واٹس ایپ گروپس میں رزلٹ آنے کا زبردست چرچہ تھا اورمحلے میں بھی شور تھا کہ رزلٹ نکل گیا ہے۔رزلٹ کا نام سنتے ہی حمید کے دل ودماغ پر عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی۔ اُسے تو اپنا رول نمبر تک یاد نہیں آرہا تھا۔ اور تو اور ایڈمیٹ کارڈ کے علاوہ وہ پرچی بھی نہیں مل رہی تھی جس پر اُس نے یاداشت کے لئے اپنا رول نمبر لکھ رکھا تھا۔ نام سے رزلٹ سرچ کرنے لگا تو ایک لمبی فہرست نکلی۔ کافی تلاش کرنے کے بعد اسے اپنا اور اپنے والد کا نام نظر سے گزرا تو جیسے اُس پر قیامت ٹوٹ پڑی ہو۔وہ زور زور سے چیخنے لگا۔ اس کی چیخیں سن کر والدین دوڑتے ہوئے اس کے کمرہ میں داخل ہوئے۔
’’ کیا ہوا بیٹا، تمہیں کیا ہوا تم خیریت سے تو ہو ''
حمید نے سسکیاں بھرتے ہوئے بولا میں بری طرح سے فیل ہو چکا ہوں۔ میں نے تو سارے پرچے خوب سے خوب تر کئے تھے۔ پھر یہ میرے ساتھ کیا ہوا۔۔۔؟؟۔۔۔۔۔۔! کاش میں نے بھی نقل کا سہارا لیا ہوتا توآج یہ نوبت نہیں آتی۔ میں اپنے یار دوستوں کو کیا منہ دیکھائوں گا۔ میری وجہ سے آپ لوگوں کی بھی بد نامی ہو گی۔ مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔ مجھے چھوڑ دو۔
حمید کی ماں نے جلدی سے دروازہ اندر سے بھی بند کردیا اور باپہ اُسکے ہاتھ پکڑ کر اُسے نیچے بٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔ آخر کار زیادہ عاجز ہونے پر حمید کو ایک زور دار طمانچہ رسید کرتے ہوئے بولا۔۔
’’ تھامس ایڈیسن جیسی شخصیت تو کئی بار میٹرک میں ناکامیاب ہوئی تھی ،تو کیا انھوں نے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو یا تھا ؟انہوں کبھی نقل کا سہارا لیا تھا ؟ اس سے تو فیل ہونا اچھی بات ہے۔ نہ جانے تم جیسے کتنے نادان بچے ایسی حرکتیں کرتے ہیں ۔ زندگی ایک ایسا تحفہ ہے، جس کا مول کوئی بھی ادا نہیں کرسکتا ۔ جو صرف ایک بار ملتی ہے اور مواقع ہزار ہا فراہم کرتی ہے۔ کہتے ہیں نا ۔ناکامی کامیابی کا پیش خیمہ ہے، لہٰذا ہر ناکامی کوئی نہ کوئی بڑا درس دے جاتی ہے ۔جو ہمت سے کام لیکراس خامی کو دور کرتا ہے وہی انسان کامیاب شخصیات میں شمار ہوتا ہے۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے حمید کے والد نے موبائل کو دیکھا۔ ’’ارے جو نام تم دیکھ رہے ہو انکا ایڈرس تو یہاں کا نہیں ہے اور عمر بھی کچھ زیادہ لگ رہی ہے۔‘‘
کیا؟؟؟
’’ہاں ''
حمید نے موبائل کو غور سے دیکھا ''ابو مجھ تو لگا یہ میرا ہی نام ہy''
’’بیٹا جلدی کا کام شیطان کا ۔کسی بھی فعل میں جلدی اچھی بات نہیں ہوتی۔''
’’ہاں ابو اب یاد آیا میں نے پر چی اسکول بیگ میں رکھی تھی۔ ''
جوں ہی حمید نے موبائل پر رول نمبر لکھا موبائل کا سوئوچ آف ہو گیا۔
’’انتظار موت سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے ‘ ‘ حمید نے ساری رات آنکھوں میں کاٹی اور سویرا ہوتے ہی بورڈ آفیس چلا گیا ۔
’’سر مجھے اپنا رزلٹ دیکھنا ہے‘‘
’'بیٹا ابھی ہمارے ضلع کا رزلٹ نہیں آیا ہے ‘‘
’’سر کب تک آئے گا ‘‘
’’ابھی کچھ پتہ نہیں ہے ''
’’لیکن سر ہمارے امتحان تو ایک ساتھ ہوئے تھے اور ایک ساتھ ختم بھی ہوئے تھے تو پھر رزلٹ ایک ساتھ کیوں نہیں نکلتا ہے‘‘
’’بہت دور ہے نا ہمارا ضلع بیٹا اس لیے‘‘
’’انٹرنیٹ کے دور میں بھی دوری کیسی سر ‘‘
’’مجھے لگتا ہے کہ آپ کو کہیں دیکھا ہے‘‘
’’ہاں سر آپ نے مجھے آٹھویں جماعت میں سارے ضلع میں اول پوزیشن حاصل کرنے پر ایواڈ اور سرٹیفیکیٹ سے نوازاتھا۔ ''
’’ہاں ہاں اب مجھے یاد آیا۔ مجھے امید ہے کہ اس سال بھی آپ پوزیشن حاصل کرو گے اور اپنے ڈسٹرک کا نام ریاست بھرمیںروشن کرو گئے۔ ''لیکن سر پوزیشن کا اعلان تو ہو چکا ہے''
’’یہ سن کر بورڈآفیسر چونک سا گیا اور من ہی من میں کچھ بڑبڑانے لگا۔۔۔۔۔۔۔
رابطہ؛دراس کرگل ,موبائل نمبر؛9797144538