سرینگر // محکمہ جل شکتی نے پینے کے پانی کے سالانہ فیس میں گذشتہ 9برسوں کے دوران 1850 روپے کا اضافہ کردیا ہے۔ پہلے کے برسوں میں ہر سال دو سو روپے بڑھائے جاتے تھے لیکن گذشتہ 3برسوں کے دوران 300سے زائد کی فیس بڑھائی گئی۔ پانی کا فیس مقرر کرنے والی جموں وکشمیر واٹر ریسورس ریگولیٹری اتھارٹی گذشتہ 2برسوں سے بیکار پڑی ہے کیونکہ اتھارٹی میں کورم کی کمی ہے اور یہ 3ممبران کے بغیر ہے۔ وادی میں اس وقت قریب 10لاکھ پانی کے کنکشن موجود ہیں جس میں سے1لاکھ 20ہزار صرف سرینگر میں ہیں۔ صارفین کا الزام ہے کہ سالانہ پانی کے فیس میں اضافہ کر کے لوگوں پر بھاری بوجھ ڈالا جارہا ہے جس سے لوگ بے حد پریشان ہیںاور رواں سال بھی فیس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ تاہم جموں وکشمیر واٹر ریسورس ریگولیٹری اتھارٹی کا کہنا ہے کہ گذشتہ 2برسوں کے دوران پانی کی فیس میں نہ تو کوئی اضافہ کیا گیا اور نہ ہی اس میں کمی لائی جا سکی ہے ۔
البتہ جو اعدادوشمار سامنے آرہے ہیں انکے مطابق پانی کے فیس میں پچھلے دو سال کے دوران بھی اضافہ کیا گیا ہے۔2019میں 2100روپے فیس تھا، جسے 2020میں بڑھا کر 2442کردیا گیا اور 2021میں یہ 2770تک پہنچ گیا ہے۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اتھارٹی کا کام ریاست کی خصوصی پوزیشن کے خاتمہ کے بعد مزید متاثر ہوا ہے ۔کمیٹی میں اگرچہ چیئرمین کی تعیناتی ایک ماہ قبل عمل میں لائی جا چکی ہے لیکن تین ممبران کو بھرتی کرنے میں یو ٹی حکام کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کر رہی ہے ۔ اس وقت شہری علاقوں میں فی صارفین سے پانی کی فیس سالانہ 2770روپے وصول کئے جا رہے ہیں، جبکہ دیہی علاقوں میں 950روپے فیس مقرر ہے۔ذرائع کے مطابق واٹر ریسورس ایکٹ کے تحت ہر 6ماہ کے بعد فیس میں نظر ثانی کرنا تھی اور اس کے بعد یہ فیصلہ لیا جاتا کہ فیس کو کم کرنا ہے یا پھر بڑھانا ہے ۔ ایکٹ میں بتایا گیا تھا کہ جہاں پانی کی سپلائی لائنوں اور سکیموں پر خرچہ ہوتا ہے تو اس خرچہ کو فیس بڑھا کرپورا کیا جاسکتا ہے لیکن جن سکیموں پر خرچہ ہی نہیں ہوا ہے وہاں فیس بڑھانے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ اتھارٹی کے ایگزیکٹو انجینئر غلام نبی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ پچھلے 2برسوں سے پانی کی فیس میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جب تک کمیٹی میں چیئرمین اور تین ممبر نہیںہوں گے ، تب تک فیس کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ نہیں لیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی نہ ہونے کے نتیجے میں ہم نے سابق فیس کی رپورٹ حکام کو روانہ کی ہے کیونکہ ہمارے پاس یہ اختیار ہی نہیں کہ ہم کوئی فیصلہ لے سکیں ۔محکمہ جل شکتی کے چیف انجینئر افتخار احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ہم پانی کی فیس مقرر نہیں کرتے بلکہ سٹیٹ واٹر ریگولیٹری اتھارٹی فیس کو مقرر کرنے کی مجاز ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کا درجہ ختم ہونے کے بعد اس کا کام بھی متاثر ہوا ہے ،یہ کمیٹی ہر سال 10 فیصد فیس میں اضافہ کرتی تھی۔انہوں نے کہا کہ اس سال محکمہ کا ٹارگٹ 1سو20کروڑ روپے فیس لینے کا ہے ،جبکہ پچھلے سال کویڈ 19کی وجہ سے 90کروڑ میں سے صرف 35کروڑ فیس جمع ہوسکی اور قریب 60کروڑ کی فیس لوگوں کے پاس واجب الادا۔ انکا کہنا تھا کہ اگر کسی صارف کو زیادہ بل آئی ہے، تو اس کی وجہ یہی ہے کہ فیس بقایا تھی ۔انکا کہنا تھا کہ بھارت کے شہروں کے مقابلے میں سرینگر شہر میں سب سے کم فیس مقرر کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ شہری علاقوں میں ماہانہ فیس250 روپے کے قریب ہے، جو دن کے تناسب سے 6یا7 روپے بنتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ شہری علاقوں میں لوگ 24گھنٹے پانی استعمال کرتے ہیں اور جو فیس مقرر کی گئی ہے وہ زیادہ نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ دیہی علاقوں میں ماہانہ 85 روپے فیس مقرر کی گئی ہے اور اس کا دن کا تناسب نکالا جائے تو فیس 3سے4روپے بنتا ہے ۔