حمزہ شاہ ،آمنہ شاہ
2016ءمیں جاپانی سائنس دان کو کینسر کے علاج میں ایک انقلابی پیش رفت پر نوبل پرائز دیا گیا۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ اس سائنس دان نے کینسر کے علاج کے لیے کوئی نئی دوا ایجاد نہیں کی، بلکہ ایک ایسی دریافت کی، جس سے کینسر کو روکا جاسکتا ہے اور اگر مرض لاحق ہو، تو اس کی بڑھوتری میں بہت حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔ یوشی نوری، ٹوکیو کی یونی ورسٹی آف ٹیکنالوجی میں پروفیسر ہیں۔ اُن کی دریافت کو سیدھے سادے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ جب انسان زیادہ دیر تک بھوکا رہتا یا فاقہ(Fasting)کرتا ہے، تو جسم کے خلیوں میں پُراسرار تبدیلیاں رُونما ہونے لگتی ہیں ۔ جب ان خلیوں کو باہر سے کوئی خوراک نہیں ملتی، تو وہ خود ہی ایسے خلیوں کو کھانا شروع کردیتے ہیں، جو گلے سڑے، خراب اور جسم کے لیے خطرے کا باعث ہوں۔ اسے عام فہم زبان میں (self eating)کہتے ہیں اور سائنسی اصطلاح میں یہ عمل ’’Autophagy‘‘ کہلاتا ہے۔ جاپانی سائنس دان کے مطابق، اگر انسان سال میں ایک مرتبہ 20سے27 دن تک 12سے 16گھنٹے بھوکا رہے، تو کینسر کا موجب بننے والے، گلے سڑے اور ناکارہ خلیے خود بہ خود ختم ہونے لگتے ہیں۔ اس طرح صحت مند انسانوں میں کینسر کے امکانات، جب کہ کینسر کے مریضوں میں مرض کی رفتار کم ہوجاتی ہے۔ دراصل یہ کوئی نیا نظریہ نہیں ہے، بلکہ اس سے قبل بیلجیئم کے ایک سائنس دان کو بھی 1974ء میں اسی شعبے میں انعام مل چُکا ہے، لیکن یوشی نوری کا کارنامہ یہ ہے کہ اُنہوں نے اس موضوع پر لیبارٹریز میں ٹھوس شواہد اکٹھے کیے اور 3ہزار سے زائد تحقیقی مقالے لکھے۔ اُنہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ جسم کا یہ ناکارہ سیلز کا کاٹھ کباڑ، کس طرح اور کیسے ٹھکانے لگتا ہے اور نئے سیلز کیسے وجود میں آتے ہیں۔
’’فاسٹنگ‘‘ ماضی سے حال تک : عہدِ جدید کی سائنسی تحقیق اور پیچیدہ تجربات نے اس کی افادیت پر مُہرِ تصدیق ثبت کردی ہے، تو ان کا اظہارِ مسرّت ایک فطری بات تھی، بالخصوص اسلامی دنیا میں اس ریسرچ کا خوش دِلی سے خیرمقدم کیا گیا، جو 14سو سال سے ’’ماہِ صیام‘‘ جیسی نعمت سے سرفراز ہوتے چلے آرہے ہیں۔ جاپانی سائنس دان کی یہ تحقیق کہ سال میں 20 سے26،27 دن تک فاسٹنگ (روزے رکھنا) بہت سی بیماریوں سے فطری شفایابی کا ایک بہترین وسیلہ ہے، اسلام کی زرّیں تعلیمات کی افادیت اور حقّانیت کی بہترین مثال ہے۔ دنیا بھر میں مخصوص وقت کے لیے کھانے پینے سے احتراز کو بالعموم فاسٹنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جب کہ اسلامی تعلیمات میں یہ’’روزے‘‘ سے موسوم ہے۔
کیموتھراپی اور فاسٹنگ : ’’فاسٹنگ‘‘ پر ہونے والی ریسرچ میں اگرچہ پوری دنیا کے ماہرین نے دِل چسپی کا اظہار کیا ہے، لیکن اگر کسی نے اس سے عملاً فائدہ اٹھایا، تو یہ کیلے فورنیا ریسرچ لیبارٹری کے نوجوان بیالوجسٹ، ڈاکٹر لانگو ہیں،جنہوں نے ابتدا میں چوہوں پر تجربات سے ثابت کیا کہ کم خوراکی کے باوجود ان کی زندگی میں اضافہ ہوا۔ اُنہوں نے مصدّقہ رپورٹس سے یہ بھی ثابت کیا کہ فاسٹنگ سے زہریلے اثرات ختم ہو جاتے ہیں اور جسم کا خودکار مدافعتی نظام گلے سڑے خلیوں کے کوڑا کرکٹ کو کسی نہ کسی طرح ٹھکانے لگادیتا ہے۔ ان کی ریسرچ سائنٹیفک جرنل میں شایع ہوئی، جس کا نچوڑ یہ تھا کہ’’ فاسٹنگ سے انسان کمزور نہیں ہوتا، جیساکہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔‘‘ لاس اینجلس کے معروف کینسر اسپتال کے ڈاکٹرز نے ڈاکٹر لانگو کی اس ریسرچ کو بہت سنجیدگی سے لیا اور اسے مریضوں پر آزمانے کا فیصلہ کرلیا۔ اُنہوں نے کیموتھراپی کروانے والے 100مریضوں کو دو گروپس میں تقسیم کیا۔ ایک گروپ کے مریضوں کو کیموتھراپی کے دَوران معمول کی طاقت وَر غذا دی گئی تاکہ اُن میں کم زوری نہ ہو، جب کہ دوسرے گروپ کو اس دَوران فاسٹنگ کرنے، یعنی صرف پانی پینے یا بہت ہی کم غذا کھانے کو کہا گیا۔ کیموتھراپی کے 5 سیشنز کے بعد معلوم ہوا کہ جن مریضوں نے اس عمل کے دَوران کچھ نہیں کھایا تھا، اُن میں دوسروں کے مقابلے میں واقعی بہتری دیکھی گئی۔ غذا نہ کھانے کے باوجود اُن میں کمزوری کا احساس پیدا نہیں ہوا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ کیموتھراپی کے ذیلی اثرات میں بھی کمی محسوس ہوئی۔ جب ایک مریضہ کا لاس اینجلس ٹائمز میں اس حوالے سے انٹرویو شائع ہوا، تو یہ انکشاف امریکا کی فارماسوٹیکل انڈسٹری اور فوڈ سپلیمنٹس بنانے والوں کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں تھا۔ لاس اینجلس میں لیبارٹری تجربوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فاسٹنگ کے دَوران انسانی خلیوں اور جینز میں ایسی تبدیلیاں اور ماحول پیدا ہوتا ہے، جن سے کینسر زدہ زہریلے خلیے نفرت کرتے ہیں اور جسمانی بھوک کے دَوران دوسرےخلیوں کی خوراک بن کر ختم ہو جاتے ہیں۔
جسمانی اعضا ء کو آرام : یورپ اور امریکا میں فاسٹنگ کے بارے میں ہونے والی ریسرچ سے قطع نظر، اسلام نے چودہ سو سال قبل مسلمانوں پر روزے فرض کرکے اُن کی حقّانیت اور صداقت پر مُہرِ تصدیق ثبت کر دی تھی۔ روزے دنیا بھر میں مستعمل ’’فاسٹنگ‘‘ کے مقابلے میں شفا یابی کا ایک ایسا خُوب صورت اور مؤثر وسیلہ ہیں، جن کا کوئی متبادل نہیں۔معروف مذہبی اسکالر، ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطابق ’’اسلام نے کائنات، کرّۂ ارض، سمندروں، پہاڑوں، انسانی جسم اور زندگی کے دوسرے گوشوں کے بارے میں جو کچھ کہا تھا، آج سائنس کی روشنی میں صحیح ثابت ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اسی طرح روزوں کے اسرار و رُموز بھی سائنس کی لیبارٹریز میں کُھلتے چلے آ رہے ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کہ ’’کھائو، پیو، لیکن اعتدال سے‘‘۔ اور یہ کہ ’’معدے کو ایک تہائی خوراک سے، ایک تہائی پانی سے اور ایک تہائی ہوا سے بھرو۔‘‘ نیز یہ کہ ’’جب تھوڑی سی بھوک رہ جائے، اُس وقت کھانے سے ہاتھ کھینچ لو‘‘ اور یہ کہ ’’کم کھانے میں راحت ہے۔‘‘ یہ سب فرموداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صحت و تندرستی کے ضامن ہیں، جن پر آج سائنس بھی متفّق نظر آتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ پانی ہمیشہ تین گھونٹ میں اور بیٹھ کر پیو۔‘‘ اور آج کی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ کھڑے ہو کر پانی پینے سے کئی امراض لاحق ہوتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خیال میں روزوں کے تین طرح کے فوائد ہیں، جسمانی، ذہنی اور روحانی۔ سب سے بڑا جسمانی فائدہ تو یہ ہے کہ معدے، جگر، لبلبے، گُردوں اور دوسرے اعضاء کو مسلسل سال بھر کام کے بعد ایک مہینے کے لیے کچھ آرام مل جاتا ہے، جس سے ان میں نئی جان پیدا ہو جاتی ہے۔ صحت مند خلیوں کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنے ’’مکان‘‘ سے سال بھر کے کوڑا کرکٹ، بیمار، گلے سڑے خلیوں، فالتو چکنائی اور فاسد مادّوں کی صفائی کردیں۔ جسمانی اعضاء، بالخصوص معدہ جو کہ تمام امراض کا گڑھ ہے، اُسے آرام کا موقع مل جاتا ہے اور وہ خود اپنی اصلاح کرلیتا ہے۔ ماہرین نے ثابت کردیا ہے کہ روزوں کے دَوران بلڈ شوگر، گلوکوز لیول، کولیسٹرول لیول، انسولین اور بلڈ پریشر میں صحت بخش تبدیلیاں رُونما ہوتی ہیں۔ امریکا کی ’’جان ہوپکنز یونی ورسٹی‘‘ کی ایک حالیہ ریسرچ سے پتا چلا ہے کہ فاسٹنگ سے الزائمر کے مریضوں کو بہت افاقہ ہوا۔ اسی طرح 2017ء میں امریکی جنرل آف کلینیکل نیوٹریشن میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق، فاسٹنگ سے دِل کے امراض، بلڈ پریشر، ذیابطیس، جوڑوں کے درد اور موٹاپے میں کافی افاقہ ہوا۔نیز، روزے کے نفسیاتی فوائد بھی بہت زیادہ ہیں۔ یہ جسمانی اور نفسیاتی خواہشات پر قابو پانا سِکھاتا ہے۔ انسان جب بھوک اور نفسیاتی خواہشات پر رضاکارانہ طور پر قابو پا لیتا ہے، تو اُسے اپنے آپ پر اعتماد حاصل ہو جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ روزوں کے دَوران بہت سے افراد تمباکو نوشی، پان، نسوار اور دوسری بُری عادات سے چھٹکارا پا لیتے ہیں۔
معروف ماہرِ اغذیہ ،پروفیسر ڈاکٹر محمّد احمد بھٹّی نے، جو ایک نجی یونی ورسٹی کے شعبہ ہیلتھ سائنسز کے سربراہ ہیں، روزوں کے بارے میں ایک نہایت اہم پہلو کی طرف توجّہ دِلاتے ہوئے کہا کہ ’’مشہور قول ہے کہ روزہ تو سب رکھ لیتے ہیں یا ’’فاسٹنگ‘‘ پر عمل کرتے ہیں، لیکن ایک سمجھ دار اور عقل مند شخص ہی جانتا ہے کہ اسے کھولنا کیسے ہے۔ ہمارے ہاں افطار میں جن انواع و اقسام کے کھانوں، پکوانوں اور طرح طرح کے مشروبات کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پھر سحر و افطار کے وقت جس بے دردی سے کھایا جاتا ہے، اس سے روزے کا بنیادی مقصد فوت ہو جاتا ہے۔جب معدے پر قسم قسم کے کھانوں کی یلغار ہوتی ہے، تو اُس کا آرام غارت ہو جاتا ہے اور اُسے مرغّن غذائیں ہضم کرنے کے لیے پہلے سے بھی زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے سحر و افطار کے وقت ہمیشہ اعتدال کے ساتھ ،زود ہضم غذائوں پر انحصار کرنا چاہیے۔ پکوڑے، سموسے، کچوریاں، دہی بڑے اور دوسری چَٹ پٹی غذائیں ہمیں ذائقہ تو فراہم کرسکتی ہیں، لیکن توانائی کے اعتبار سے ہرگز ہمارے لیے فائدہ مند نہیں۔ روزوں سے ہم صحیح طور پر اُسی صورت فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جب افطار کے وقت بھی ایک محتاط غذائی پلان کے تحت مناسب اور متناسب غذا استعمال کریں۔ اس مقدّس مہینے میں جسم کو اپنی صفائی کا موقع دینا چاہیے، نہ کہ ہم الٹا اس پر مزید بوجھ لاد دیں۔ ‘‘اللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہ رمضان کی بہتر سے بہتر قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
رابطہ۔7780958951
<[email protected]
���������������