فی الوقت جبکہ برما سے سرکاری تشدد کے نتیجہ میں بھاگ آئے روہنگیائی مہاجرین کے بھار ت میں ورود پر زبردست ہنگامہ برپا ہے اور مرکز میں برسراقتدار حکمران اتحاد کے حلقوں کی جانب سے انہیں ملک بدر کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے مرکزی حکومت نے شمالی مشرقی ریاست میں مقیم چکما اور ہجونگ مہاجرین کو بھارتی شہر یت دینے کےلئے اپنا من بنا لیا ہے اور اس سلسلہ میں احکامات جلد ہی صادر ہو رہے ہیں۔ اس بات کافیصلہ بدھ کے روز مرکزی وزیر داخلہ اور اروناچل پردیش کے وزیراعلیٰ کے درمیان ہوئی ایک میٹنگ میں ، جس میں وزیر مملکت برائے امور داخلہ کرن رجیجو اور سلامتی امور کے مشیر بھی موجود تھے۔ قابل ذکر بات ہے کہ کرن رجیجو روہنگیائی مہاجرین کو ملک بدر کرنے کی کھلم کھلا وکالت کر رہے ہیں، کیونکہ بقول انکے غیر قانونی طور پر ملک کے اندر داخل ہونے والوں کےلئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ چکما اور ہجونگ مہاجرین بنگلہ دیش کے چٹاکانگ پہاڑی علاقہ کے باشندے ہیں اور 1960میںسابق مشرقی پاکستان میں کاپٹی ڈیم پر وجیکٹ کی تعمیر کے نتیجہ میں انکا آبائی علاقہ زیر آب آنے کی وجہ سےہجرت کرکے ہندوستان آنے پر مجبور ہوئے تھے۔ اگر چہ اس وقت انکی تعدادصرف چند ہزار نفوس پر مشتمل تھی لیکن اب یہ آبادی ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور گزشتہ نصف صدی سے وہ شمال مشرقی صوبوں میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ چکما اورہجونگ مہاجرین کو پنا دینے کی وجہ سے حقوق انسانی کےعالمی حلقوں میں ہندوستان کو سراہا جاتا رہا ہے لیکن آج صورتحال بالکل مختلف ہے کیونکہ مانیمار میں روہنگیائی مہاجرین پر رواں صدی کے بدترین مظالم کے روح فرنساحقائق سامنے آنے کے باوجود ملک کے اندر انہیں واپس بھیجنے کے مطالبات کئے جارہے ہیں اور ایسا کسی اور کی طرف سے نہیں بلکہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی اور اسکی حلیف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قائدین اور اداروں کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ کرن رجیجو، جو خود شمال مشرقی خطے سے تعلق رکھتے ہیں اور جہاں آباد چکما اور ہجونگ مہاجرین کو شہریت دی جارہی ہے، روہنگیائی مہاجرین واپس بھیجنے کی نہ صرف کھلم کھلا وکالت کر رہے ہیںبلکہ انہوں نے اقوام متحدہ کی جانب سے ایسے مطالبہ کی مخالفت پر بھی شدید تنقید کی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے، کیونکہ ایک ہی طرح کے معاملات پر دو ہرا معیار اختیار کرنے سے شکوک اور شبہات کی فضا کو تقویت ملنے کی راہ ہموار ہو تی ہے اور کل کو ضرور یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا ایسا اس لئے ہے کہ چکما مہاجرین ہندمذہب اور ہجونگ بدھ مت کے پیروکار ہیں جبکہ روہنگیائی مہاجرین مسلمان ہیں۔ فی الوقت مسلمانوں کےخلاف دنیا بھر میں جو مباحثہ تشکیل پا رہا ہے اُس میں انکے ساتھ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے انسلاکات مربوط کئے جارہے ہیں اور اسی کا سہارا لیکر روہنگیائی مہاجرین کے خلاف ملک کے طو ل و عرض میں مباحثہ چھیڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ قابل ذکر بات ہے کہ وزیر داخلہ سے ایک حالیہ پریس کانفرنس میںجب روہنگیائی مہاجرین کے تعلق سے سلامتی خطرات کے متعلق سے پوچھا گیا تو انہوں نے روہنگیائی مہاجرین کے حوالے سے سلامتی خطرات کو بھی خارج از مکان قرار نہیں دیا،حالانکہ دنیا بھر میں اس وقت روہنگیائی مہاجرین پر ہو رہے مظالم پر ہا ہا کار مچی ہوئی ہے اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں بھی اس پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بھی ہندوستان میں ان مہاجرین کے حوالے سے بنائی جارہی رائے عامہ پر تشویش ظاہر کی تھی۔ چونکہ ریاست جموںوکشمیر میں بھی کئی ایسے ہزار مہاجرین مقیم ہیں اور جموںصوبہ کے کچھ علاقوں میں انہیں نکال باہر کرنے کے لئے ایک منظم مہم چلا کر ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ لہٰذا یہاں اس مسئلہ کی اہمیت کو خارج نہیں کیا جاسکتا ۔ریاستی حکومت نے اگر چہ ابھی تک صورتحال کو سنبھالے رکھا ہے لیکن انتظامیہ میں دائیں بازوو کی زہنیت رکھنے والے کچھ ایسے عناصر ضرور ہیں، جو صورتحال کو انگیخت کرنے والوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ موجودہ حالات میں اب جبکہ مرکزی حکومت کی جانب سے چکما اور ہجونگ مہاجرین کو شہریت دینے کی تیاری ہو رہی ہے تو بے بیان مظالم سے جان بچا کر آنے والے مہاجرین کوپناہ دینے کے بجائے واپس اُسی جہنم میں دھکیلنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا ۔ ریاستی حکومت کو بھی اسی تناظر میں ان ستم رسیدگان کے تئیں اپنی پالیسی وضع کرنی چاہئے۔