حالیہ عرصے میں سعودی سماج ایک بڑی سماجی برائی کے نرغے میں آتا چلا جارہا ہے ،جس کے منفی اثرات نہ صرف سماجی بلکہ دینی بھی ہیں۔ یہ حالات وہاں مسیار نامی شادی کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے پیدا ہورہے ہیں۔بیشترعرب ممالک میں مسیار یا زواج المسیار کو قانونی طور پر جائز مانا جاتا ہے لیکن دوسری جانب اس کی غیر اخلاقی بنیادوں کی وجہ سے سے ناگواری سے بھی دیکھا جاتا ہے جبکہ شرعی طور پر اس کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔اس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے نکاح یا شادی کا تذکرہ نہ تو قرآن مجیداور نہ ہی احادیث میں سامنے آتا ہے، جس کی بنا پر اسے غیر اسلامی قرار دیا جاسکتا ہے، ساتھ ہی وہ اس کا موازنہ شعائی متعہ شادی سے کرتے ہیںجوکہ امامیہ شیعہ فرقے میں رائج ہے اور جسے سنی مسلمان غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔
زواج المسیارکیا ہے؟دراصل مسیار ایک بالغ مرد اور عورت کے درمیان نکاح کا ایک معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کے مطابق عورت اپنے زیادہ تر حقوق،جو کہ ایک اسلامی شادی کے بنیادی شرائط ہیں، معاف کردیتی ہے۔ جیسے کہ شادی کے بعد میاںبیوی ساتھ ساتھ نہیں رہیں گے، بیوی اپنے گھر میں اور شوہر اپنے گھر میں رہے گا۔ تاہم دونوں کے درمیان دن میں ملاقات کے لیے ایک وقت طے کردیا جاتا ہے، جس کے مطابق شوہر، بیوی کے گھر میں اس کے ساتھ وہ متعین وقت گزار سکتا ہے۔ اس کے علاوہ شوہر پر بیوی کے ذاتی خرچ (نفقہ) کی کوئی شرط عائد نہیں ہوتی ہے اورنہ ہی بیوی شوہر کی جائداد میں وارث ہوتی ہے۔منکوحہ جوڑے شادی کے بعد بھی اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہیں جیسے کہ وہ شادی سے پہلے رہتے تھے۔ لیکن اب وہ اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے ایک دوسرے سے مقررہ وقت میں مل سکتے ہیں جسے سماجی اور دینی دونوں اعتبار سے قبول کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض مسیار معاہدوں میں شادی کی مدت طے پائی جاتی ہے یعنی کہ یہ واضح کردیا جاتا ہے کہ دونوں فریق ایک دو مہینوں یا سال کے لیے ایک دوسرے کے منکوحہ رہیں گے اور اس کے بعد یہ معاہدہ ختم ہوجائے گا اور دونوں اپنی زندگی الگ الگ جئیں گے۔ ایک تجزیہ کے مطابق زیادہ تر مسیار نکاح ایک سے چھ ماہ کے دوران طلاق کا شکار ہوجاتے ہیں۔
سعودی حکومت اور سماج دونوں ہی اس مبینہ غیر اسلامی اور سماج مخالف شادی کے خلاف نظر آتے ہیں، لیکن ابھی تک اس کے خلاف کوئی مؤثر یا جامع حکمت عملی نہیں اپنائی گئی ہے جس سے کہ اس غیر اسلامی فعل کو ختم کیا جاسکے۔ الوطن اخبار نے 2018میں جسٹس منسٹری کے ذرائع کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق ملک میں مسیار شادیوں کی تعداد میں کافی زیادہ اضافہ ہوا ہے تاہم رپورٹ کے مطابق یہ شادیاں زیادہ کامیاب نہیں ہوتی ہیں اور 14سے 60دنوں کے اندر ہی ختم ہوجاتی ہیں۔دراصل سعودی عرب میں فقہ حنبلی رائج ہے اور اس کے مطابق اس نکاحِ مسیار کو جائز اور اسلامی شادی مانا جاتا ہے۔
سماجی کارکنوں کے بقول مسیار شادیوں کی تعداد شوہر کی جانب سے مہر میں دی جانے والی رقم میں اضافے کے علاوہ دیگر مطالبات جیسے کہ الگ مکان، گاڑی اور سونے کے زیورات دلہن اور اس کے اہلِ خانہ کو دیے جانے کے لیے ہر نوجوان اہل نہیں ہوتا ہے اور اس لیے زیادہ تر نوجوان اپنی جسمانی تسکین کے لیے مسیار کا سہارا لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کارکنوں کا ماننا ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے عرصے میں سعودی حکومت نے غیر سعودی ملازمین پر جو شرائط نافذ کی ہیں اس کے مطابق زیادہ تر غیر ملکی افراد کو اپنے بیوی بچوں کو واپس اپنے وطن بھیجنے پر مجبور ہونا پڑا ہے اور ایسے افراد بھی اب مسیار کا سہارالینے لگے ہیں۔
یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مسیار کے بے جا اور ناجائز استعمال کی ایک بڑی وجہ معاشی اور سماجی بھی ہے۔ نیز عرب صحافی طارق المعاینہ نے 2019میں سعودی گزٹ کے لیے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ مسیار آپ کو بغیر کسی ذمہ داری کے فحاشی کی اجازت دیتا ہے اور مستقبل میں پیدا ہونے والے حالات یا یوں کہہ لیجیے کہ اس کے ذریعہ پیدا ہونے والی اولاد کے حقوق کے بارے میں سوچنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔
مسیار اور شرعیہ:اگر آپ کسی فقیہ سے مسیار کی شروعات کب ہوئی اور اس کی اسلامی بنیادیں کیا ہیں کے ضمن میں دریافت کریں تو مکمل خاموشی پائیں گے، کیونکہ مسیار کا ذکر نا تو قرآن مجید اور احادیث دونوں میں موجود نہیں ہے جبکہ شادی اور اس سے متعلق شرائط و ضوابط یہاں تک کے طلاق کے تعلق سے بھی قرآن مجید سے تفصیلی جانکاری حاصل ہوتی ہے۔دراصل بڑے پیمانے پر اس مبینہ غیر اسلامی فعل کی ترویج 1996میں سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز کے مسیار کے حق میں دیے جانے والے فتوے کے بعد شروع ہوئی تھی جو کہ انہوں نے فقہ حنبلی کے مطابق دیا تھا۔ تاہم کسی نے بھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کہ شیخ باز کے اس فتوے کے پس پردہ کیا وجوہات تھیں یا کن بنیادوں پر انہوںنے یہ فتویٰ دیا تھا۔اس کے بعد متعدد فقہاء نے مسیار کے حق میں فتوے دے ڈالے۔شیخ العثمان نے مسیار کے قانونی اور سماجی یا اخلاقی پہلوؤں پر تفریق کی لیکن انہوں نے بھی اسے شریعہ کہ مطابق قرار دیا۔ شیخ العثمان اورقرضاوی کے بقول مسیار قانونی طور پر ایک جائز شادی ہے۔تاہم انہوں نے بھی عورت کی جانب سے اپنے حقوق کی دست برداری کے ضمن میں کوئی تسلی بْخش جواز پیش نہیں کیا ہے۔
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ ہندوستان کے زیادہ تر فقہا نکاحِ مسیار کو ایک جائز شادی قرار نہیں دیتے ہیں اور اسے غیر اسلامی فعل مانتے ہیں۔ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ اس سماجی برائی کو ختم کرنے کے لیے سعودی حکومت کو سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
خود سعودی حکومت بھی اس سماجی برائی کے بڑھتے ہوئے اثر سے آگاہ اور پریشان ہے۔ کنگ سعود یونیورسٹی کی طالبہ مادا بن عبدالریحان القریشی نے یونیورسٹی کے لیے مرتب کی گئی اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں جو وجوہات پیش کی ہیں ،ان کے مطابق مسیار کے بڑھتے ہوئے رجحان کی اصل وجوہات سماجی ہیں۔ اول تو آج زیادہ تر عورتیں کسی بھی مرد کی دوسری بیوی بننے کے لیے تیا رنہیں ہیں۔ دوم ان کی اور ان کے خاندان والوں کی جانب سے مہر کی رقم میں غیرضروری اضافے کی وجہ سے زیادہ تر سعودی نوجوان اتنی خطیر رقم خرچ کرنے کے اہل نہیں ہوتے، نتیجتاً مرد اور عورتوں دونوں کی عمر بغیر شادی کے بڑھتی چلی جاتی ہیں اور آخر میں وہ اپنی جسمانی تسکین کے لیے مسیار کا سہارا لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔مجموعی طور پر ہمارے زیادہ ترفقہا اور اکابرین کی رائے یہی ہے کہ مسیار شرعاً ناجائز ہے ، لیکن ایک کم عقل مسلمان ہونے کے ناطے میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا ہم کسی ایسی چیز کو اپنے مذہب کا حصہ بنانا گوارا کرسکتے ہیں جو کہ بنیادی طور پر سماجی برائی اور عورتوں کے حقوق کی پامالی ہے؟ تاہم چند ایسے روشن خیال افراد بھی ہیں جو اس مسئلے کو سماجی، معاشی اور مذہبی تمام اصولوں پر تولنے کے بعد یہ کہنے میں نہیں ہچکچاتے کہ یہ ایک غلط فعل ہے۔ دارالعلوم، وقف دیوبند کے مفتی امانت علی قاسمی کے بقول نکاحِ مسیار کو قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کی بنا پر ہم مسیار کی قانونی طور پر ایک جائز اسلامی شادی قرار نہیں دے سکتے۔ ان کا مزیدکہنا ہے کہ ایک فقہی اور عالم کی ذمے داری ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے کو اس کے بنیادی سماجی اور روایتی پہلوں اور سماج پر ہونے والے اس کے منفی اثرات کی روشنی میں بھی اس کا تجزیہ کرے اور اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرے، ہمیں فرسودہ قانونی داؤ پیچوں کے بیچ پھسنے سے گریز کرنا چاہیے اور شریعت کی رو کا اطلاق پوری طرح کرنا چاہیے۔
آخر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ جب تک سعودی حکومت اس مسئلے پر فقہا اتفاقِ رائے قائم کرنے سے قاصر رہتی ہے تب تک کسی حکومتی قانون کے ذریعہ ہی اس سماجی برائی پر لگام کسی جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں ہم سعود ولی عہد پرنس محمد بن سلمان سے امید کرسکتے ہیں کہ جس طرح انھوںنے حالیہ عرصے میں سعودی عرب میں خواتین کو آزادی اور دیگر حقوق دینے کی پہل کی ہے اسی طرح وہ اپنی جانب سے کوئی مؤثر اقدام لے کر اس سماجی برائی کو سعودی سماج سے ختم کرنے کے لیے کوشاں ہوں گے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asad-mirza.blogspot.com