آج کل پوری دنیاکا حال بے حال ہے ا ور ہر مرد و زن بے چین زندگی گذار رہا ہے؟ دنای کو چھوڑیئے ، آپ اپنی بستی میں تھوڑی سی چہل قدمی کیجئے تو آٹھ دس میڈیکل شاپوں،ڈائیگناسٹک سنٹروں ، بہاری مزدوروں، پنجابی تُرکھانوں سے ضرور آنکھیں چار ہوں گی ۔ ماضی میں اس کے برعکس بازاروں اورمحلوں میں صرف کشمیری درزی، نانوائی، سبزی فروش ، گوالے، قصائی، پنساری ، لوہار، پنبہ والے، (پُیہ ووُن) یا طلائی گر (تِل دوز) اوردیگر کشمیری ہنر مند کار یگر کی دکانیں ملاکرتی تھیں۔ اُن ایام میں ہر طرف خوش حالی ہی خوش حالی تھی ،آج کل یہ سب غائب ہیں اور ہر زبان پر ایک ہی جملہ ہوتاہے: میں بیمار ہوں؟ حقیقت یہ ہے کہ صحت خدا کی عظیم نعمت اور تحفہ ہے۔ اس عظیم امانت کی قدر اور حفاظت میں کبھی لا پرواہی نہ برتئے۔ ایک بار صحت بگڑ گئی تو زندگی میں مشکلات ڈیراڈالتے ہیں۔ صحت کے معاملے میں کو تا ہی کرنا بے حسی بھی ہے اور خدا کی نا شکری بھی۔ انسانی زندگی کا اصل جو ہر ایمان، اخلاق اور عقل و شعور ہے اور عقل و اخلاق اور ایمان و شعور کی صحت کا دارو مدار بھی بڑی حد تک جسمانی صحت پر ہے۔ کمزور اوربیمار ولاغر جسم میں عقل و دماغ بھی کم کمزور ہی ہوتے ہیں۔ ایسی کمزوری سے زندگی اُ منگوں، ولولوں اور حوصلوں سے محروم ہو جاتی ہے ۔ جب کسی کے ارادے اور جذبات سرد اور مضمحل پڑیں تو ایسی بے رونق زندگی وبال ِجان بن جاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ جسم میں جان ہو ، قلب میں نیک ارادے ہوں، حوصلوں میں بلندی ہو ، جگر میں ولولے، اُمنگیں اور عمدہ جذبات ہوں۔ اس کے لئے لازمی ہے کہ ہمیشہ خوش و خرم، ہشاش بشاش اور چاق و چو بند رہئے۔ خوش باشی، خوش اخلاقی ، مسکراہٹیں اور زندہ دلی سے آراستگی دراصل زند گی کی منہ بولتی علامات ہیں ۔ غم، غصہ، رنج و فکر، حسد، جلن، بد خواہی، تنگ نظری، مردہ دلی اور دماغی اُلجھنیںزندگی کو اجیرن بناتی ہیں ۔ یہ وہ موذی بیماریاں ہیں جوصحت کی بد ترین دشمن ہیں۔ لازم ہے کہ اپنے جسم پر برداشت سے زیادہ بو جھ ڈالیں، نہ جسمانی وذہنی قوتوں کو ضائع کیجئے ۔ ان انعامی قوتوں کا حق یہ ہے کہ ان کی حفاظت کی جائے ، ان سے عدل کے ساتھ کام لیا جائے۔ صحت مند زندگی شاہانہ عیش وآرام اور سہل انگاری کی متقاضی نہیں بلکہ محنت و مشقت کی طلب گار ہے، اس لئے گھر کا کام کاج اپنے ہاتھ سے کریں، چلنے پھر نے اور تکالیف برداشت کرنے کی عادت ڈالیں، آرام طلبی، سستی اور عیش کوشی سے پر ہیز کریں ۔ان چیزوں سے آپ ایک بھر پور مردانہ زندگی جی سکتے ہیں ۔ اسلام کی نظر میں پسندیدہ خاتون وہی ہے جو گھر کے کام کاج میں ہمہ تن مصروف رہتی ہو ، شب وروز اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو ہنستے مسکراتے اداکرتی ہو ، اس کے چہرے بشرے سے محنت کی تکان بھی جھلکے اورباور چی خانے کے دھوئیں کا ملگجاپن بھی۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : سیدھے سادھے رہو، میانہ روی اختیار کرو اور ہشاش بشاش رہو۔ اگریہ اصول ہم اپنائیں تو نہ قدم قدم پرمیڈیکل شاپوں کی ضرورت رہے گی اور نہ غیر ریاستی مزدوروں اور کاریگروں کی حاجت۔ آخر پر یہ دعائے رسولؐ:خدایا !میں اپنے کو تیری پناہ میں دیتا ہوں، پر یشانی سے ،غم سے ،بے چار گی سے،سستی اور کاہلی سے ،قرض کے بوجھ سے اور اس بات سے کہ لوگ مجھ کو دبا کر رکھیں۔ (بخاری و مسلم) ۔
رابطہ : 9469679449
E-mail:[email protected]