تاثرات
ڈاکٹر گلزار احمد وانی
روبینہ میر جموں و کشمیر کی اردو شاعری میں ایک ایسا نام ہے جس نے کئی دہائیوں سے شعر و ادب کی آبیاری کی ہے۔ آپ نے اردو شاعری کے دامن کو اپنے متنوع موضوعات سے نہ صرف مالا مال کیا بلکہ زبان و بیاں کے حوالے سے بھی قابل قدر اضافہ کرکے اس کے دامن کو مزید وُسعتوں سے ہمکنار کر دیا۔ روبینہ میر شعری اصناف میں حمد ٬ نعت غزل اور نظم کہتی ہیں ۔ابھی تک اردو شاعری میں ان کے بہت سارے شعری مجموعے منظر عام پر آ کر داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ ’’تفسیر حیات ‘‘ ان کے شعری مجموعے کا نام ہے جو ۲۰۱۶ میں شایع ہوا ہے۔ روبینہ میر راجوری جموں و کشمیر کی رہنے والی ہے اور صنف شعر میں ہی طبع آزمائی کرتی ہے۔
تفسیر حیات میں اس شاعرہ نے یوں تو غزل کے روایتی مضامیں کو ہی اظہار کی راہ دی ہے جن میں محبت ٬ اور محبت سے وابستہ مسائل مثلا ہجرو وصال ٬ حسن و عشق ٬ شمع و پروانہ اور گل و بلبل وغیرہ ،مگر اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے زندگی اور زندگی سے جڑے مسائل اور فلسفہ کا بھی بہت حد تک اپنا نکتہ نگاہ واضح کیا ہے۔ آپ زندگی سے بد دل بھی نہیں ہیں پر کچھ لوگوں کے ذاتی مقاصد کی بدولت زندگی سے ملے تلخ تجربات کو واضح کرنے میں بھی کبھی ہچکچاتی نہیں ہیں۔ آپ نے زندگی کی کئی بہاریں دیکھنے کے باوجود بھی اس کی مختلف النوع صورتیں ایسی بھی دیکھی ہیں کہ جن سے ایسا لگتا ہے کہ آپ نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اور پرکھا ہے اور اس کے بعد ہی آپ کے بہت سے شعری تجربے اظہار کی راہ پائے ہیں جو اردو شاعری میں کئی اہم تجربات و مشاہدات کی صورت میں نمو پا گئے ہیں۔روبینہ کے بیشتر اشعار میں زندگی اور زندگی سے منسلک سوالات اور فلسفۂ حیات پوشیدہ ہیں، جس پر سے متنوع زاویوں سے شاعرہ نے کشف کا جامعہ اٹھانے کی سعئ کی ہے اور اپنے فلسفۂ حیات کا نظریہ بھی عنایت فرمایا ہے۔انہوں نے نہایت سلیقے سے زندگی کے سو رنگ اپنے تجربات کی آنچ میں پگھلا کر دکھانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے اور جس میں کئی اور طرح سے نیرنگ زیست کو بھی دکھانے کی ایک بازیاب کوشش کی ہے۔ غزل کے موضوعات میں ان کے یہاں کوئی بھی قید نہیں پر ایک وجۂ سکوں یہ بھی اس میں سے نکلتا ہے کہ انہوں نے زندگی سے کبھی ہار نہیں مانی ہے ۔ حالات کیسے بھی پیش آئے پر ان کے سامنے اپنی انا اور اس کی غیرت کو مجروح ہونے نہیں دیا ہے۔ روبینہ سیدھے سادے الفاظ میں زیست سے متعلق اپنے تجربوں کو زبان دیتی ہے۔اور اس میں انہیں زباں کا کوئی مسلہ در پیش نہیں آتا ہے۔ آپ سبک روی سے زندگی کے ہر ایک مسئلہ کو بیاں کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔
زندگی میں اہل دنیا سے نپٹ پائیں گے ہم
سو طریقے سوچے تھے لیکن وہ زائل ہوگئے
روبینہ میر راجوروی نے تقریبا پینتالیس فیصد غزلوں کے اشعار میں زندگی سے وابستہ کوئی نہ کوئی شعر تخلیق کیا ہے۔ جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ انہوں نے اپنی حیات کا ایک ایک لمحہ غنیمت سمجھ کر اس کی ایک طرف پاسداری کی ہے اور وہیں دوسری اور اس کے کسی لمحے سے غفلت نہیں برتی ہے اور ایک ایک ساعت کا تجربہ بیان فرمایا ہے۔انہوں نے بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی جنبش ساعت کو ادغامی صورت میں یوں بیاں فرمایا ہے کہ کسی بھی چیز کا اپنی جگہ کوئی ملال ہی نہ کوئی خلش ہی۔ وہ زندگی کے مسائل سے خود ہی جھوجتی رہی ۔بقول منیر سیفی:
دو گھڑی کو بھی کسی نے مجھے کاندھا نہیں دیا
عمر بھر ڈھوتا رہا خود ہی جنازہ اپنا
جس طرح کہا جاتا ہے کہ شعر و ادب کا معاملہ بھی ہموار نہیں ہے اسی طرح ہم یہ جان کر بہت حیران رہتے ہیں کہ جس عمر میں تجربے ہاتھ لگتے ہیں اس سے قبل ہی کوئی ایسے مسائل میں الجھے اور اُلجھ کر پھر ایسے نپٹارہ بھی کرے تو اس میں روبینہ میر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے جتنے بھی رنگ دیکھے ہیں زیست کے ان سے کبھی کسی پل بھی خوف زدہ نہیں ہو پائی ہے۔ اور اس کے چلتے انہوں نے کئی معنوی جزیروں کو آباد کر دیا ہے جس سے اور شعرا کی پہنچ شاید ہی ہوسکتی ہے۔روبینہ میر کا طرز اظہار بالکل سیدھا سادہ ہے ۔اس میں وہ پر تکلف ٬ پیچیدہ تراکیب اور غیر مانوس الفاظ سے احتراز ہی برتتی ہے جس سے ہر ایک قاری ان کے خیال تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ جیسے کہ ارسطو کے خیال میں بھی زبان کا استعمال سادہ ہی ہو تاکہ قاری تخلیق کار کی تخلیق تک رسائی حاصل کر سکے۔ارسطو کے خیال میں زبان و بیاں و طرز ادا کیا ہونا چاہئے لکھتے ہیں :’’ زبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ پامال و عامیانہ ہوئے بغیر قابل فہم ہو ۔ سب سے زیادہ قابل فہم زبان و بیاں وہ ہے جس میں روزمرہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہوں مگر یہ پامال و عامیانہ ہو جاتی ہے جیسا کہ کلیدوں اور لس کی شاعری میں ملتی ہے برخلاف اس کے وہ زبان جو غیر مانوس الفاظ و تراکیب استعمال کرتی ہے شان و دبدبہ کی حامل ہو کر عام سطح سے بلند ہو جاتی ہے۔غیر مانوس الفاظ و تراکیب سے میرا مطلب غیر ملکی الفاظ ٬ استعاروں ٬ تعقید اور اسی قسم کی چیزوں سے ہے۔ جو عام نہیں ہیں لیکن اس قسم کی چیزوں کا استعمال یا تو ظلم ہوگا یا زبان کو معمہ بنا دے گا ۔ ‘‘( ارسطو۔سے ایلیٹ تک ص نمبر ۱۵۰ ای پی ایچ نئی دہلی۔اشاعت ۲۰۰۴)
روبینہ میر ایک باشعور شاعرہ ہیں جو الفاظ کو نیا احساس و مزاج بخش دینے میں ذرا بھی تامل نہیں دیتی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ زندگی میں تب تک سکوں کا فقدان ہے جب تک نہ یہ دوسروں کے کام آسکے۔ روبینہ میر کا لہجہ نہایت ہی نرم ہے۔ وہ شعر میں جذبات کا بھاری وزن بھرنے سے قانع نہیں ہیں اور اتنا ہی کسی شعر پر جذبات و احساسات کا دباؤ ڈال رہی ہے کہ خیال اس کے تلے دبنے سے رہ جاتا ہے۔ یوں غزل میں کوئی بھی مخصوص رنگ بھرنا کسی تخلیق کار کے لئے بھی آسان نہیں رہتا ہے۔
اُن کے بعض اشعار میں یہی عقدہ کھلتا ہے کہ انسان کے دل میں کبھی بھی اور کسی پل بھی کدورتیں ٬ نخوت و تکبر اور گھمنڈ و بد گمانی پیدا ہونی نہیں چاہئے بلکہ دلوں کے اندر سکوں کی فراہمی اسی وقت بہم ہو سکتی ہے جب ایک انسان دوسروں کے بھلے کا سوچے اس صورت حال کا عکس اس ایک شعر میں نمو پذیر ہوتا ہے۔ گوکہ وہ انہی تجربوں کو بیاں کرنے کے لئے اس طرح کے جذبات سے مملو بھی ہیں اور ایک دردمند دل رکھتی ہیں، جس کے چلتے انہیں مفلس ٬ کم ہمت اور نحیف لوگوں کی ہمدردی ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اگر شاعر اپنی شاعری میں فلسفہ کے بدلے میں اخلاق اور رومانیت کے بجائے حقیقت پسندی ہی کو ترجیح دے تو شاعری کاحسن زائل ہو جاتا ہے، وہ بس پند و نصایح تک محدود رہتی ہے۔لہٰذا ایک تخلیق کار کواس بات کا بھی خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ ایک جگہ یوں لکھتے ہیں:’’ کہ شاعری میں اخلاقی اور سماجی اثر ممکن ہے مگر شاعری اپنی جگہ اس نوع کے سب اثرات سے بالا تر ہے ‘‘۔ ارسطو سے ایلیٹ تک (ص نمبر۔۶۰۱ ای پی ایچ نئی دہلی سنہ اشاعت ۳۰۰۴) اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو روبینہ میر کی شاعری پر جو چھاپ ہے ،اس میں اخلاقیات کا عمل دخل بھی ہے اور سماجی اثرات سے بھی فرار ممکن نہیں ہے۔ تو اس سبب سے کہیں کہیں پر اس کے اثرات میں کمی سی محسوس ہونے لگتی ہے پر یہ ان کا اپنا اور منفرد اسلوب ہے جس سے ان کا نکلنا بہت ہی دشوار ہی تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
’’ تفسیر حیات ‘‘بھی انہی جذبات سے مملو شعری مجموعہ ہے، جس میں کائنات اور کائنات سے جڑے تمام مسائل کا مجموعہ بیاں کیا گیا ہے، اس میں نظمیں بھی ایک قاری کا دھیان اپنی اور کھینچنے میں معاون ثابت ہوئیں ہیں۔ اس میں نثری نظموں کو جو جگہ حاصل ہوئی ہے وہ بھی سراہنے کے قابل ہے۔ ان تمام نظموں میں عصری حسیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ جن میں آئے دن زلزلوں سے مکانات زمین بوس ہو رہے ہیں کا نقشہ بھی خوب کھنچا گیا ہے۔ محمد یوسف ٹینگ روبینہ میر کی شاعری کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں :
’’ روبینہ میر نے اپنے مجموعےمیں تانیثی Sensibility کے چند نمونے پیش کئے ہیں۔ جہاں جہاں جسم پوش ہم نوا سے اپنی شعری لمس پاسکی ہے وہاں شاعری کی ساحرہ نے اس پر اپنے سارے لطف اور رنگ ارزاں اور آسان کر دئے ہیں اور ہمیں اس سے رنگوں کی بڑی دھنک کی امید ہے ۔‘‘(تفسیر حیات۔ ص نمبر ۱۲)
نظموں کے موضوعات میں ان کے یہاں تنوع بہت حد تک ایک قاری کو اپنی گرفت میں باندھ کے رکھتی ہیں۔ ان میں بھی ان کا اپنا نکتہ نظر صاف اور واضح دکھائی دیتا ہے اور زندگی سے جڑے مسائل کا صاف گوئی کے ساتھ بیاں ہوا ہے۔
روبینہ میر غزل اور نظم پر یکساں دسترس رکھتی ہیں اور اس میں انہیں کوئی اختصاص نہیں کہ وہ غزل میں اپنا طرز اظہار ڈھونڈیں یا کہ نظم میں ۔ بلکہ انہیں اس میں کسی کوفت کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ اپنے احساسات اور جذبات کو اظہار کی راہ دینے میں مصروف کار ہیں۔ جس سے ان کی شاعرانہ حدود کا ایک تو پتہ چلتا ہے اور دوم یہ کہ انہیں اس ڈگر پر کائنات کی وسعت کا بھی مشاہدہ ہو رہا ہے۔ روبینہ میر غزل میں زندگی کے موضوع کے علاوہ اور بھی موضوعات برتنے میں کامیاب ہیں۔ جس میں ہجرو وصال اور درد و کرب کا بخوبی اظہار کر لیتی ہے۔
کیا کہوں میں بے ثمر سے ہوگئے سارے شجر
جب سے میرے گلستاں کا باغباں ناراض ہے
مجموعی طور پر روبینہ میر اپنی غزل میں اپنے غم و اندوہ اور مسرتوں اور حسرتوں کو بیاں کرنے میں کامیاب دکھائی دے رہی ہیں اور جس میں ان کی کامیابی کا راز بھی مضمر ہے۔