پیرائے کا ہنر اس بات میں بھی پوشیدہ ہے کہ یہ ان نفیساتی بیماریوں کو بھی جنم دیتی ہے جن سے انسان کی ذات خاک ہوجاتی ہے اور ان کاکردار بھی بدکرداری کی مہر ثبت کر کے جاتا ہے جی ہاں دوستو! بات ان لوگوں کی ہورہی ہے جو خود ستائی میں ماہر ہوں اور خوش آمد کے لددادہ جن کے متعلق سماج اپنا ایک خاص نظریہ قائم کرتا ہے ۔اس نظریے کے عمل دخل میں بھی زبان کا استعمال ہوتا ہے ۔اب یہ کن اقدامات کی جانب نظریہ قائم کرنے والوں کو لے جاتا ہے اس کا فیصلہ آپ کے ہاتھ چھوڑجاتا ہوں کہ کیا یہ زبان کی نئی جمالیات ہوسکتی ہیں یا زبان کا جلالی پن ہوسکتا ہے ۔آپ جو بھی اخذ کریں گے کسی تک بھی نہ پہچائے ورنہ آپ قانون کے مطابق مجرم قرار دیے جائو گے ۔جن افراد کے متعلق یہ خاص نظریہ قائم ہوجاتا ہے واقعی وہ اس نظریے کے قابل لوگ ٹھہرتے ہیں ،جن کی عمریں فنا ہوجاتی ہیں ،بس اک لفظ خوش آمد کو پالتے پالتے۔ حالانکہ وہ اس امر سے شائد کبھی بے خبری کے عالم میں بھی رہتے ہیں یا یوں کہیے کہ بے خبری کے عالم میں رہنا ہی پسند کرتے ہیں مگر حق تو یہ ہے کہ ایسے افراد ایک سماجی بیماری کو جنم دینے میں اہم رول ادا کرتے ہیں ۔اس نوعیت کے افراد جس زبان کا استعمال کرتے ہیں وہ زبان بھی بیمار زبان کہلائی جانی چاہیے کیوں کہ اس کا کوئی فائدہ سماجی بہبود میں نہیں ہوتا ہے بلکہ بجائے تعمیری سوچ کو فروغ بخشنے کے یہ لوگ تخریبی ذہنیت پالتے ہیں، جس کا نقصان عام آدمی کو ہی اُٹھاناپڑتاہے۔ ان مدح خوانوں کا کیا یہ تو بے فکری کے دھویں اڑھاتے چلے جاتے ہیں ،کس کو کیا تکلیف ان کے حرکات و سکنات سے ہوئی، اس کا انہیں نہ ہی اندازہ ہوتا ہے اور نہ ہی احساس ۔ایسے افراد اس احساس سے بہت عاری معلوم ہوتے ہیں جن کے لیے یہ شعر حق بہ جانب ہے : 
اس کی محبت پل دو پل ہے ساگر 
خوش رہنا پھر خوش فہمی میں نہ رہنا 
سماج میں چند افراد اس شوق سے بھی لدھے ہوئے ہوتے ہیں کہ لوگوں کے خیالات چوری کر کے گلی گلی ،نکڑ نکڑ ،کوچہ بہ کوچہ اپنی زبان دانی میں بیان کرتے رہتے ہیں ،خیالات یا اصلی مواد جن کا ہوتا ہے وہ بھی جب اس چور کی زبانی سنتے ہیں تو دھنگ رہ جاتے ہیں کہ میں نے تو ایسا دور دور تک بھی اس تعلق سے نہ سوچا تھا جیسا یہ چور چوری کا مال مفت میں بیان کر کے اس کو مجروح کر رہا ہے ۔ زبان کی جمالیات کا حسین اور اصلی رنگ تو محترالمقام ہماری واجب الاحترام خواتین کے یہاں ملتا ہے، وہ جس صورت میں چاہے زبان کی جمالیات کا رخ موڑ سکتے ہیں اور اس رخ موڑنے کے عمل کے دوران ہزاروں لوگ مرگ انبوا کا منظر قائم کر سکتے ہیں ، ریاستیں آناً فاناًیوٹی میں تبدیل کر دی جاسکتی ہیں ،معمولی کھینچی گئی لکیریں سرحدیں بن سکتی ہیں ، گہری دوستیاں لمحوں میں دشمنیوں میں تبدیل ہوتی ہیں ،حضرت واعظ جو عمر پیری میں بڑے اجتماعوں سے محراب پر خطاب کرتے ہیں، کی جوانی کی تفسیری شرح اور اس کی ذات کا آئینہ بھی اس محفل میں دیکھا جاسکتا ہے ۔یہ محض ایک محفل نہیں رہتی بلکہ ایک تاریخی دستاویز یا ڈاکومینڑی کی صورت اختیار کر جاتی ہے کہ یہا ں کوئی بندہ خدا پوشیدہ نہیں رہ سکتا ہے بلکہ زبان کی جمالیاتی لہروں سے سمند ر بھی ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظر آتا ہے، یہ اس محفل کا حسن زن ہے جہاں سب کو الف ننگا دیکھا جاسکتا ہے ۔ 
عام زندگی کے رواں اصولوں میں زبان و بیان کے بہترین نمونے دیکھے جاسکتے ہیں یا دیکھنے کے لائق اس وقت ٹھہرتے ہیں، جب دو لوگ آپس میں جگڑ لیتے ہیں تو دونوں کے شریانوں کے اندر خون کی گردش کا عالم ہی نرالا ہو تا ہے، جس میں physical fitnessکا سنہرا موقع ہاتھ لگتا ہے ۔دونوں افراد کے ہاتھ گردش میں ،چہروں پر معمولی سی سرخی مائل روشنی جاگ اٹھتی ہے ،دل زوروں سے دھڑکنے لگتے ہیں ،ضرورت پڑی تو پائوں سے ٹانگ تک کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔اگر دونوں میں سے کسی ایک کے سر پر بال موجود ہے تو کھینچے جاسکتے ہیں ،گردن سے کہلوںتک کے تمام اجزاء کی بھی خبر لی جاسکتی ہیں لیکن اس تمام تر آپسی گردش کے بعد زبان کی گردش شروع ہوجاتی ہے اور نئی نئی تراکیب ایجاد کی جاتی ہیں جو گینز بک آف ورلڈ میں جگہ پاسکتی ہے مگر انسان کی ذات کا بھی کوئی جواب نہیں ،جو نہی معرکہ آرائی ختم ہوئی تو زبان سے ادا کیے گئے تمام لفظوں کا جمالیاتی جائزہ لیا جاتا ہے یہاں تک کہ دونوں اشخاص ’’ اگر ممکن ہوا ‘‘ ایک دوسرے سے معافی کے طلبگار بن جاتے ہیں لیکن کئی صورتوں میں معافی کے بجائے تھانے میں رپٹ لکھوائی جاتی ہے کیس کی اگر نوعیت سنگین نکلی تو کورٹ کچہری بھی دور نہیںہے ،وہاں پر یہ کیس وکلا ء صاحبان کے ہاتھوں میں آجاتا ہے اور یہاں پر زبان کی جمالیات کا قانونی برتائو دیکھا جاسکتا ہے ،جس میں مدحی ، مدحی الیہ اور گواہوں کے علاوہ وکلا ء کے ساتھ ساتھ قانون کے ماہرین جج صاحبان بھی اس کھیل کے کھلاڑی بن جاتے ہیں ،غرض زبان کی جمالیات کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ بلکہ ہر نئے موڑ پر نئی تراکیب کا ایجاد کیا جانا انسانی تہذیب اور سماجی سروکار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس ضرورت کے مطابق زبان کی جمالیات کا روز بہ رو ز ترقی کرنا اہم اور ضروری ہے ۔