کرہ حجر یا لیتھوسفیرک پلیٹ کے نیچے موجود ایک دوسرے کرہ پر تیر رہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح کے برف یا ’’آئس برگ‘‘ کے کئی کئی ٹن کے تودے سمندرمیں تیرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اس کی وجہ پانی کے مقابلے میں برف کی کم کثافت ہے بالکل یہی اصول یہاں پر بھی کارفرما ہے۔ کرہ حجر کے نیچے جو کرہ موجود ہے ،اس کی کثافت بلند ہے یہی وجہ ہے کہ کرہ حجر نیچے جانے کے بجائے ۔اس کے اوپر تیر رہا ہے۔ دوسری مثال براعظم اینٹارکٹیکا ہے جو برف کا براعظم ہے۔ اس کے 100 فیٹ نیچے پانی موجود ہے لیکن کثافت کے اصول کے تحت برف کا براعظم دھنس نہیں رہا ہے بلکہ پانی پر تیر رہا ہے یہ، کرہ زمین کے اندر کرہ حجر کے نیچے 350کلومیٹرکی گہرائی میں موجود ہے جہاں پر بلند تپش کی وجہ سے چٹانی جسم بلاسٹک خصوصیت (ٹافی یا ڈامر) کے حامل ہوتے ہیں۔ زمین کا یہ کرہ ’’ایتھینوسفیر‘‘ یا کرہ سیال (Asthenosphere) کہلاتا ہے ۔
لیتھوسفیر کا زیرین حصہ اور ایتھینوسفیر کا بالائی حصہ ایک دوسرے سے الگ خصوصیت کےساتھ منسلک ہے۔ اندرون زمین کروں کی یہ حدبندی ’’موہو غیر مطابقت‘‘ (Moho-unconfironity) کہلاتی ہے۔ اس کے ٹھیک نیچے ایتھنوسفیر کا زون موجود ہے جہاں ٹھوس کرہ حجر کا دوبارہ پگھلائو ہوتا رہتا ہے ،کیوںکہ یہاں پر درجۂ حرارت بہت زیادہ ہوتا ہے اس وجہ سے لیتھوسفیر کا وہ حصہ جوا س زون سے ٹکراتا ہے وہ پگھل کر رقیق (میگما) میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔یہ رقیق ارضی سیال (Geofluids) کہلاتا ہے ،جو سطح زمین پر آکر ٹھوس ہوجاتا ہے۔
جدید ارضی علم ’’زلزلیات‘‘ کے ماہرین ’’ارضی طبیعیات‘‘ کے حوالے سے یہ میکنزم اس طرح ہوتا ہے کہ جب دو لیتھوسفیر پلیٹ حرکت کرتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیں تو ان کے درمیان تصادم ہوتا ہے اور ساتھ ہی کم کثیف پلیٹ بلند کثافت والی پلیٹ کے نیچے چلی جاتی ہے اور آخر کار حرکت ہوئی اور نیچے جاتی ہوئی پلیٹ وہ حصہ جو ایتھینوسفیر سے جاملتا ہے پگھل کر مائع میں تبدیل ہوکر زبردست قوت کے تحت سطح زمین پر اُبل پڑتا ہے اور زمین کی مسلسل تشکیل نو کے ساتھ زلزلے، آتش فشاں اور گراں قدر معاونی ذخائر کو زمین کے اندر سے سطح زمین جمع کرتی رہتی ہیں۔
مثلاً سمندری زلزلہ (یعنی سونامی2004) اور فلپائن میں موجود 7000 جزیرے اسی قسم کے زمین کے اندر پیدا ہونے والی حرکات ظاہر کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں جزیرہ ’’سپرس‘‘ میں موجود کاپر سلفائیڈ کچ دھات، جنوبی امریکا کے پہاڑی سلسلوں میں ٹن اور تانبہ کے ذخائر زیگراس کے پہاڑی سلسلہ (عراق، پاکستان، ایران) میں موجود کئی گراں قدر معاون کا اندرون زمین سے مسلح زمین پر آکر منجمد اور ٹھوس ہوگئی ہیں، پھر یہ کہ کرہ سیال یعنی ’ایتھینوسفیر‘‘ کے نیچے 350 کلومیٹر سے 2883 کلومیٹر گہرائی کے درمیان موجود چٹانی کرہ میسوزاسفیر کہلاتا ہے۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ’’کرہ سیال‘‘ کے اوپر موجود کرہ (ایتھنوسفیر) شدید تپش کی وجہ سے کمزور اور شکستہ خصوصیت کا حامل ہوتا ہے جب کہ اس کے نیچے موجود میسوزاسفیر کی یہ کیفیت نہیں ہوتی۔ یہ اپنے اوپر موجود نیم پگھلی ہوئی ’’ایتھینوسفیر‘‘ کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور سخت ہوتا ہے حالاں کہ اس کے اطراف حرارت کی مقدار اوپر سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے زمین کا یہ کرہ گرم آگ کے گولے کی طرح ٹھوس حالت میں ہوتا ہے اور اوپر موجود کروں کے پلیٹوں کی حرکات کے دوران تپشی توانائی مہیا کرتا ہے، جس کی وجہ سےزلزلے، آتش فشاں اور آتش فشانی پہاڑیسلسلے وجود میں آتے ہیں ،جس کے ساتھ ہی زمین کے اندر سے بے شمار کیمیائی مرکب چٹانی کروں کی شکل میں مرکوز ہوجاتے ہیں۔
اس بنیادپر کیمیائی کروں (تہوں) کے تین مراحل سامنے آتے ہیں۔ پہلے مرحلہ میں زمین کا بیرونی حصہ ہے ،جس پہ ہم رہتے ہیں اور اپنی زراعت وتعمیرات کو فروغ دیتے ہیں’’اسے زمین کی کھال‘‘ یعنی قشرارض‘‘ کہتے ہیں۔ زمین کے اس حصے کی موٹائی براعظم میں35تا40کلو میٹراوربحراعظم میں 5کلو میٹر کی گئی ہے لیکن اس حقیقت کو عالمی پیمانے پر(جدید زلزلیاتی لہروں کے اطلاق کے بعد) تسلیم کیا گیا ہے کہ قشرارض کی مجموعی گہرائی 35 کلومیٹر ہے ،جس میں سے30کلو میٹر کا بالائی حصہ کم کثافت کے حامل کیمیائی مرکبات ( سیلکان ڈائی آکسائیڈ، پوٹا شیم اورسوڈیم) پر مشتمل ہوتا ہے۔
مجموعی طور پر براعظم چٹان گرینائیٹ کہاجاتا ہے جب کہ 5کلو میٹر سمندری فرش مختلف قسم کی بھاری کثافت والی چٹانوں پر مشتمل ہوتا ہے جسے اوفی لائیٹ (Ophiolite)کہاجاتا ہے۔ جدید ارضی علوم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ’’ اوفی لائیٹ‘‘ جہاں کہیں بھی موجود ہوتا ہے وہ اس سائنسی حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ زبردست قوت کی وجہ سے قدیم سمندری فرش کا ٹکڑا سطح زمین پر آگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمالیہ کی چوٹی پر ایسی انواع اور چٹانی ٹکڑے حاصل ہوئے ہیں جن کی بودوباش اور تخلیق سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ سمندر کی گہرائی اور سمندری فرش کا حصہ تھے جواب کئی ہزار فٹ کی بلندی پر دستیاب ہیں۔جب کہ دوسرے مرحلے میں زمین کا وہ کرہ دستیاب ہوا ہے جسے’’ مینٹل‘‘(mantle)زمین کی یہ اندورنی چٹانی کرہ قشرکے نیچے صفر سے2900کلو میٹر یا35سے2865
کلومیٹر کی گہرائی تک موجود ہے ۔ان دونوں تہہ یعنی کرسٹ اور مینٹل کے درمیان کرہ ہوئی (mohosphere)ہے جوان دونوں کروں کے درمیان حجریاتی (Petrological)فرق کو ظاہر کرتا ہے اور ساتھ ہی پورے ’’ مینٹل‘‘ کو بالائی اور زیریں ’’مینٹل‘‘ میں تقسیم کرتا ہے۔بالائی مینٹل‘‘35سے1000کلو میٹر اور زیریں مینٹل1000سے2900کلو میٹر کی گہرائی تک ایسی چٹائی اجزا پر مشتمل پایا گیا ہے جو میگنشیم اور لوہا کا ایک گراں قدر آمیزہ ہے، جس نے پوری اندورنی کروّں کو اپنے احاطہ میں لے رکھا ہے۔یہاں پردائرلی حرارتی چکر کے بہاؤکا عمل بھی ہوتا رہتا ہے جو دراصل وہ خارج شدہ حرکی توانائی ہے جو’’ میسو اسفیر‘‘ میں موجود تابکار عناصر کی حرارت کے اخراج کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ،جس کی وجہ سے موجود’’ اسفیر‘‘ میں جنبش پیدا کرتی ہے جوزلزے اور دوسری زمینی حرکات کا باعث بنتی ہیں۔
اس کرہ یعنی’’مینٹل‘‘ کے نیچے 2900کلو میٹر گہرائی سے6370کلومیٹر گہرائی تک ایک اور کرہ موجود ہے جسے کرہ ثقیلہ یا کرہ قلب(Core)کہتے ہیں۔یہ حصہ بالائی قلب(upper Core)اور زیریں قلب (lower core)پر مشتمل ہوتا ہے۔ بالائی قلب مائع حالت میں جبکہ زیریں قلب ٹھوس حالت میں موجود ہے ۔حالاںکہ یہاں پر درجۂ حرارت آٹھ ہزار ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ یہ درجہ ٔحرارت سورج کی سطح کے درجۂ حرارت سے کم ہے لیکن زیادہ کم نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر زمین بالائی کروں کا بے پناہ بوجھ پڑرہا ہے جو اسے ٹھوس حالت میں قائم رکھے ہوئے ہے لیکن ایسا ٹھوس نہیں جیسی چٹانیں ہوتی ہے بلکہ گرم سرخ لوہے کی طرح ٹھوس۔ دونوں صورتوں میں یہ اجزا ترکیبی کی مناسبت سے لوہا اور نکل کا آمیزہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر بلند کثافت کے معادنی سالمات بھی موجودہوتے ہیں۔
چناں چہ زمین کے اندر کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ زمین کے اندر موجود کروں نے ہماری زمین کو ایک متوازن اکائی بخشی ہے، جس نے عظیم پہاڑی سلسلوں کو بلند وبالا کردیا ہے ،کیوںکہ بنیادی طور پر ان میں کم کثافت کی حامل چٹانی ومعدنی اجزا شامل ہوتی ہیں۔ جب کہ سمندر کو طاس (نشیب) بنادیا ہے ،کیوںکہ سمندری فرش میں بھاری کثافت والے اجزا موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح سمندر اور عظیم پہاڑی سلسلوں کے درمیان ایک قدرتی توازن برقرار ہے جسے ’’ آئسوسٹی(lsostasy) صرف یہی نہیں بلکہ زمین پر موجود گراں قدر معدنی ذخائر مثلاً ہائیڈروکاربن کی دریافت کا براہ راست تعلق بھی زمین کی اندورنی کروں سے ہے۔
مثلاً جب ‘‘لیتھو سفیر‘‘ پلیٹ حرکت کرتی ہیں(کرسٹ کا زیریں حصہ اور مینٹل کا بالائی حصہ) تو وہ نیچے موجود’’ ایتمنوسفیر‘‘ میں داخل ہوکر دوبارہ پگھل جاتی ہیں پھر یہ پگھلا ہوا چٹائی محلول زمین کی اندورنی ساخت سے باہر نکل کر بے شمار قدرتی معدنی ذخائر کی تخلیق کرتا ہے۔ اسی دوران زمین کے اندورنی حصوں میں حرکات اور پگھلاؤ کے عمل سے حرارت کی مناسب مقدار پیدا ہوتی ہیں جوزمین کے اندر کی ساخت میں موجود’‘تہہ دارچٹان‘‘(layered Rocks)مخصوص حصوں میں موجود نامیاتی موادکے لئے ہلکے آنچ کاکام سرانجام دیتی ہے یہ وہی قدرتی عمل ہے، جس سے دنیا کی بڑی بڑی تیل وگیس کی فیلڈ موجود حالت میں دریافت ہوئی ہیں ،جس میں’’ زلزلیاتی ‘‘ معلومات کو بڑی فوقیت حاصل ہورہی ہے۔