اللہ تبارک وتعالیٰ کی توفیق سے ہی بندہ مومن حسنات کی ادائیگی کرسکتا ہے۔ حسنات ہی وہ وسیلہ ہے جس سے رب العزت کا قرب حاصل کیا جاسکتا ہے۔اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے بندہ مومن کو مراحل طے کرنے پڑتے ہیں جو درجہ بہ درجہ ممکن ہے۔ حسنات کے ثمرات متبع کو دنیا سے ہی ملنا شروع ہوجاتے ہیں۔ صدیقہ کائنات کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبادات میں اتنا اجتھاد کرتے کہ قدم مبارک میں اثرات واضح ہوجاتے۔ تاجدار حرم کے تربیت یافتہ تلامذہ یعنی صحابہ کبار و اہل بیت اطہار اسی نقش قدم پر چل کر رب کی رضا حاصل کرنے میں کوشاں رہتے۔حیا کے علمبردار سیدنا و امام الاتقیاء عثمان غنی رضی اللہ عنہ بیشتر اوقات اپنی مبارک آنکھوں سے فکر آخرت کی وجہ سے آنسو بہاتے۔سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی طرف التفات کیجئے کہ مال و متاع رب کے راستے میں قربان کرکے فقیرانہ زندگی گزارنے پر راغب ہوگئے۔حسنات کے ثمرات عظمیٰ کا بیان اختصاراً آرہا ہے۔
(۱) قلبی سکون :سکون وہ نعمت باری ہے جو پیسوں سے خریدی نہیں جاسکتی۔ بڑے بڑے اہل ثروت کو راقم نے رات کے آرام کے لئے تڑپتے دیکھا ہے۔ یہ سکون، یہ اطمنان، یہ قرار فقط رب العزت کی بندگی میں ہے۔ فرمان ربانی ہے(ترجمہ)’’جو بندہ مومن بھی صالح اعمال کرے خواہ مرد ہو یا عورت پس ہم اس کی زندگی طیب بنادیتے ہیں(سورہ نحل)نیز رب العزت کا فرمان اعلیٰ ہے (ترجمہ )’’لوگ ایمان لے آئے اور جن قلوب رب کی یاد سے اطمنان حاصل کرتے ہیں، خبردار! اللہ کی یاد میں ہی دلوں کا سکون ہے‘‘(الرعد)
(۲)اقتصادی بحران سے نجات :مال و تجارت میں حصول برکت کے لئے، رزق میں فراوانی کے لئے کثرت حسنات لازمی ہے۔ بےروزگاری کے خاتمے کے لئے شریعت کی پیروی کو لازم پکڑنا مشروط ہے۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ نے الجامع الصحیح میں مرفوعاً حدیث نقل کی ہے کہ جسے تمنا ہو کہ اسکے رزق میں وسعت کی جائے اور عمر میں برکت کی جائے، اُسے چاہیے کہ ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑنے کی کوشش کرے۔‘‘
(۳) جسمانی قوت :طبی امراض سے نجات حاصل کرنے کے لئے بھی کثرت حسنات نسخہ کیمیاء ہے۔ جیسا کہ حدیث فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ جسمانی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے تاجدار حرم نے انہیں ذکر و اذکار کرنے کی تلقین و تعلیم دی۔ ابلیس کے شر سے، نفس کے شبہات سے بچنے کے لئے مسنون اذکار نہایت ہی مفید ہیں۔ ظالم کے ظلم سے، جابر کے جبر سے، طواغیت کی سرکشی سے، دشمنوں کی چالوں سے بچنے کے لئے قرآنی و مسنون اذکار ڈھال کا کام دیتے ہیں۔
(۴) حفاظت الٰہی : شاعر کہتا ہے ؎
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
حقیقت بھی یہی ہے کہ جس کا محافظ کائنات کا خالق و مالک بن جائے، وہ دنیا کی سازشوں سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حفاظت و ضمانت حاصل کرنے کے لئے مخصوص اعمال کی رہنمائی فرمائی گئی ہے۔ مثلاً نماز فجر باجماعت اپنے وقت پر مسجد میں ادا کرنا، بے بس مسلمان کی معاونت کرنا وغیرہ۔ محرمات، منکرات، لغویات سے دور بھاگنا بنیادی شرط ہے۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ’’جس نے صبح کی نماز پڑھی وہ اللہ کی پناہ میں آگیا۔ لہٰذا یہ موقع نہ آنے پائے کہ اللہ کی ذمہ داری میں کسی طور خلل انداز ہونے کی وجہ سے وہ تمہارے درپے ہو جائے،اگر اللہ اپنی ذمہ داری میں خلل انداز ہونے پر کسی کے درپے ہو جائے تو اسے وہ بالآخر جا ہی لیتا ہے اور اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیتا ہے‘‘۔(صحیح مسلم)
(۵) حصول محبت باری :قرآن کی مقدس آیات شاہد ہیں کہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے ان محبوب بندوں کی نشاندہی فرمائی ہے ،جن سے رب العزت محبت کرتا ہے۔ کسی معزز فرد کی صحبت اور اس سے تعلق کو باعث فخر سمجھا جاتا ہے۔ کتنا عظیم ہے وہ انسان جسے رب العزت سے تعلق مضبوط ہو جائے۔ یقیناً یہ سب سے بڑا کرم ہے۔ ملاحظہ کیجئے۔
’’اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے، صبر کرنے والوں سے، پاکی حاصل کرنے والوں سے، توبہ کرنے والوں سے، توکل کرنے والوں سے، عدل کرنے والوں سے، تقوی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘۔
(۶) ظلمات سے اخراج : ہر انسان چاہتا ہے کہ اسکی زندگی پرسکون گزرے۔ لیکن انسان کی اپنی کی ہوئی کوتاہیوں سے انسان کی پوری زندگی مصائب و مشکلات کی زد میں رہتی ہے۔ ہر طرح کی پریشانی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے رب العزت کی اطاعت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع لازم لزوم ہے۔ فرمان باری ہے:
’’آلام و مصائب سے آزادی کے لئے، اغیار کے ظلم و ستم سے نکلنے کے لئے گناہوں سے دور بھاگنا اور تقوی اختیار کرنا بندہ مومن پر واجب ہے‘‘۔
(۷) حصول نصرت الٰہی :پروردگار عالم شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے۔ بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ مختار کل، حاجت روا، مشکل کشا، غریب نواز، داتا، معبود برحق اور مسجود برحق ہے۔ عزت و ذلت کا مالک، نفع اور نقصان کا مالک، فقر و غنی کا مالک فقط اللہ کی ذات مبارکہ ہے۔دعویٰ ایمان تب جاکر صحیح و کامل ہے، جب ہمارے عقائد بالخصوص توحید باری تعالیٰ میں کوئی نقص نہ ہو۔ علماء بیان کرتے ہیں کہ، ’’على قدر إيمانك وحسناتك تكون ولاية الله لك، وعلى قدر ما ينقص من إيمانك تنقص ولاية الله لك ‘‘۔مفہوم یہی ہے کہ’’ جس کا ایمان جس قدر مضبوط ہوگا، اللہ کی ولایت اس قدر زیادہ ہوگی، جتنا ایمان گھٹتا جائے گا ولایت میں کمی آتی رہے گی ‘‘۔بقول حالی ؎
کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
(۸) حسن خاتمہ :فرمان ربانی ہے کہ ’’بے شک جنہوں نے کہا تھا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اتریں گے کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور جنت میں خوش رہو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔‘‘(حم سجدہ) ایمان و اعمال پر ثابت قدمی، توحید پر استقامت تب جاکر ممکن ہے جب ایمان کی شاخوں کی حفاظت کی جائے۔
(۹) ابدی خسارے سے نجات :صحابہ کبار جب بھی آپس میں ملاقات کرتے تو ایک دوسرے کو سورہ عصر کی وصیت کرتے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا معروف قول ہے کہ اگر فقط سورہ عصر نازل کیا جاتا، بنی آدم پر حجت قائم کرنے کے لئے یہی کافی تھا۔اقرار ایمان کے بعد اعمال صالحات ادا کرنے والوں کو، بدعات و خرافات سے اجتناب کرنے والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ انہیں خسارے سے بچایا جائے گا۔ عربی میں اسے "السلامة من وصف الخسران" کہا جاتا ہے۔
(۱۰) تکفیر سیئات :کبائر و صغائر گناہ معاف کروانے کے لئے، اپنے نامہ اعمال کی پاکیزگی کے لئے، اپنی خلوت و جلوت مزین کرنے کے لئے کثرت حسنات لازمی ہے۔ فرمان ربانی ہے کہ بےشک حسنات کی ادائیگی سے سیئات کومٹایا جاتا ہے۔عربی شاعر کہتا ہےؔ ؎
ترجمہ :’’جب کبھی خلوت میں تمہیں گناہ کرنے کا موقع ملے تو یہ مت سمجھنا کہ تم تنہا ہو بلکہ اپنے نفس سے کہنا کہ میرے اوپر ایک نگران ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک پل کے لئے بھی بندے سے غافل نہیں رہتا اور کوئی بھی شٔے رب سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی‘‘۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مذکورہ نصائح پر ہمیں عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرمائے۔ تاکہ دنیا و عقبیٰ میں ہمیں فوز الکبیر حاصل ہو۔ آمین
(مدرس:سلفیہ مسلم ہائر سکینڈری پرے پورہ ۔ رابطہ:6005465614)