اب تقریباً گزشتہ ایک ماہ سے افشاء ہوئی فہرستوں کی بنیاد پرروشنی سکیم ،جسے اب ’’روشنی گھوٹالہ ‘‘بھی کہتے ہیں،کی مناسبت سے مختلف خبر رساں ایجنسیوں اور اخبارات کی جانب سے میرے کو نمایاں طور اچھالایا اجاگر کیاجارہا ہے۔ اگر مقامی اور قومی اخبارات کایقین کیا جائے تواب مجھے غیر قانونی اراضی پر قبضہ کرنے والے دلالوںکا حصہ سمجھا جائے گا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ میڈیا کو مبینہ25ہزار کروڑ روپے کے گھوٹالہ کے لئے مجھے واحد اور تنہا فائدہ اٹھانے والے کے طور پروجیکٹ کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔حقائق اور اعدادوشمار پر جائے بغیر یہ سیاسی زندگی(خواہ وہ قلیل ہی رہی ہو)میں رہنے کی قیمت ہے جو چکانا پڑ رہی ہے۔
اب جبکہ جموں و کشمیر حکومت نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے حکم کی تعمیل میں روشنی سکیم کے تحت مستفید ہونے والوں کی فہرست کو عوامی طور پرمشتہرکیا ہے ، اس لئے واقعات کی ترتیب کے ساتھ میری مبینہ "زمینوں پر قبضے" سے متعلق حقائق پیش کرنا بھی ضروری بن گیا ہے۔
1956 میں میرے پیدا ہونے سے بہت پہلے میرے دادانے اپنی بیٹی کے لئے سری نگر کے گوگجی باغ میں چار کنال اراضی پر مکان اپنی بیٹی کیلئے خریدا تھا ، جو اتفاقاً اب میری ماں ہے۔ انہوں نے اس کا انتخاب اس لئے کیا کیونکہ میرے والد کے بڑے بھائی نے حال ہی میں نزدیک ہی اپنے لئے گھر خریدا تھا۔ یہ صرف خاندانی کہانی ہی نہیں ہے بلکہ یہ متعلقہ معلومات ہے ، جیسا کہ آپ کو نیچے معلوم ہوگا۔
اس پراپرٹی کو اتم سنگھ کھراناسے 56ہزارروپے میں خریدا گیا تھا۔اس سے پہلے کہ آپ کو یہ سستا سودا لگے ،میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اُس وقت کے روپے کی قیمت کے اعتبار سے یہ رقم آج شاید چند کروڑ کے قریب بنتی ہے۔ انہوں نے اس وقت لاگو ہونے والی اسٹامپ ڈیوٹی اور فیس بھی ادا کی اور خرید و فروخت کا عمل رجسٹربھی کراوا دیاتھا۔
وادی میں بھی بہت سے رہائشی علاقوں کی طرح اور ملک کے باقی حصوں اور واقعتادنیا کے دیگر حصوں میں بھی ، زمین کو پٹے پر دینے کے حقوق حاصل تھے جس کے لئے ہر سال 40 روپے کا زمینی کرایہ حکومت کو ادا کیا جاتا تھا۔ یہ شمالی ہندوستان محکمہ مال کی انتظامیہ کی زبان میں نزول اراضی تھی ۔
اراضی کے لیز یا پٹے کی میعاد 1980 میں ختم ہوگئی۔پٹے کی مدت ختم ہونے سے پہلے میری والدہ ،جو اس زمین کی قانونی مالک تھی، نے زمین پرپٹے کے حقوق میں توسیع کے لئے درخواست دی۔ 10 سال تک حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ یہ اس کے باوجود بھی کابینہ نے 1981 میں اور پھر 1985 میں پٹے کے حقوق کو ملکیتی حقوق میں تبدیل کرنے کی پالیسی کو منظور کیا تھا۔ اس کی درخواست کے حصے کے طور پر میری والدہ میرے اور میرے دو بھائیوں کے لئے ایک ایک کنال کی منتقلی کے لئے درخواست دیتی ہیں اور ایک اپنے لئے رکھتی ہیں۔اوریوںمیںاس ساری تصویر میں آجاتا ہوں۔
1991میں پہلے کی گئی درخواست کی حیثیت کے بارے میں دریافت کرنے کیلئے حکومت کو ایک اور درخواست دی گئی۔ حکومت کی طرف سے کوئی جواب آئے بغیر ہی ایک اور دہائی گزر گئی۔
2000 میں ایک دہائی کے بعد روایتی درخواست پھر سے دی جاتی ہے جس میں یہ پوچھا جاتا ہے کہ 1980 اور 1990 کی درخواستوں کا کیا ہوا ہے اور ایک نئی درخواست بھی کی گئی۔ بالآخرحکومت حرکت میں آہی گئی۔
حکومت اس معاملے کو سری نگر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو بھیجتی ہے ، جو اپنے مقررہ کاغذی کارروائی اور عمل سے گزرتے ہوئے پٹے کے حقوق کو مالکانہ حقوق میں تبدیل کرنے کے لئے کوئی اعتراض نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے ۔ وہاں سے یہ کیس فنانشل کمشنر ریونیو کو جاتا ہے جنہوں نے اسے منظور کیا۔ پھر حتمی حکومت کے پاس ہی رہی کیونکہ کوئی حکم جاری نہیں ہوا ۔
اس وقت تک روشنی سکیم عمل میں آچکی تھی۔ ریاستی مقننہ کے ذریعہ منظور کردہ روشنی ایکٹ اور اس سکیم کے ذریعہ جو حکومت نے تشکیل دی تھی ، کے تحت یہ میری ماں کی ذمہ داری بن گئی ہے کہ وہ حقوق کے تبادلہ کے لئے درخواست دیں ورنہ ایکٹ کی دفعہ 13 کے تحت اسے بے دخل کیا جاسکتا تھا۔ لہٰذا ، چاہے کسی نے چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی روشنی ایکٹ کے تحت درخواست دینا ناگزیر بن گیاتھا۔ یقینی طور پر قانونی ذمہ داری کے تابع رہ کر درخواست دینا کوئی بدعنوان عمل نہیں ہوسکتا ہے ؟۔
بہر کیف ہوا یوں کہ 2004 میں روشنی سکیم کے تحت درخواست پر عملدرآمدشروع کیا گیا ۔ حکومت کی طرف سے ہم چاروں کو مراسلہ جاری کیا گیا اور آخر کار زمین کا انتقال 2007 میں کیاگیا۔ روشنی ایکٹ فریم ورک کے ساتھ ہمیں"مجاز قبضہ کاروں"کے طورتصور کیاگیا کیونکہ میری والدہ نے لیز کی تجدید کے لئے بروقت درخواست دی تھی۔ تو یہ کہاں اور کس طرح " اپنا بنانے کیلئے لوٹ" ہوئی ؟
اہم بات یہ ہے کہ ریاستی حکومت کو فی کنال 7.5 لاکھ روپئے فی کنال کے حساب سے پریمیم کی ادائیگی کے بعد لیز ہولڈ کے حقوق کو قانونی طور پر فری ہولڈ حق میں تبدیل کردیا گیا۔چند ٹکوں کے عوض زمین کے مالکانہ حقوق منتقل کرنے کے بارے میںبہت کچھ کہاگیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس پر صرف پریمیم واجب تھا کیونکہ کیونکہ اس زمین کی قیمت 1956 میں ادا کی گئی تھی جب اسے خریدا گیا تھا۔ پچیس فیصد چھوٹ حاصل کرنے کے لئے تین ماہ کے اندر اندر پریمیم کی بروقت ادائیگی کی گئی ۔
چونکہ گوگجی باغ کا رہائشی علاقہ سارا نازول اراضی پر مشتمل تھا ، اس لئے ساتھ ہی میرے چچا کی جائیداد کا بھی یہی مسئلہ تھا۔ وہ زمین بھی میرے کزنز کو منتقل کی گئی تھی۔ اب دیکھیںکہ کس طرح درابوئوںکے ذریعہ خاندانی تقسیم کو زمین کے غبن کے طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ یہ اس خاندان کے لئے ہے جس نے زرعی اصلاحات کے تحت1500کنال سے زائد زمین گنوادی۔ یہ واقعی اور حقیقی طور عجیب و غریب اورانتہائی افسوسناک ہے۔
کیامیں پوچھ سکتا ہوں تو میں نے کیا غلطی کی ہے؟ میں یا اس معاملے میں ہماراکوئی بھی پڑوسی ، جس اپنے قانونی حقوق کی حصولی کیلئے باضابطہ رقوم کی ادائیگی کی ہے،اس ’گھوٹالے‘میں شریک ہیں؟سکیم کی تشکیل یا عمل آوری کے دوران میں سرکاری دفتر میں نہیں بیٹھا تھا۔اس کے باوجود بھی اگر آپ میڈیا کی مداخلت کو دیکھیں تومیں اس سارے ’’گھوٹالے‘‘ کا پوسٹر بوائے ہوں!۔
یہ کتنا حیرت انگیز لگے گا،مجھے پوری طرح یاد ہے کہ جب یہ اعلان کیاگیاتھا کہ روشنی سکیم ایک بہترین آئیڈیا ہے۔ یہ حکومت کی ان چند پالیسیوں میں سے ایک تھی جو بامقصد معلوم ہوتی تھیں۔ مجھے بتایا گیا کہ اس کا تصور محمد شفیع اوڑی نے اس وقت کے وزیر خزانہ کے طور پر کیا تھا۔ سکیم کی معنویت اس کی سادگی میںتھی۔ لوگوں کو انتہائی دلکش سرمایہ کاری پر لیز ہولڈ کے حقوق حاصل ہیں اور وہ اس کو فری ہولڈ میں تبدیل کرنے کے لئے پریمیم ادا کرنے کو تیار ہونگے۔ اس طرح جمع کی گئی رقم کو پن بجلی کی پیداوار میں سرمایہ کاری کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ یہ دونوں فریقوں ، عوام اور حکومت کے لئے برابر کی جیت تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اس کے برعکس آج ہمارے پاس کیا ہے ، ایک گھوٹالہ ؟۔
اگر کوئی قانون اپنے مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو کیایہ اس قانون کی پیروی کرنے والوں کی ذمہ داری ہے؟ اس منطق کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس کے برعکس قانون کی تعمیل اچھی شہریت کی علامت ہے۔ یا اب یہ جرم بن گیا ہے؟ کیا ہم شہریوں کی حیثیت سے یہ سمجھیں کہ مقننہ ،نہ کہ ایگزیکٹیو کے ذریعہ لایاگیاقانون فراڈہے؟ کیا کسی قانون سازی کو آئینی طور پر نظرانداز کرنے کے بجائے دھوکہ دہی کے تصور کرنے کا کوئی نیا قانونی اصول ہے؟
لیز ہولڈ رائٹس یعنی پٹے کے حقوق کو فری ہولڈ رائٹس یعنی مالکانہ حقوق میں تبدیل کرنے کی سکیم وادی کے لئے کوئی انوکھی چیز نہیں ہے۔یہ پورے ملک ،یہاں تک کہ پورے قومی دارلحکومت میں یہ عام ہے ، جہاں حال ہی میں انتخابات سے قبل غیر مجاز کالونیوں کو باقاعدہ بنایا گیا تھا۔اگر وہی اصول ،جو روشنی سکیم کے بارے میں اپنایاگیا ہے ،وہاں بھی لاگو کیاجائے تو ان سب لوگوں کو بے دخل کیا جانا چاہئے تھا؟ مزید یہ کہ یہ اراضی کے مالکانہ حقوق کی منتقلی ایگزیکٹویعنی حکومت کے احکامات کے ذریعے عمل میں لائے گئے ، نہ کہ روشنی سکیم کی طرح،جس کیلئے باضابطہ قانون سازی کی گئی تھی۔
بڑے پیمانے پر لوگوں کے لئے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کیے بغیر کہ کس طرح ایک بظاہر اچھی نیت کے ساتھ شروع کی گئی سکیم کسی گھوٹالے کا پھندا بن گئی اورکس نے غیر قانونی طور فائدہ اٹھانے کیلئے اس کو مینو پلیٹ کیا ، میڈیا اُن کشمیریوں کو بے جا بدنام کرنے کا اپنا مفوضہ کردار ادا کر رہا ہے جو عوامی زندگی میں رہے ہیں۔
حکومت جس طرح سے میڈیا میں روشنی سکیم کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہی ہے ، یہ ایسا کہنے کے مترادف ہے کہ اگر وزیر اعظم کیئرس فنڈ کا آڈٹ ہوتا ہے تو اس کا الزام ان لوگوں پر ہے جنہوں نے یہ فنڈ چلانے والوں کی بجائے فنڈ میںاپنا حصہ ڈالا۔ اگر اب سے پانچ سال بعد حکومت ہند کو پتہ چل گیا کہ اس سال کے آغاز میں شروع کی گئی مفت راشن سکیم میں کوئی اسکینڈل ہوا تھا ، تو کیا وہ ان لوگوں کو ذمہ دار سمجھے گی جو مفت راشن سے فائدہ اٹھارہے تھے ہیں؟ یا اگر سی اے جی نے کل منریگا میں کوئی گھوٹالہ پایا تو کیا ان تمام "مستفید افراد" کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی جو ایک ایسی سکیم سے بہرہ ور ہوئے ہیں جوعدالتوں نے زمانہ ٔ ماضی کا اطلاق دیکر غیر قانونی قراردی ہے؟۔
کیا میں آج انڈیا ٹوڈے ، اے بی پی لائیو ، انڈین ایکسپریس اور دیگر ان کے ذریعہ سرزد ہوئے سفید جھوٹ کے خلاف عدالت میں جاکر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرسکتا ہوں؟ شایدہاں یاشاید نہیں۔ ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق "وزراء، قانون سازوں ، بیوروکریٹس" کو کٹہرے میں کھڑا کیاجائے ، اس لئے کہ انھوں نے کیا کیا ہے یا کیانہیں کیا ہے ، بلکہ اس وجہ سے کہ وہ کون ہیں یا کیارہے ہیں۔ یہ سب "اس معاملے میں مکمل انصاف اور لوگوں کے ذہنوں میں اعتماد کو یقینی بنانے" کیلئے کیاجارہا ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہ طاقتور ہونے کے طور پر سمجھے جانے والوں کے ساتھ انصاف کی شدید خلاف ورزی کی قیمت پربھی ہے؟ یہ سب اجتماعی ضمیرکی تسکین کے لئے ہے ، کیا یہ ایسا ہی ہے؟۔
حاصل کلام
ایک پرانے ساتھی ، جو تجربہ کاراور منجھے ہوئے صحافی بھی ہیں ، نے مجھے میری پراموشن پر مبارکباد دینے کے لئے فون کیا۔ تھوڑا سا گھبرا کر میں نے استفسار کیا کہ آپ کس کا ذکر کر رہے ہیں۔ اُدھر سے جواب آیا: آپ کو ادارتی صفحہ پیج سے پہلے صفحہ (یعنی سرورق) پر ترقی دی گئی ہے! ۔انہوںنے کہا کہ ادارتی صفحہ ریکارڈ کے لئے ہے۔ پہلا صفحہ یعنی اخبار کا سرورق پہچان ،شناسائی یا اعتراف کیلئے ہے۔ کشمیریوں کو کسی بھی حالت میںشوخی یا مزاح ملتا ہے جو میرے خیال میں یہاں زندہ رہنے کا واحد راستہ ہے۔