سرینگر// گائو کدل میں27برس قبل ہوئے خونین قتل عام کی شنوائی کے دوران بشری حقوق کے ریاستی کمیشن نے ضلع ترقیاتی کمشنر اور پولیس کو معاوضہ فراہم کرنے سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔پولیس نے تازہ رپورٹ میں بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کے ایس پی کی تحقیقات میں فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ حقیقت کے برعکس ہے۔شہر کے گائو کدل کو27قبل خون سے نہلانے کی یادیں ابھی بھی لوگوں کے اذہان میں تازہ ہیں اور ایک ڈراونے خواب کی طرح انہیں رہ رہ کر وہ مناظر یاد آتے ہیں جب دن کے اجالے میں مبینہ طور پر52شہریوں کا لہو خاک میں ملایا گیا۔1990 میں21جنوری کایہ دن اہل کشمیر بالخصوص سرینگر کے عوام کیلئے یوم سیاہ سے کم ثابت نہیں ہوا۔انٹرنیشنل فورم فارجسٹس کے چیئرمین محمد احسن اونتو نے اس سلسلے میں26دسمبر 2012کو ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے ڈویژن بینچ جن میں جاوید احمد کاوسہ اور رفیق فدا شامل تھے، نے انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کے ایس پی کو اس سلسلے میں خصوصی تحقیقات کرنے کی ہدایت دی۔بدھ کو بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں کیس کی شنوائی کے دوران کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) بلال نازکی نے ضلع ترقیاتی کمشنر اور پولیس کو ہدایت دی کہ وہ ان افراد کی فہرست پیش کریں،جنہیں معاوضہ دیا گیا۔ پولیس نے اس سلسلے میں جو تازہ رپورٹ پیش کی اس میں کہا گیا’’ آئی جی پی کشمیر کے ذریعے اس واقعے کی تازہ جانچ کی گئی اور زونل پولیس ہیڈ کواٹر سرینگر سے تفصیلی رپورٹ طلب کی گئی‘‘۔پولیس کے صوبائی سربراہ کی طرف سے اس سلسلے میں پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے’’21جنوری کو ایک مشتعل ہجوم نے کرفیو کو توڑتے ہوئے ملک مخالف نعرے بلند کئے اورگائو کدل علاقے میں امن و قانون کیلئے تعینات فوجی اہلکاروں پر سنگبازی کی جبکہ مشتعل ہجوم میں سے کچھ لوگوں نے اہلکاروں سے ہتھیار چھیننے کی بھی کوشش کی۔جس کے بعد اہلکاروں نے اپنی دفاع میں گولیاں چلائیں،جس سے کچھ لوگ مر گئے اور کچھ زخمی ہوئے‘‘۔پولیس رپورٹ میں ایس پی بشری حقوق کمیشن کی طرف سے کی تحقیقات میں فورسز اہلکاروں پر لگائے گئے الزامات کو بھی مسترد کیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا’’ انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کے سپر انٹنڈنٹ آف پولیس کی طرف لگائے گئے الزامات کہ فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں ہوئیں،وہ مجموعی طور پر قوانین اور حقائق کے خلاف اور مجموعی طور پر غلط فہمی پر مبنی ہے‘‘۔ رپورٹ میں’’ ایس پی‘‘ ہیومن رائٹس کمیشن کے جواب میں کہا گیا ہے کہ واقعے کے روز علاقے میں کرفیو تھا،اس لئے یہ الزام بالکل غلط ہے کہ اتھارٹی گائو کدل علاقے میں مجسٹریٹ کی تفصیلات کی نشاندہی کرنے میں ناکامیاب ہوئی۔اس سے قبل پولیس نے22نومبر کو ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے سامنے اس واقعے میں مرنے والے کی فہرست پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ22افراد جان بحق ہوئے اور12 زخمی ہوئے۔اس سے قبل انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کے ایس پی نے اپنی جوتحقیقاتی رپورٹ پیش کی اس میں کہا گیا’’ اتھارٹی کی طرف سے یہ متضاد تاثرات سامنے آئے کہ کرفیو یا امتناعی احکامات نافذ تھے یا نہیں‘‘۔ریاستی پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ کرفیو نافذ تھاتاہم اتھارٹی مجسٹریٹ تفصیلات کی نشاندہی کرنے میں ناکام ہوگئے ۔انہوں نے تحقیقات میں کہا ہے کہ اگر پولیس کے اس تاثر کو صیح مانا جائے کہ ہجوم مشتعل ہوا۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ کون مجسٹریٹ کی حیثیت سے تعینات تھااور گولیاں چلانے کے احکامات صادر کئے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈی جی پی کے بیان کو کرفیو کے نفاذ میں پیش کیا گیا ہے،تاہم کوئی بھی معتبر جواز پیش نہیں کیا گیا کہ اس روز گائو کدل علاقے میں کون مجسٹریٹ کے طور پر تعینات تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ8 سال بعد کیس کو’’پتہ نہیں چلا‘‘ کی بنا پر بند کیا گیا اور عدالت میں حتمی رپورٹ بھی پیش نہیں کیا گیا۔ہیومن رائٹس کمیشن کے سپر انٹنڈنٹ آف پولیس کی طرف سے کی گئی تحقیقات میں مزید کہا گیا ہے کہ ضلع ترقیاتی کمشنر کی طرف سے پیش کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ6مہلوکین کو25 ہزار کے حساب سے ایکس گریشا ریلیف فرہم کی گئی تاہم یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اگر دیگر لوگوں کی موت بھی اسی طرح اس واقعہ میں ہوئی،انہیں معاوضہ کیوں نہیں دیا گیا۔ادھر انٹرنیشنل فورم فارجسٹس نے اس سلسلے میں جوابی عرضی میں کہا ہے کہ ایس پی ہیومن رائٹس متعلقہ فورسز بٹالین کی نشاندہی کرنے میں ناکام ہوگیا ہے،جس نے50افراد کو ہلاک اور قریب250کو زخمی کیاجبکہ اس سلسلے میں مذکورہ بٹالین کی شناخت کرنے کیلئے کوئی قدم اٹھایا گیا۔