�حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا:
آپ رضی اللہ عنہا کا اصل نام برؔکہ تھا۔باپ کا نام ثعلبہ بن عمرو تھا۔بعض روایات میں ہے کہ آپ کا وطن مالوف حبشہ تھا۔کنیت اُم ایمن رضی اللہ عنہا مشہور تھی۔ حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ کی کنیز تھیں اور بچپن سے ان کے پاس ہی رہتی تھیں۔
جب حضرت عبداللہ انتقال کر گئے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہنے لگیں۔ جب وہ بھی فوت ہو گئیں تو حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنے لگیں۔پہلا نکاح عبید بن زید سے ہوامگر جب وہ انتقال کر گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح کر دیا ۔
حضرت زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ شادی ہوتے ہی آپ نے بھی اسلام قبول کر لیا۔حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا نے بھی دوسرے ستم رسیدہ مسلمانوں کے ساتھ حبشہ کہ طرف ہجرت کی اور وہاں سے مدینہ منورہ تشریف لائیں۔مختلف روایات میں ہے کہ آپؓ نے جنگ احد اور جنگ خیبر میں شرکت فرمائی تھی۔زخمیوں کو پانی پلانے اور مرہم پٹی کرنے کا کام آپ کے ذمہ تھا۔جب 11ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال فرمایا تو اس وقت زندہ تھیں اور زاروقطار رو رہی تھیں۔
غم داند وہ کی وجہ سے ان کا برا حال ہو رہا تھا۔جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بہتر جگہ ہے۔ اس وقت حضرت اُم ایمن نے انہیں جواب میں جو کچھ فرمایا وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہےاور ہماری خواتین کے لئے دعوت فکر ہے کہ وہ اس زریں دور کی خواتین کے بے مثل کردار پر غور کریں اور اپنے دلوں کو ٹٹول کر دیکھیں کہ انہیں کس چیز سے والہانہ عشق تھا اور ان کے سوچنے کا انداز کیا تھا اور آج کے دور میں ہماری عورتوں کی دلچسپیوں کے مرکز کہاں ہیں۔
حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا نے فوراً جواب دیا۔
”مجھے یہ خوب معلوم ہے اور میرے رونے کا یہ سبب نہیں(جو آپ سمجھتے ہیں)بلکہ میں تو اس لئے رو رہی ہوں کہ اب وحی کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا۔“
یعنی ہدایت ومعرفت کا وہ آفتاب عالم تاب غروب ہو گیا ہے جس کی ضیاء باری سے کائنات عالم کا ہر زرہ رشک قمر بنا ہوا تھا۔اور ضلالت وگمراہی کے اندھیرے میں ٹھوکریں کھانے والی انسانی مخلوق کو اس کے مبدائے فیض سے نئی زندگی مل رہی تھی ۔
اس کے بعد جب 23ھ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش فرمایا تو اس حادثہ پر بھی زاروقطار روئیں۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ اب کیوں روتی ہو فرمایا:اس لئے کہ اسلام کمزور ہو گیا۔اللہ اللہ!یہ ان بلند مرتبہ خواتین کی اللہ اور اس کے دین کے ساتھ محبت اور شیفتگی کا عالم تھا۔وہ ذاتی تعلقات ومراسم اور دنیوی فوائد واغراض سے کتنا بلند ہو کر سوچتی تھیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُم ایمن رضی اللہ عنہا کی بے پناہ عزت کرتے تھے اور کئی دفعہ فرمایا:اُم ایمن رضی اللہ عنہا میری ماں ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں وفات پائی۔
ایک طرف ان بزرگ خواتین کی پاک زندگیوں کو رکھیے اور دوسری طرف عمر رسیدہ خواتین کو دیکھیے کہ زندگی جتنی کم ہوتی جاتی ہے دنیا ،مال، اولاد کے ساتھ ان کی محبت اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے انہیں غم ہوتاہے تو گھر میں اپنا عمل دخل کم ہونے کا اور افسوس ہوتاہے تو بہو کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کا۔
اگر کچھ یاد آتا ہے تو بیتے ہوئے خوشگوار لمحات جب وہ اپنے گھر میں بلا شرکت غیر سے حکومت کرتی تھیں ۔کتنے مبارک اور سعید ہیں وہ گھرانے جن میں آج بھی اُم ایمن رضی اللہ عنہا کی سیرت کا چراغ روشن ہے اور جہاں بزرگی کے نورانی لباس میں ہدایت ومحبت کی شمعیں جل رہی ہیں۔
�حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا:
تاریخ میں ام حکیم رضی اللہ عنہا کے نام سے مشہور ہیں ۔باپ کا نام حارث بن ہشام تھا اور والدہ فاطمہ بنت الولید تھیں۔ حضرت خالد بن ولید ان کے حقیقی ماموں تھے ابو جہل کے بیٹے عکرمہ سے شادی ہوئی تھی۔شروع میں اسلام کی سخت دشمن تھیں کیونکہ اسلام دشمنی ان کے گھر کا سب سے بڑا امتیاز بن چکی تھی۔ غزوہ احد میں کفار کے ساتھ شریک تھیں۔
8ھ میں فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا مگر ان کے شوہر عکرمہ بن ابی جہل خوف کی وجہ سے یمن کی طرف فرار ہو گئے ۔حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا نے خود بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر اپنے شوہر کے لئے امان کی درخواست پیش کی ۔رحم اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم تو پہلے ہی تمام دشمنوں کے لئے معافی کا اعلان کر چکے تھے ام حکیم کی خواہش پر عکرمہ کو بھی امان مل گئی۔
چنانچہ ام حکیم رضی اللہ عنہا نے خود یمن کا قصد کیا اور عکرمہ کو ساتھ لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عکرمہ کو دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑے ۔عکرمہ نے خلوص نیت سے اسلام قبول کیا۔
اس کے بعد حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دامن سے اسلام دشمنی کا داغ مٹانے اور گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی غرض سے تمام غزوات میں جوش وخروش کے ساتھ حصہ لیا اور ہر موقع پر بہادری اور شجاعت کا قابل تعریف ثبوت دیا۔
جب خلیفہ اول حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رومیوں سے جنگ چھڑ گئی تو حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ ام حکیم رضی اللہ عنہ کے ساتھ لشکر اسلامی میں شامل ہو گئے ۔اور اجنادین کے معرکہ میں جام شہادت نوش فرمایا۔ حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا نے عدت پوری کرنے کے بعد خالد بن سعید بن العاص سے نکاح کر لیا۔آپ کا دوسرا نکاح دمشق کے قریب ہوا تھا جہاں ہر وقت رومیوں کے حملے کا خطرہ لاحق رہتا تھا۔
ام حکیم رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر سے کہا کہ رسم عروسی کو سردست ملتوی کر دیا جائے ۔
مگر خالد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ مجھے اس جنگ میں شہادت کا پورا یقین ہے اس لئے میں رسم عروسی کو ملتوی کرنا پسند نہیں کرتا چنانچہ ایک پل کے قریب یہ رسم ادا ہوئی یہ پل ابھی تک قنطرام حکیم کے نام سے مشہور ہے ۔حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی ابھی لوگ بمشکل دعوت ولیمہ سے فارغ ہی ہو پائے تھے کہ رومی فوج نے حملہ کر دیا اور قرب وجوار کی فضا تلواروں کی جھنکار سے گونج اٹھی ۔حضرت خالد رضی اللہ عنہ معاً ہتھیار سجا کر میدان جنگ میں نکلے اور داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہو گئے ۔جب حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا کو اس سانحہ کی اطلاع ملی تو وہ شیر دل دلہن بپھر کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔اس وقت تلوار تو نہ مل سکی، اپنے خیمے کی چوب اکھاڑ کر جدید طرز کے اسلحہ جنگ سے لیس رومیوں پر ٹوٹ پڑیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سات رومی سپاہیوں کو موت کی گہری نیند سلادیا۔
اس بہادر خاتون کی زندگی میں ہمارے لئے یہ درس پوشیدہ ہے کہ اس مسلمان عورت جہاں بھی ہو اور جس حالت میں بھی ہو وہ اپنی غیرت اور حمیت کا عملی ثبوت دینا خوب جانتی ہے ۔وہ اگر دلہن کے لباس میں بھی ہوتو اس حالت میں بھی اپنے فرض سے ایک لمحہ کے لئے غافل نہیں رہتی اور وہ سہاگ کو چوڑیوں کو پاؤں کی زنجیر نہیں بننے دیتی ۔مسلمان زندگی کے میدان میں مجاہدین کر جیتا ہے اور اس کی شریک حیات کسی صورت میں شرف جہاد سے محروم رہنا گوارہ نہیں کرتی جب اسے فرض پکارتاہے تو دنیا کی محبت اور تعلقات کی کشش اس کے راستے میں دیوار بن کر حائل نہیں ہو سکتی خدا کرے ہماری خواتین میں یہی جذبہ پیدا ہو جائے اور وہ زندگی کے چمن زار کو میدان جہاد سمجھ کر جینے کا قرینہ سیکھ جائیں۔