شاعری تجربات کا فن ہے اور یہ فن تجربات و مشاہدات کی پیش کش کے لئے فنی لوازمات کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ کسی بھی باشعورانسان کے افکارمقامی ماحول یا حالات وواقعات کی اثرانگیزی سے بچ نہیں سکتے ہیں اور جب کوئی حساس فن کار ایسے ماحول میں سانسیں لیتا ہے تو ان حالات و واقعات کا مشاہداتی اظہار وہ اپنی تحریر /تخلیق میں کرتا ہے‘جس کا اظہار ساحر لدھیانوی نے دلچسپ انداز میں یوں کیا ہے:
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
انہیں تجربات و مشاہدات کا فنی اظہار راز صاحب بھی دل فگار انداز میں کرتے ہوئے خود کو شاعر کی بجائے’ درد ِعظیم‘ کا ’امیں‘ کہہ کر کہتے ہیں کہ میں اپنے کلام میں وہیں امانتیں لوٹا رہا ہوں جو وقت نے مجھے سونپی تھیں۔ شعر کی موضوعاتی مماثلت دیکھ کر ــ ’’خدائے سخن‘‘ میر تقی میرؔ کا مشہورِ زمانہ شعر یادآتا ہے:
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
شعر میں لفظ و خیال کا متوازن استعمال نظر آتا ہے یعنی امانتیں ‘امیں‘ شاعر ‘ دردعظیم ۔ امانتیں تو زیادہ تر مادی تصور کی عکاسی کرتی ہیں لیکن یہاں پر انہیں سماجی کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور امین بھی مادی امانتوں کے حوالے سے نہیں بلکہ بطور فنی ردعمل جو درد عظیم کی صورت میںہے:
لوٹا رہا ہوںوقت کو اپنی امانتیں
شاعر نہیں امیں ہوں میں دردِ عظیم کا
’دردِعظیم‘ کا یہ امین شاعرجب تجربات و مشاہدات کو فن کے قالب میں ڈالتا ہے توشعر کے اندر فکرو احساس اور دھیمے لہجے کا طنز آمیزرویہ ( Sarcastic attitude) کروٹیں بدلتا رہتا ہے اور معنوی صورت گری کا ابہامی نقشہ سامنے آتاہے:
یہ جو ہر سمت ترے نیزے کی شہرت ہے بہت
سچ تو یہ ہے کہ مرے سر کی بدولت ہے بہت
امیر شہرکی دستار نوچ کیا لیں گے
یہ لوگ اپنے سروںکو بچانے لگ گئے ہیں
یہاں رہتے ہیں سر سجدوں میں دائم
یہاں دیتا نہیں کوئی اذانیں
پہلے دواشعار میں تو شعری کردار طنز آمیز ملائم لہجے میں اور کچھ حد تک مدھم احتجاجی لے میں اپنے حریف جوکہ طاقت کے نشے میں چور ہوکر سوچتا ہے کہ ہر طرف اس کے نیزے(ظلم و تشدد یا دبدبہ) کی شہرت ہے‘ کے غرور کو یہ کہہ کرللکار رہا ہے کہ تمہارے گھمنڈ اور شہرت کا احسان تو میری خودداری کا مرہون منت ہے۔ اگر تمہارے نیزے کا مقابلہ میرا سر نہیں کرتا تو تیری شہرت کا نام ونشاں تک نہیں ہوتا۔ اسی طرح دوسرے شعر میں فرضی کردار اپنے خوددار سر کی بجائے دوسرے لوگوں کے بزدلانہ کردار یا کمزور سروں پر طنز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ امیر شہر کے دستار کو نوچنے کی بات چھوڑیئے یہ لوگ توخود کے سروں کو بچانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں ۔ اس طرح سے اگرچہ مذکورہ دونوں اشعار میں غیر ابہامی رویہ (Anastigmatic attitude) موجود ہے تاہم تیسرے شعر کا متن مثبت اور منفی احساس کے ابہامی یا ذومعنی تاثر ( Ambiguous Imprssion ) کا حامل ہے جو کہ قولِ محال (Paradox) کی اچھی عکاسی کرتا ہے:
یہاں رہتے ہیںسر سجدوں میں دائم
یہاں دیتا نہیں کوئی اذانیں
مابعد جدید تنقیدی مکالمے (Post Modern Critical Discourse) کے پیش نظر شعر کی معنویت پر غور کریں تو شعر کا پہلا لفظ’یہاں‘ (تابع فعل)اشارۃََ شاعر کے اپنے سماجی ماحول کی عکاسی کرتا ہے یعنی کشمیر کے امن پسند ماحول کی‘چونکہ کشمیر اپنی مہمان نوازی اور امن پسند ی کی بدولت’’ پیروں فقیروں ‘ ریشی منیوں‘‘ کی وادی کہلاتا ہے(اگرچہ گردش زمانہ نے اب ماحول میں بھی نئی گردش لائی ہے)تو شعر کا پہلا امکانی معنی یہ نکلتا ہے کہ یہاں کے لوگ ہمیشہ اپنے سروں کو ندامت اور عجز سے جھکائے رہتے ہیں نہ کہ تکبر و غرور کے لہجے میں بات کرتے ہیں ۔ایک طرح سے بین المتن (Inter text) تصوف پسند فکر بھی موجود ہے تاہم شعر کے دوسرے معنی طنز (Irony) کی بھی اچھی عکاسی کرتا ہے کہ یہاں کے لوگ سر جھکا کرچلنے کے عادی ہیں کیونکہ ان کی فطرت آمنا وصدقنا یا آنکھیں بند کرکے ہر بات کو تسلیم کرنے کی عادی ہوچکی ہے اس لئے یہاں کی فضا انقلاب آفریں آوازوں یا نعروں سے محروم ہوچکی ہے۔شعر میں لفظ ’’ اذانیں‘‘ اپنے اصلی معنی سے نکل کر مرادی معنی کی صورت میںبغاوت یا انقلابی آواز کا استعارہ بن گیا ہے۔اس توضیح کے باوجود شعر کی یہ فنی و موضوعاتی معنویت خوشگوار تاثر چھوڑ جاتی ہے کہ اس کا معنوی اطلاق کسی بھی جگہ یا مقام کی موزوں صورتحال پر ہوسکتا ہے۔
شعر وفکشن کی تخلیق کا مدار فکروفن (Art And Thought) کے امتزاجی ملاپ پر ہوتا ہے اورفکر وخیال کے تخلیقی برتاؤ کاہنرکسی بھی تخلیق کار کے اسلوب کو سنوارنے میں نعمت ِعظمیٰ کی حیثیت رکھتا ہے۔اسلوبیاتی تنقید میں کسی بھی متن کے (خصوصاََ شعری و افسانوی متن) ساختیاتی رچاؤ میں تخلیق کار کا اسلوبیاتی اظہار (Stylistic Expression) بڑی اہمیت رکھتا ہے اور دوران تجزیہ شعری متن کے صوتی و لفظی‘ساختی و نحوی اور فنی و معنوی لوازمات پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے۔ان لوازمات کے زیر نظر رفیق راز کی شاعری صوتی و لفظی‘ساختی و نحوی اور فنی و معنوی خوبیوں کی عمدہ مثال پیش کرتی ہے۔ان کا شعری متن نادر اور اچھوتی لفظیات اور ترکیبوں سے مزین ہیں جیسے شعلۂ حنا‘نافۂ شعور‘ رمیدہ ہوا ‘ دشتِ خاموش‘تحفۂ حیرت‘سیہ سکوت‘ صحرائے سیاہ‘ شہر ِذات‘ آئینۂ افسوں‘مصحفِ ذات سبزہ ٔ پامال‘دیدۂ شیر وغیرہ اوران ہی تراکیب کی وجہ سے کئی اشعار علامتی روپ اختیار کرگئے ہیں۔ غالباََ اپنے کلام میں ان ہی نادر ترکیبوں اور علامتی اسلوب کی موجود گی کی جانب شاعر اشارہ کرتا ہے::
کسی پہ حال ہمارا کھلے تو کیسے کھلے
غزل ہی کہتے ہیں بے حد علامتی ہم لوگ
ہمارا طرز بیاں ہے الگ ‘ جدا اسلوب
سخن کے شہر میں کتنے ہیں اجنبی ہم لوگ
’’نخل آب‘‘ کی بیشتر غزلوں میں مذکورہ خصائص کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتااور فکری و فنی طور پہ کسی بھی معاصر قادر الکلام شاعر کے کلام کے سامنے بطور مثال پیش کی جاسکتی ہیں۔ان خصوصیات کے باوجو د بحیثیت قاری چند محسوسات کا اظہار نامناسب نہیں ہوگا۔چونکہ آج کی دنیا’ گلوبل ولیج‘کہلاتی ہے اور اب شعر وادب کا قاری محدود خطہ تک محدود نہیں رہا بلکہ آج کل سوشل میڈیا اور ای بک وغیرہ جیسے جدید اور اہم برقی وسیلوں کی بدولت کسی بھی زبان کا تخلیق شدہ یا ہورہے ادب کا موادراست اور ترجمہ شدہ صورت میں بہ آسانی دستیاب ہے‘ تو آج کا قاری بدلتی صورتحال کے پیش نظر زیادہ تر وہ ادب پسند کرتا ہے جو کسی خاص علاقے کی سیاسی وسماجی ‘تہذیبی و ثقافتی صورتحال کی عکاسی کرتا ہواور اس میں مذاحمتی یا احتجاجی ادب کا رجحان توانا نظر آتا ہے ۔اس تعلق سے دیکھیں تورفیق راز کے زیر مطالعہ مجموعے میں چند ہی ایسی مثالیں نظر آتی ہیں جو مذاحمتی یا احتجاجی ادب کے زمرے میں آسکتی ہوں جیسا کہ کشمیر میںتین دہائی کی پُر آشوب زندگی کی عکاسی درجہ ذیل درد بھرے اشعار میں نظر آتی ہے:
جن لبوں پر کبھی روشن تھے صداؤں کے چراغ
ان پہ اک جوئے خموشی بھی رواں دیکھئے گا
صبح کشمیر بھی ہے شام غریباں جیسی
ایک دو دن کے لئے آکے یہاں دیکھئے گا
نوک خنجر پہ یہ تارے یہ گل تر یہ چراغ
دیکھئے ان کو بھلا اور کہاں دیکھئے گا
چونکہ ایک ادیب کا یہ اخلاقی‘ادبی اور سماجی فریضہ ہے کہ وہ اپنے معاشرے کی زمینی صورتحال کو قلم بند کرکے دوسری اقوام یا نئی نسل تک پہنچائے ۔آج جب ہم بلیک لٹریچر یا مذاحمتی ادب پڑھتے ہیں تو ہی نیگرو اور فلسطین وغیرہ کی زمینی صوتحال سے واقف ہوجاتے ہیں۔ایک اور مسئلہ یہ بھی نظر آیا کہ یہ مجموعہ غزلیات پر مشتمل ہے۔اس میں قریباََ۱۲۵غزلیں شامل ہیں‘ اور اردو غزل کا اپنا ایک فنی و ثقافتی مزاج ہے جس میں سریلی لے (Melodious tune) کی اتنی اہمیت ہے کہ اردو کے علاوہ غیر اردو خواں کی سماعتوں میں بھی رس گھول دیتی ہے اور وہ بھی میرؔ وغالبؔ وغیرہ کی غزلوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں‘تو اس مجموعہ کی غزلیات میں سریلی لے یا غنائیت کی یہ کیفیت خال خال ہی محسوس ہوتی ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کلام راز پرفلسفیانہ افکار کا غلبہ نظر آتا ہے اور اس نے سنگلاخ زمینوں کو زیادہ برتا ہے انہوں نے کچھ غزلیں ان بحور میں بھی لکھی ہیں جن کو عام طور پر شاعرچھوتے تک نہیں اور ایسی بحور غیر شگفتہ ہی ہوتی ہیں ۔بہرحال ان ضمنی باتوں کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ راز صاحب کا کلام فنی تکمیلیت کی اس منزل پر کھڑا ہے جہاں عمومیت کے برعکس انفرادیت کے پھول نظر آتے ہیں اور جو تفہیم و تعبیر سے قاری کی طبعیت کو مہکا رتے ہیں ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ راز صاحب کی شاعری ان کے اس شعر کو سچ ثابت کرے گی۔
ہمیں وہ سلطنت حرف کے شہنشہ ہیں
رفیق راز ہمار ا ہی نام ہے سائیں
(ختم شد)
���
وڈی پورہ ہندوارہ، کپوارہ
موبائل نمبر؛7006544358