حال ہی جموں وکشمیر میں اراضی سے متعلق قوانین میں بڑے پیمانے پر ردِوبدل کیا گیا۔ کچھ پرانے قوانین سرے سے ہی منسوخ کئے گئے یا ان میں ترمیمات کی گئیں اور کچھ نئے قوانین نافذ کئے گئے۔9 اکتوبر 2020ء کو ہائی کورٹ کی طرف سے روشنی ایکٹ کے نفاذ کے خلاف دائر شدہ مختلف کیسوں کی سماعت کے بعدہائی کورٹ نے اس قانون کو ہی کالعدم قرار دیاجس کے بعد لیفٹنٹ گورنر انتظامیہ کی طرف سے31 اکتوبر 2020ء کو روشنی ایکٹ کو بھی اسی ردِ بدل میں منسوخ کیا گیا۔ یہ قانون سال 2001 ء میں نیشنل کانفرنس کے دور اقتدار میں پاس کیا گیاتھا۔ اْس وقت یہ بتایا گیا تھا ریاست میں کہ 20,64,972 کنال سرکاری/ سٹیٹ لینڈ مختلف لوگوں کے ناجائز قبضے میں ہے جسکی مالیت 25,448 کروڑ روپیہ ہے۔ روشنی ایکٹ کے تحت اْس وقت 1990ء یا اس سے پہلے جن لوگوں کا اس زمین پر ناجائز قبضہ تھا ان سے سرکار کی طرف سے مقرر کردہ ریٹ کے مطابق قیمت حاصل کرکے مالکانہ حقوق دئے جانے کا فیصلہ کیا گیااور اس غیر معمولی رقم کو ریاست میں مختلف پاور پروجیکٹوں کی تعمیر پر خرچ کیا جائیگا۔ بعد ازاں مئی 2007ء میں پی۔ڈی۔پی اور کانگریس کی مشترکہ حکومت کے دوران اس قانون کے شرائط میں کچھ نرمی لائی گئی اور اس زمین کے مالکانہ حقوق حاصل کرنے والوں میں ریاست کے تمام باشندوں کو شامل کیا گیا جو ایسی کسی زمین پر قابض نہیں تھے۔ گویا سٹیٹ لینڈ کے مالکانہ حقوق حاصل کرنے کیلئے اس زمین پر قابض لوگوں کیساتھ ساتھ ریاست کے دوسرے مستقل باشندے بھی اہل قرار دئے گئے۔ ساتھ ایسی کوئی بھی زرعی زمین اسکے قابض کو مفت میں منتقل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2001 ء سے 2007ء تک 3,48,200 کنال زمین کا روشنی ایکٹ کے تحت معاوضہ حاصل کرکے مالکانہ حقوق دئے گئے اور اسی دوران 3,40,100 کنال زرعی زمین کو مفت میں اسکے مستحق افراد کے نام منتقل کیا گیا۔سال 2014ء میں کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا نے اپنی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا کہ یہ سکیم اپنے مقاصد کی حصولیابی میں ناکام ہوئی ہے اور جہاں اس سکیم سے 25,448 روییہ کی رقم وصول ہونی تھی جبکہ سال 2007 ء سے 2013ء تک صرف 76کروڈ روپیہ کی رقم وصول ہوئی ہے اور اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد روشنی ایکٹ موضوع بحث بنا۔ اس بات کی بھی شکایات تھیں کہ منظور نظر افراد کو بہت ہی کم داموں یا کوڈیوں کے دام یہ زمین دی گئی۔
ویسے بھی جب سے روشنی ایکٹ کا قانون بنا تھا اور نافذ العمل ہوا ،تبھی سے کچھ لوگ اسکی شدید مخالفت کرنے لگے تھے جن میں اک جھٹ جموں نامی ایک تنظیم پیش پیش رہی۔ یہ تنظیم اْس وقت وجود میں آئی تھی جب کٹھوعہ کے رسانہ گاوں میں جنوری 2018ء میں عاصفہ نامی ایک آٹھ سالہ گوجر بکروال طبقے سے تعلق رکھنے والی مسلم بچی کی عصمت دری اور قتل کا واقعہ پیش آیا تھا اور ملزمین کے خلاف قانونی کاروائی شروع کی گئی تھی۔ اس تنظیم نے تبھی ملزمین کے حق میں مظاہرے کر کے جموں خطے کی آبادی میں تناسب بگاڑنے کیلئے مسلمانوں خاص کر گوجر بکروال طبقے کو بسانے کا مسئلہ اٹھاکر مذہبی منافرت پھیلانے اور معصوم نابالغ بچی کی عصمت دری کے واقعے کو ایک غلط اور افسوسناک رنگ دینے کی کوشش کی تھی۔ یہ تنظیم روشنی ایکٹ کی منسوخی کا مطالبہ کرتی رہی اور اس کے علاوہ کچھ اور لوگ انفرادی طور پر اس ایکٹ کی مخالفت میں شامل تھے۔ کچھ کا الزام تھا کہ روشنی ایکٹ کی منتقلی کے عمل میں رشوت کا عمل دخل رہا اور اسکا فائدہ کچھ بڑے پولیس افسران، بیروکریٹوں اور سیاستدانوں نے اٹھایا۔ کچھ لوگوں کا روشنی ایکٹ کے نفاذکی نیت پر ہی شک تھا۔ دائیں بازو والی اک جھٹ جموں نامی تنظیم اس میں پیش پیش رہی۔ انکا الزام تھا کہ اس ایکٹ کا مدعا اور مقصد ہندو اکثریت والے جموں علاقے میں مسلمانوں کو زمین دیکر آباد کرکے اس خطے کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنا ہے۔ یہ بھی الزام تھا کہ اس ایکٹ کے تحت جہاں مسلمانوں کے دس درخواست دہند گاں میں سے آٹھ کی درخواستیں منظور ہوئیں اور انہیں روشنی ایکٹ کے تحت زمین ملی وہیں ہندئوں کے معاملے میں جہاں دس درخواستیں وصول ہوئیں وہیں صرف دو کو ہی اس ایکٹ کے تحت منظوری دی گئی اور زمین ملی ہے۔ اس طرح کچھ لوگ ذاتی طور اورکچھ سیاسی وابستگی کی بنیاد پر اس ایکٹ کی مخالفت کرنے لگے اور کچھ لوگوں نے عدالت کا ددوازہ بھی کھٹکھٹایا۔ اگرچہ وقتاً فوقتاً ان خدشات کو دور کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں لیکن یہ کوششیں بیکار ثابت ہوئیں اور جب جموں وکشمیر میں پی۔ڈی۔پی اور بی۔جے۔پی کی مشترکہ سرکار گرگئی یہ مسئلہ زور پکڑنے لگا۔ چونکہ مرکز میں برسراقتدار لوگ بھی روزِ اول سے اس قانون کے حق میں نہیں تھے۔ انہوں نے بڑے خاص طریقے سے روشنی ایکٹ کی عمل آوری میں کورپشن کے الزامات کو بنیاد بناکر اور عدالت عالیہ کا حوالہ دیکر اسکو کالعدم قرار دینے کی کامیابی حاصل کی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا روشنی ایکٹ سے متعلق جو کچھ عدالت ِ عالیہ یا عوام کو بتایا گیا وہ درست تھا یا غلط ؟ اس کا جواب بنیادی سطح پر حقائق جان کر ہی دیا جا سکتا ہے۔ مصدقہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق روشنی ایکٹ کے تحت 30,000 لوگ مستفید ہوئے ہیں جن میں اکثریت غریب لوگوں کی ہے۔ اگرچہ بعض اخباری اور دوسری اطلاعات کے مطابق کچھ با اثر لوگوں، جن میں اعلیٰ پولیس افسران، بیروکریٹ اور سیاستدان شامل ہیں ، کو اس ایکٹ کی آڑ میں فائدہ پہنچا ہے۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ کل تعداد 30,000 روشنی ایکٹ سے مستفید ہوئے لوگوں میں زیادہ سے زیادہ 5,000 تک ایسے کیس ہوسکتے ہے جو مشکوک ہوسکتے ہیں یا کورپشن کے دائرے میں آسکتے ہیںلیکن اکثریت مستحق لوگوں کی ہے جنہیں ایکٹ کے تحت زمین ملی ہے وہ بھی تھوڑی ، کوئی بڑا رقبہ نہیں۔ لہٰذا ایکٹ یا اس پر عملدرآمد کو پوری طرح غلط کہنا بھی ٹھیک نہیں۔ جہاں تک اس ایکٹ یا اسکے نفاذ کو مذہبی یا فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی بات ہے ،وہ قابل افسوس اور شرمناک ہے کیونکہ حقائق جان کر اور اعداد و شمار دیکھ کر یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔ جموں میں اس ایکٹ کے تحت اب تک کْل 44,915 کنال اراضی کے مالکانہ حقوق دئے گئے ہیں جن میں مسلمانوں کو صرف 1,180 کنال کے مالکانہ حقوق ملے ہیں، پھر یہ الزام کہ مسلمانوں کو ہی ترجیحی بنیاد پر اس ایکٹ کے تحت مالکانہ حقوق دئے گئے ہیں تاکہ آبادی کا تناسب بدلا جائے ،بنیاد پرستی اور افواہ پر مبنی ہے اور یہ الزام سرے سے ہی جھوٹا ہے۔
اب ذی شعور اور حساس افراد کواس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ کچھ نا عاقبت اندیش، فرقہ پرست اور بیمار ذہن لوگوں نے اس ایکٹ کو فرقہ وارانہ اور مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی تھی جسکا بھر پور فائدہ دائیں بازو والی جماعتوں نے بھی اْٹھایا لیکن حقائق اور سچائی کے سا منے وہ خاموش اور بے بس دکھائی دئے لیکن انکے ارادوں اور نیت میں اب بھی کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اب بھی کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی طریقے سے وہ آگ اگل رہے ہیں۔ روشنی ایکٹ کی منسوخی سے انہیں پوری طرح اطمینان نہیں ہے بلکہ وہ اب یہ چاہتے ہیں کہ فارسٹ لینڈ پر قبضہ ہٹایا جائے۔مقصد سرکاری املاک کی واپسی کم اور مسلم گوجر بکروال طبقے کو اس اراضی سے محروم کرناہے۔ ملک کی دوسری ریاستوں اور علاقوں میں اس طبقے سے وابستہ لوگوں کے زیر قبضہ فارسٹ لینڈ سے متعلق ان کیلئے تحفظاتی قوانین موجود ہیں تو یہاں کیا انکو یہ تحفظات حاصل نہیں ہو سکتے؟۔ یہ بھی ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب شاید ہی کوئی دیگا۔
جہاں تک منظورِ نظر اور اثرورسوخ رکھنے والے افراد بشمولِ اعلیٰ سرکاری افسران اور سیاستدانوں کو روشنی ایکٹ کے تحت غیر معمولی فائدہ پہنچانے یا کس کو بھی کم قیمت پر اراضی دینے کی بات ہے ، ایسے افراد اور لوگوں کے نام مشتہر کئے جانے چاہئیں جس طرح ہورہے ہیں تاکہ عوام الناس کو بھی معلوم ہوجائے کہ یہ کون لوگ ہیں جو عوامی خدمتگاروں ،نام نہاد عوامی لیڈروں اور خیر خواہوں کا جامہ پہن کر خزانہ عامرہ کو لوٹ رہے ہیں۔ ساتھ ہی انکے خلاف سخت سے سخت کاروائی فی الفور عمل میں لائی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا اور حسب سابقہ سزا کے بجائے انہیںکلیدی عہدوں پر فائز کرکے حوصلہ افزائی کی جائے تو عوامی نظروں میں روشنی ایکٹ کی منسوخی بھی لوگوں کی آنکھوں محض دھول جھونکنا ہے اور اسکے کچھ اور ہی مقاصد ہیں جنکا خدشہ اظہار کیا جارہا ہے۔جہاں ایسے افراد کے خلاف کاروائی کرنے کی ضرورت ہے وہیں یہ بھی دیکھا جائے کہ جن مستحق افراد کو اس سکیم سے کوئی راحت ملی ہے ، انہیں اس راحت سے محروم نہ کیا جائے۔ قانون بنانے کا مقصد عوام کو راحت اور آسانی پہنچانا مطلوب ہوتا ہے نہ کہ انکی پریشانیوں میں اضافہ کرنا۔ جن غریب اور مستحق لوگوں کو روشنی ایکٹ کے تحت زندگی گزارنے کیلئے چھت میسر ہوئی تھی، وہ اس قانون کی منسوخی سے پریشان ہیں۔ انتظامیہ کو چاہئے کہ انکا خاص خیال رکھیں اور انہیں دی گئی سہولیت برقرار رکھی جائے۔ سرکار کا کام بے گھروں کو گھر دینا ہوتا ہے نہ کہ کسی کو بے گھر کرنا۔ ہاں مگر مچھوں کو سزا دینا مطلوب ہے تو ضرور دیجئے مگر معصوم مچھلیوں کو بھی کیوں اس میں گھسیٹا جائے اور انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا نہیں ملنی چاہئے جو انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ بے شک یہ مسئلہ زندگی کی ضروریات سے منسلک ہے۔روٹی، کپڑا اور مکان زندہ رہنے کیلئے بنیادی ضروریات ہیں مگر اس مسئلہ کا ایک اہم انسانی پہلو ہے۔ گھر اجڑجانا یا بے گھر ہونا کتنا دردناک اور اذیت رساں ہوتا ہے، یہ وہی لوگ جانتے ہیں اور محسوس کرسکتے ہیں ، جو بے گھر ہوجاتے ہیں۔ عمر بھر کی پونجی اور وہ بھی دن رات محنت مشقت کرکے کمانا اور پھر گھر بسانے کیلئے مکان بنانا ، کتنا مشکل مگر پیارا کام ہوتا ہے۔ بقول مشہور شاعر منور رانا" نقشے کوٹھیوں، محلوں اور عالیشان مقبروں کے بنتے ہیں۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔ غریب آدمی کی زندگی بغیر ِ نقشے کا مکان ہوتا ہے "۔ اور جب یہی مکان چھن جائے تو وہ کرب ناگفتہ بہہ ہوتاہے۔ ان کے درد کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے ۔لہٰذا یہ قانون سے بڑھکر انسانیت کا مسئلہ ہے۔
روشنی ایکٹ کی منسوخی سے ایسے پیدا شدہ مسائل پر ہمدردانہ اور انسانیت کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور حکومت کو اس پر ایک مثبت رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ اسے کوئی سیاسی ، مذہبی یا علاقائی رنگ نہیں دینا چاہئے بلکہ فقط ایک انسانی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہئے۔ سرکار کا کام لوگوں کی فلاح و بہبودی کرنا ہے نہ کہ بربادی۔یہی توقعات حکومت ِ وقت سے وابستہ ہوتی ہیں۔حالات کا تقاضا بھی ہے اور ضرورت بھی کہ سرکار بے گھر غریب لوگوں کو روشنی ایکٹ کے تحت گھر بنانے کیلئے دی گئی زمین کو ایک آرڈی نینس کے ذریعہ باضابطہ قانونی طور انکو الاٹ کرے۔ قانونی ماہرین کی نظر میں ایسا آرڈی نینس لانا سرکار کیلئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس قسم کے اقدامات سے ہی روشنی ایکٹ کی منسوخی سے متعلق عوام میں پیدا شدہ خدشات اور شک و شبہات دور ہو سکتے ہیں۔ ورنہ یہی کہا جا سکتا ہے ؎
یہ مانا کہ تم کو تلواروں کی تیزی آزمانی ہے
ہماری گردنوں پہ ہوگا اس کا امتحاں کب تک
ای میل۔ [email protected]