ہر بحران زیر التوا حالات پر غور کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ کووڈ- 19 غالباً ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ زراعت میں فرسودہ ہو کر رہ جانے والی پالیسیوں اور زیادہ عملی اور معنی خیز انداز میں ترتیب دیا جائے۔ یہ واضح ہے کہ آزادی کے بعد کوئی بھی سال زرعی امور میں نئی مداخلت یا پہلے سے موجود رابطے میں میں تبدیلی کے بغیر نہیں گزرا۔ اس کے باوجود کسانوں ، چھوٹے اور معمولی لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہونے کا انحصار بڑی حد تک غیر زراعی اور غیر کھیتی والی آمدنی سے ہوتا ہے۔
زرعی مداخلت کا سلسلہ رائل کمیشن برائے زراعت کی 1928 کی سفارش پر مبنی ماڈل بل کی تیاری سے شروع ہوتا ہے۔ 1960 میں زرعی پیداوار مارکیٹ ریگولیشن (اے پی ایم آر) ایکٹ کے نفاذ کے ساتھ ہی زرعی مارکیٹنگ کو باضابطہ بنانا شروع کیا گیا اور اس کے بعد اس نے ایک وسیلے کا کام کیا۔ اس طرح مقامی تاجروںکی اجارہ داری سے کسانوں اور تاجروں کے محدود مقابلے کی طرف مرحلہ وار پیش قدمی ہوئی۔ یہ تبدیلی کافی پیچیدہ رہی۔ اور نئے قوانین کی منظوری تک علامتی اور ناقابل تسخیر لگتی رہی۔ زرعی قوانین میںجوتصورپیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ کسانوں کو ان کی پیداوار کو اے پی ایم سی کی حدود سے باہر فروخت کرنے کی اجازت دے کر ایسے بے ہنگم تعلق کو ختم کیاجائے اور انہیں تاجروں اور سود خوروں کے چنگل سے نجات دلائی جائے۔
دیہات / دیہی علاقوں میں صاف طور پر دیکھاجاسکتا ہے کہ کمیشن ایجنٹ ، بیچولیے اور تاجر کسانوں سے زیادہ دولت مند ہیں۔ اس کی واضح وجہ کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔یعنی وہ بہت زیادہ منافع کماتے ہیں اور جہاں بھی ممکن ہو کسانوں (خاص طور پر چھوٹے اور معمولی کسانوں) کا استحصال کیا جاتا ہے۔ 1980 کی دہائی کے بعد سے متعدد کمیٹیوں اور کمیشنوں نے اس عدم توازن کو درست کرنے کے طریقے فعال طور پر تجویز کئے لیکن حکومتوں کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ کیجولنگ حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر کسانوں کو ایک جھنھنا ضرور پیش کیا گیا۔یہ اب بھی ہر ایک کے لئے ایک معمہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ کھیتی کرنے والے کاشتکار ان کسانوں سے زیادہ مالدار ہیں جو زیادہ قیمتی پھل اور سبزیاں اگاتے ہیں اور دیگر قسم کی باغبانی کرتے ہیں۔ در حقیقت کسانوں کی آمدنی ان ریاستوں میں بڑھ گئی ہے جہاں ایم ایس پی روٹ کے ذریعہ حاصل اناج کا ایک بہت بڑا حصہ خریدا جاتاہے۔ ایسے کسانوں کی خوشحالی کی سطح کا موازانہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کچھ ریاستوں کی جغرافیائی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ لہٰذا ، خطوں ، ریاستوں اور کسانوں میں یکسانیت لانا ضروری ہے۔ درمیانی مدت میں ، نافذ کردہ قوانین سے کسانوں میں عدم مساوات میں کمی آنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اصلاحات کی ضرورت:
کافی طویل عرصے سے اصلاحات کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی اور اس سے پہلے بہت سی ریاستوںنے اے پی ایم سی کوختم کرنے کی کوشش بھی کی، ان میں سے کچھ ہی کامیاب ہوئیں۔ یہ بہت اہم ہے کہ صارف تک پہنچنے سے پہلے تبادلے کے عمل سے زرعی پیداواروں میں یہ صلاحیت پیدا ہوسکتی ہے کہ اْس سے کسانوں کی آمدنی میں11 فیصدسے لے کر 12 فیصد کا اضافہ ہوجائے۔ زرعی بازاروں کو آزاد رکھنا ، اب اس لئے بھی ضروری نہیں رہا ہے کیونکہ پچھلی 2 دہائیوں کے دوران شنکر لال گرو کمیٹی2001 کی سفارشات اور دوسرے تحقیقی مطالعوں سے اس بات کی تصدیق ہوچکی ہے کہ ا ن سے کسانوں کو بہت زیادہ فائدہ نہیں ہے۔ فارمرس پرڈیوز ٹریڈ اینڈ کامرس (پروموشن اینڈ فیسلیٹیشن) ایکٹ -2020، فارمرس ( امپاورمینٹ اینڈ پروٹیکشن) ایگریمنٹ، جو قیمتوں کی یقین دہانی کے حوالے سے ہیں اور فارمرس سروس ایکٹ 2020 اور ضروری اشیاء (ترمیمی) ایکٹ – 2020 کو لانے کے پیچھے اہم مقاصد یہ ہیں کہ صارفین کے لئے زرعی اشیاء کو مہنگا کئے بغیر اشیاء پیدا کرنے والوں کے خسارے میںکمی لائی جائے۔ علاوہ ازیں اس میں مارکیٹنگ کے لئے انتخاب اورمتبادل، بہتر قیمتوں کی وصولیابی اور اے ایم اے پی ایم سی کو لے کر تاجروں کو عہد بند کرنا ، بازار کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے لئے کشش پیدا کرنا، (جہاں زراعت میں80 فیصد سے زیادہ نجی سرمایہ کاری تنہاکسانوں کی ہوگی) فوائد کی حصولی، بہتر معلومات تک رسائی، اچھی زراعتی تکنیک وغیرہ جیسے فوائد سے ملک بھر میں زراعت کاری کو آسان بنائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ بلڈنگ فارم گیٹ بنیادی ڈھانچے کے ذریعے براہ راست خریداری سے اْس وقت کی بچت ہوگی ، جو پیدا کرنے والے سے اشیاء کوصارف تک پہنچنے میںلگتا ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں کم خرچ ہوں گے اور اس سے پیداوار کی کوالٹی میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔
زرعی قوانین کے ضابطے کے مطابق کسان کو اس بات کی آزادی ہوگی کہ وہ اپنا سامان کھیت میں فروخت کردے یا پھر فیکٹری یاکولڈ اسٹوریج سے فروخت کرے۔ اس میں کسی طرح کی نہ تو رکاوٹ ہوگی اور نہ ہی کوئی بازاری خرچ وصول کیا جائے گا اور نہ ہی وہ دوسرے اخراجات اْسے ادا کرنے ہوں گے جو اس سے پہلے اے پی ایم سی قانون کے تحت نافذ العمل تھے۔
ایم ایس پی کو جاری رکھنے کے سلسلے میں یقین دہانی کو لے کر ترمیم کے لئے بہت سے مشورے اور مطالبے ہیں۔ جب کہ اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ نجی طور پرخریداری ایم ایس پی قدر سے کم پر نہیں ہوگی اور یہ بات قانون کا حصہ ہونا چاہئے۔ سچائی یہ ہے کہ ایم ایس پی سے فی الحال گیہوں اور چاول کی کاشت کرنے والے ایسے کسانوں کی ، جن کی کْل سالانہ آمدنی 2 سے 3 لاکھ کروڑ روپے ہے، کو محض 6 فیصد فائدہ حاصل ہو رہا ہے اور اس میں لاگت اور مزدوروں کی مزدوری ودیگر اخراجات سب شامل ہیں۔ مطالعوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایم ایس پی میں 10 فیصد اضافہ کرنے سے جی ڈی پی میں 0.33 فیصد کی کمی واقع ہوگی ،سرمایہ کاری میں1.9 فیصد کمی آجائے گی اور قیمتوں کی فہرست میں 1.5 فیصدکا اضافہ ہوگا۔ قصہ مختصر یہ کہ ایم ایس پی کو قانونی حیثیت دینے سے حساس نوعیت کی اقتصادی صورت حال پیدا ہوگی اور اس کی وجہ سے عالمی سطح پر مقابلوں میں زرعی پیداوار بہت پیچھے رہ جائے گی۔
ٹھیکے پرکھیتی باڑی کی گنجائش کے سلسلے میںکارپوریٹس کیلئے کسانوں کی زمین پر قبضہ کرنامشکل ہے۔ٹھیکہ پیداوارکیلئے ہے نہ کہ زمین کیلئے۔ اس حقیقت کاخوف وہراس اورغیریقینی قیاس آرائی کی وجہ بڑے پیمانے پراحتجاج ہے۔ اسکے علاوہ قانون اس بات کی اجازت نہیںدیتاہے کہ کسان کی زمین پرتاجروں یاکارپوریٹس کے ذریعہ کسی بھی طرح کاڈھانچہ بنایا جائے۔ کامیاب کنٹریکٹ کھیتی باڑی کی مزیدمثالیں پوری طرح نظرآتی ہیں،کیونکہ بیج کی پیداواراورگنے کی کاشت کنٹریکٹ کھیتی کی بہترین مثالیں ہیں۔ جو گذشتہ کئی سالوں سے کامیابی کے ساتھ چل رہی ہیں۔ملک میں60فیصد سے زیادہ برائلر کی پیداوار کنٹریکٹ کھیتی کے ذریعے ہوتی ہے۔یہاں تک کہ ڈیری ماڈل بھی کنٹریکٹ کی بنیاد پرمبنی ہے۔ کنٹریکٹ کاشتکاری بہت سے مواقع فراہم کرتی ہے اورقیمت کی بھی ضمانت دیتی ہے، جس سے غذائی اجناس پیدا کرنے والے کو کسی بھی معاملے میں فائدے کی حصے داری بھی حاصل ہوتی ہے۔ایکبار جب کنٹریکٹ کھیتی مکمل طورپر شروع ہوجاتی ہے، تو ایف پی او ایس اشیاء کے اعتبار سے یا خطے کے اعتبار سے توجہ دیتے ہوئے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں، تاکہ وسائل کی ادائیگی کے مؤثر استعمال حاصل کرسکے۔
اس سے محصولات اورٹیکسوںکے ذریعہ منڈیوں پرکچھ ریاستی حکومتوںکی ہزاروںکروڑ روپے کی کمائی ختم ہوسکتی ہے(یہ رقم8.5 فیصد ہے،جوجی ایس ٹی سے پہلے 14 فیصدتھی)۔ اسے نقصان کے طورپر نہیں گنا جاسکتا، کیونکہ منڈی سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں نے اے پی ایم سی میں بڑا پونجی تعاون باہم پہنچایا ہے اورطیش دہ اقدامات سے اب یہ رقم غذائی اجناس پیدا کرنے والے تک پہنچتی ہے، ساتھ ہی ساتھ ایک حصہ صارفین تک بھی پہنچتا ہے۔
اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ ضروری اشیاء قانون میں ترامیم کاارادہ کیاگیاہے، تاکہ زرعی مارکیٹنگ کے بنیادی ڈھانچے میںسرمایہ کاری کوفروغ دیا جاسکے اورزرعی پیداوارکی قیمتوںمیںاتارچڑھاؤکوکم کیا جاسکے۔ اس سے بڑے زرعی کاروباری گھرانوں کو اجنا س ذخیرہ کرنیکا موقع ملے گا اور اس کے نتیجے میں مصنوعی قلت اور کھانے پینے کی چیزیں مہنگی ہوں گی۔ یہ قانون اس بات کو لازمی بناتا ہے کہ اس کی موجودہ تجاویز ، جن کا تعلق ذخیرے کے حدود سے ہے، انہیں صرف غیر معمولی صورتحال میں ہی نظر انداز کیا جائے گا، جب خراب نہ ہونے والی خوردنی اشیاء کی قیمت 50 فیصد سیزیادہ بڑھ جائیں اور باغبانی پیداوار کی قیمتیں بنیادی قیمت سے 100 فیصد سے تجاوز کرجائیں۔ یہ بینچ مارک اور بنیادپچھلے 12مہینوںمیں خوردہ قیمت کی بنیاد ہوگی یا گزشتہ پانچ سال کے دوران کی یہ اوسط خوردہ قیمت ہوگی۔
مجموعی طورپریہ ترامیم معیاد سے زائد ہیں اور انہیں زرعی مارکیٹنگ نظام سے پاک کرنے کی ضرورت ہے، جس نے ملک کی معاشی ترقی کے ساتھ کسانوں کی مناسب آمدنی کو بڑھنے سے روکا۔ حکومت کو ان قوانین کے فائدوں کے بارے میں معلومات کو پھیلا کر اور تیزی سے قائل کرکے وسیع زرعی بنیادی ڈھانچہ بنیادی سطح پر تیار کرنا چاہئے۔
اس طرح یہ قوانین زرعی مارکیٹنگ اور زرعی سیکٹر کی ترقی میں بساط بدلنے والی اصلاحات کے لئے نہایت اہم ہیں اور یہ اصلاحات وقت کی ضرورت بھی ہیں۔چھوٹے اور بہت چھوٹے کسانوں کو استحقاق کے بجائے بااختیار بنانے کی ضرورت ہے، انہیں اس لائق بنایا جانا ہے کہ وہ اپنی پیداوار کرسکیں اور اس پیداوار کو بین الاقوامی مسابقت کے مطابق بناسکیں۔
(مضمون نگارمرکزی وزارت برائے زراعت کے کمیشن برائے ایگری کلچرل کوسٹ اور پرائسز(سی اے سی پی) اور فارمر ویلفیئر کے ممبر ہیںاور ان کے خیالات قطعی طورپر ان کے ذاتی ہیں)
Urdu Translation of the Article
‘‘Farm acts need of the hour’’
By Naveen P Singh