رحمتیں قدم قدم

’’عہد ِاَلست‘‘ کے وقت اللہ تعالیٰ نے انسان سے اپنی ربوبیت کا اقرار لیا اور اس ربوبیت کا مادی اظہار اگرچہ رحم مادر ہی میں ہونا شروع ہوجاتا ہے لیکن ان دونوں سطحوں کا احساس اس ابتلاء اور آزمائش کے لئے محو کیا جاتا ہے، جس سے گزار کر انسان کو ابدی دنیا کی طرف منتقل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ منفرد (روحانی) شخصیت کا عطا کیا جانا بھی اللہ تعالی کی ربوبیت پر منحصر ہوتا ہے، لیکن رحم مادر میں روح اور بدن کا اتصال ہوتے ہی انسان پر خدا کی محسوس مادی نعمتوں کا فیضان ہونا شروع ہوتا ہے۔ پھر مختلف مراحل سے گزار کر انسان کا ’’بے بس محض ‘‘کی صورت میں آنکھ کھولنا اس ربوبیت کا ٹھوس شکل میں اظہار ہے۔
دنیا میں آتے ہی انسان خدا کی رحمت کی تلاش میں ماں کی چھاتی سے لگ جاتا ہے اور ماں کی مہربان گود کو ہر طرح کے آرام کے لئے حاضر پاتا ہے۔ گہوارہ جو دراصل ماں کی گود کی ہی توسیع ہوتا ہے، بھی حقیقت میں اس اتھاہ گہوارے کا تعارف ہوتا ہے جو انسان کو سطح زمین عطا کرتی ہے۔ تازہ ہوا کے جھونکے، میٹھے پانی کی دھاریں، آفتاب کی صحت بخش تمازت، ماہتاب کی نورانی تجلیات، پھلوں سے جھکی بیلیں، سبزہ زاروں کا مخملی فرش، لالہ زاروں کے رنگ برنگے پھول، آبشاروں کا دلربا سماع، جانوروں کے ذریعے بہائی جانے والی دودھ کی ندیاں، غرض انسان کے مادی، عقلی، جمالیاتی، اخلاقی اور نفسیاتی وجود کو مکمل نشوونما فراہم کرنے والے عوامل پہلے سے حرکت میں ہوتے ہیں اور اس کا دنیا میں آتے ہی والہانہ استقبال ہوتا ہے۔
اس طرح اگر بلا کسی تشبیہ کے لاتعداد عوامل کے انسان کے لئے مسخر کیے جانے کا تقابل مشرقی معاشروں میں دولہے کو ملنے والے استقبال سے کیا جائے تو حقیقت کو سمجھنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔ خدا کی طرف سے مہیا رکھی جانے والی یہ رحمتیں اور نعمتیں (عام طور پر) دفینوں اور خزینوں کی صورت میں نہیں رکھی گئی ہیں۔ انہیں ہر لحظہ اور ہر پل بدلنے والی رت کے ساتھ بدلا جاتا ہے اور انہیں مسلسل تجدید کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ اس سے زمین ہر آن متحرک رہتی ہے اور کارخانہ حیات کی ہر کل زنگ آلود ہونے سے بچ جاتی ہے۔ ساتھ ساتھ انسان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ کس طرح کل حیات اپنی تکمیل کی طرف رواں دواں ہے۔ اس تغیر و تبدل کے ذریعے انسان کو یہ سبق بھی دیا جاتا ہے کہ اگلی دنیا میں اس کا دوبارہ اٹھایا جانا اسی طرح کا ایک عمل ہے جو خدا کے نزدیک زمین و آسمان کی تخلیق کے مقابلے میں نہایت آسان ہے، جس کے لئے انسان کا متعجب ہونا بے جا ہے۔
غرض انسان کے شب و روز کے معمولات اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے زیر سایہ وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان رحمتوں کو انسان کسی صورت میں نظر انداز نہیں کرسکتا۔ تاہم آزمائش کی خاطر انسان کو جو آزادی ملی ہے، اس کا انسان غلط استعمال کرکے ان رحمتوں کو خاطر میں نہیں لاتا اور ’’ظلوم و جہول ‘‘ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ تاہم حسن عمل کے لئے انسان کو جو ڈھیل دی جاتی ہے، اس کی غلط تعبیر کرکے انسان اپنے آپ کو شتر بے مہار بنادیتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ پردہ غیب میں رہ کر کس طرح اپنی رحمتوں کو جاری فرماتا ہے، اس کو سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے پورے ’’تخلیقی منصوبے‘‘کو سمجھنا از حد ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ہم ایک تمثیل کا سہارا لیکر بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ جس طرح ایک صنعت کار اپنے کارخانے کی عمارات کھڑا کرنے کے بعد ایک راہنما تختی (سائن بورڈ) لگاکر اپنے کارخانے کا تعارف دیتاہے، (بلا کیف ولا تشبیہ) اسی طرح رب کائنات نے کائنات کی تخلیق کے بعد اپنی رحمت جاری کرتے ہوئے اپنے ربانی منصوبے کا تعارف اس طرح دیا ہے: ’’جب اللہ نے اپنی مخلوق کو پیدا کرنے کا فیصلہ فرمایا تو اپنی کتاب میں، جو اللہ کے پاس رکھی ہوئی ہے، اس میں اپنے اوپر یہ لازم فرمایا (کہ) بلاشبہ میری رحمت میرے غضب اور انتقام پر غالب ہوگی۔‘‘ (حدیث قدسی بروایت مسلم)
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان سے فطرت میں پھیلائی گئیں خدا کی رحمتوں سے مستفید ہونے کے لئے نہ کسی قسم کا قول و قرار (بانڈ) لیا گیا ہے اور نہ ہی اس کے عوض انسان سے خدا کا شکر گزار بننے کے لئے کسی طرح کا جبر اختیار کیا گیا ہے۔ حتی کہ جب ابوالانبیاء، سیدنا ابراہیمؑ نے اپنی مشہور دعا میں خدا کی طرف سے رزق (رحمت، نعمت، فضل، خیر) کی فراوانی کے لئے صاحب ایمان (شکرگزار) ہونے کی شرط جوڑ دی، تو اللہ تعالی نے اپنے منصوبے کو اس طرح واضح فرمایا: ’’جب ابراہیمؑ نے کہا، اے پروردگار! تو اس جگہ کو امن والا شہر بنا اور یہاں کے باشندوں کو جو اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں، پھلوں کی روزیاں دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں منکروں کو بھی (دنیا کا) تھوڑا فائدہ دوں گا۔‘‘ (البقرہ: 125-126) یعنی رحمتوں میں سے مومن اور منکر دونوں حصہ پاتے ہیں۔ اس سے ایک تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایمان لانے کے لئے انسان کو مکمل آزادی دی گئی ہے اور دوسرا اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ایمان لانے کے لئے عقلی استدلال کی کتنی زیادہ اہمیت ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جسے دنیاوی رحمتیں ملیں اس سے رب تعالیٰ راضی بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اس بارے میں صاف اعلان فرماتا ہے کہ ’’وہ اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لئے پسند کرے گا۔‘‘ (الزمر: 7) تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری سے رحمتوں میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور برکت بھی۔ (ابراہیم: 7) لیکن جب بندہ حقیقی معنوں میں خدا کا شکرگزار بنتا ہے، تو وہ خدا کا محبوب بنتا ہے اور اسے دین کی دولت سے نوازا جاتا ہے، کیونکہ ’’(وہ) دین پر چلنے کی توفیق صرف ان کو دیتا ہے جن سے اس کو محبت ہوتی ہے۔‘‘ (مسند احمد)
خدا کی رحمت کے اس فیض عام سے ایک بات اور ذہن نشین ہوجاتی ہے کہ اس سے بندے کے لئے ہر دم توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹنے کے امکانات باقی رہ جاتے ہیں۔ رحمتوں کی یہی عمومیت کبھی خدا کے ناشکرے بندے کو بھی غوروفکر کرنے کے لئے تیار کرتی ہے اور وہ ’’ظاہری رحمتوں‘‘سے گزر کر ’’حقیقی نعمتوں‘‘یعنی ہدایت کا خواستگار بن جاتا ہے، کیونکہ کوئی بھی انسان ’’آپ بنایا‘‘ (سیلف میڈ) نہیں ہوتا، بلکہ اپنی اپنی شطح پر ہر کوئی ’’خدا بنایا‘‘ (گاڈ میڈ) ہی ہوتا ہے! یہ دوسری بات ہے کہ مختلف لوگ اس حقیقت کو اپنی اپنی افتاد طبع کے مطابق ہی بیان کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ سورہ الفاتحہ میں کس طرح اللہ تعالی کی رحمت کا احاطہ کرنے والے دو صفاتی ناموں یعنی ’’الرحمن ‘‘اور ’’الرحیم‘‘ کو ’’رب العالمین‘‘کی تشریح اور توضیح کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے تحت بندے کو اس کی رحمتیں وافر مقدار (رحمن بوزن فعلان) میں بھی مل رہی ہیں اور مسلسل بھی (رحیم بوزن فعیل)۔ تاہم اللہ تعالیٰ کا مخلص بندہ ان تمام نعمتوں کے حصول کے بعد بھی اس نعمت کا متمنی ہوتا ہے جس سے ان نعمتوں کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ خدا کی تحمید کے بعد بندہ بڑے ہی سوزوگداز کے ساتھ ہدایت کی ’’نعمت عظمی ‘‘کی دعا کرتا ہے، جو اصل میں اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص ہے اور جس کا فیضان ہمیشہ اللہ تعالی کے خاص بندوں (انعمت علیھم) پر ہوتا رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اس بحر ناپیدا کنار کو ایک حدیث میں بڑے ہی دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالی نے رحمت کے سو حصے بنائے ہیں، جن میں سے اس نے ننانوے حصے اپنے پاس رکھ لیے اور ایک حصہ زمین پر نازل کیا۔ ساری مخلوق جو ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے اسی ایک حصے کی وجہ سے ہے، یہاں تک کہ گھوڑا جو اپنے بچے کے اوپر سے اپنا پاوں اٹھاتا ہے کہ کہیں اسے تکلیف نہ پہنچے وہ بھی اسی ایک حصے کے باعث ہے۔‘‘(متفق علیہ) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ رحمتیں ہمیشہ اللہ تعالی کی طرف سے ہی جاری ہوتی ہیں، لیکن خاص مواقع پر خاص وجوہات کے تحت خدا کی رحمتوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جوش میں آتا ہے اور مخلوق کو مادی اور روحانی طور پر سرشار کرتا ہے۔ قرآن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ کسی قوم (جماعت) کی اجتماعی توبہ (جیسے قوم یونسؑ) یا کسی فرد کا بے بسی کی حالت میں مخلصانہ دعا (النمل: 62) کرنا اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کو انسان کے ضعف کا بخوبی علم ہے، اس لئے اس کی رحمت ہر آن اس کو سہارا دینے کے لئے تیار ہوتی ہے۔ بس دیر اس بات کی ہوتی ہے کہ بندہ کب اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں راز و نیاز کے لئے تیار ہوجائے۔ اس ضمن میں رب تعالیٰ نے پیشگی اعلان کررکھا ہے: ’’تمہارے رب نے مہربانی (رحمت) فرمانا اپنے ذمہ مقرر کرلیا ہے کہ جو شخص تم میں سے برا کام کر بیٹھے جہالت سے پھر وہ اس کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح رکھے تو اللہ (کی یہ شان ہے کہ وہ) بڑی مغفرت کرنے والا بڑی رحمت والا ہے۔‘‘ (الانعام: 54)
اس طرح یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے منصوبہ تخلیق میں جو ابتلاء اور آزمائش کا بنیادی عنصر پنہاں رکھا ہے، اس کے تحت خطاکاروں کو عموما’’ ڈھیل دی جاتی ہے۔ اس مدت میں اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے خوب متمتع ہوکر یہ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ دنیا میں ظلم و عدوان اور سرکشی کا ہی بول بالا ہے۔ تاہم ایسا خیال کرنا محض سرکشوں کی کج فہمی ہوتی ہے، کیونکہ وہ لوگ اس ڈھیل کے پیچھے اصل امتحان کو بھانپنے میں ناکام رہتے ہیں۔ دراصل رب تعالیٰ اپنے بندوں کو دی جانے والی مہلت سے ان خوش نصیب افراد کو چھانٹ لیتا ہے جو اس کی رحمتوں کی قدروقیمت پہچان کر ابدی رحمتوں کو اپنے لئے خاص کرلیتے ہیں۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے: ’’اگر لوگوں کے گناہ پر اللہ تعالیٰ ان کی گرفت کرتا تو روئے زمین پر ایک بھی جاندار باقی نہیں رہتا، لیکن وہ تو انہیں ایک وقت مقرر تک ڈھیل دیتا ہے۔‘‘ (النحل: 61) اور جو افراد نعمتوں کے قدرداں بن کر منعم حقیقی تک پہنچنے کی سعی کرتے ہیں، ان کے لئے اللہ تعالیٰ اپنی ابدی نعمتوں کا یوں وعدہ فرماتا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اپنا عذاب اسی پر واقع کرتا ہوں جس پر چاہتا ہوں اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے۔ تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘ (الاعراف: 156)
الغرض دنیاوی رحمتیں دراصل اخروی (ابدی) رحمتوں کا ایک ادنی سا تعارف کراتی ہیں۔ لیکن عارضی اور بے ثبات نعمتوں کو لافانی نعمتوں سے جوڑنے والی نعمت اللہ تعالی کی طرف سے آنے والی ہدایت (قرآن) ہے جو ’’تمام انسانوں کے لئے نصیحت اور شفاء ہے، جبکہ مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔‘‘ (یونس: 57) چونکہ اس رحمت کو بے کم و کاست انسانیت تک پہچانے کا کار عظیم رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انجام دیا، اس لئے آپ ؐ کو اللہ الرحمن و الرحیم نے ’’رحمت اللعالمین ‘‘کا خطاب دیا۔ کتنے دلکش تھے وہ دعائیہ کلمات (پرائر) جو ہم میں سے اکثر اپنے اسباق شروع کرنے سے قبل ترنم میں پڑھتے تھے
آغاز تیرے نام سے اے کارساز دو جہاں
   رحمت تیری سب سے سوا، تو سب سے بڑھکر مہرباں
رابطہ9858471965