معاشرے میں مجموعی طور پر رمضان میں فضائل پروان چڑھتے ہیں اور رزائل کم ہو جاتے ہیں۔فقیروں،لاچاروں،غریبوں اور مسکینوں کی دادرسی کا جذبہ(emotion)بڑھ جاتا ہے۔مسلمان’’اے خیر کے طالب آگے بڑھ‘‘ کو عملی جامہ پہناتے ہویے نظر آتے ہیں اور ان کے نزدیک ایک ایک سیکنڈ کی قدروقیمت بڑھ جاتی ہے۔ان کے وجود سے اچھے اچھے اعمال کا ظہور ہوتا ہے اور معنوی(virtual)خرابیوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینے سے ان کی قیمت دوبالا ہو جاتی ہے۔مسلمان اپنے نصب العین سے قریب تر نظر آتے ہیں اور اپنے روحانی وجود کو جسمانی وجود پر غلبہ پانے میں کافی حد تک کامیاب نظر آنے لگتے ہیں۔اس ماہِ مبارک میں مسلسل عبادت سے قساوت قلبی کا قلع قمع(annihilation) کر کے انسان روحانی سکون سے مستفیض ہوتا ہے۔انسان انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف از خود کوچ کرنے لگتا ہے اور اپنے وجود پر خلافت کا نظام لاگو کرنے میں بڑی حد تک کامیاب نظر آنے لگتا ہے۔المختصر معاشرہ میں چاروں طرف نیکیوں کا سماں چھا جاتا ہے،جس کی وجہ سے مسلم معاشرہ کسی حد تک ایک مثالی معاشرہ بن جاتا ہے۔
یہ باتیں اگرچہ مستحسن(approved) ہیں لیکن ماہِ رمضان کے بعد ان باتوں کا نظروں سے اوجھل دیکھ کر ہمارا دماغ خود بخود یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر یہ کیوں ہوا؟عید کے بعد’’جزوی مسلمان‘‘کی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے کہ جو رمضان ختم ہونے کے بعد ہی اپنی گردن سے عبدیت کا قلادہ نکال کر اپنے آپ کو شیطان کے حوالے کر دیتا ہے۔کل تک وہ اعمال کو وقت کی پابندی سے ادا کرتا تھا لیکن اچانک اب اس کی نظروں میں ان کی کوئی اہمیںت ہی باقی نہیں رہتی۔ اعمال کا جذبہ ایک مہینے کے بعد ہی سرد پڑ جاتا ہے،یہ روحِ دین کے ساتھ مزاق سے کم نہیں ہے جبکہ اللہ تعالٰی مسلمانوں کو ہرلمحہ اور ہرآن اپنے رنگ میں رنگتے ہویے دیکھنا چاہتا ہے۔قرآنِ پاک میں اس کا تذکرہ ان الفاظ میں دیکھنے کو ملتا ہے:
’’اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اللہ کے رنگ سے کس کا رنگ اچھا ہے۔‘‘(البقرہ،138)
رمضان المبارک تقویٰ(piety) کے لیے ایک موزوں مہینہ ہے اور قرآن میں روزوں کا بنیادی مقصد تقویٰ ہی کو بتلایا گیا ہے۔اس لیے رمضان المبارک میں اگر یہ قیمتی شئے ایک مسلمان کو مل گئی تو رمضان کے بعد اسے اس کی حفاظت کرنی چاہئے۔کیونکہ تقویٰ کی بدولت ہی ایک انسان طاعات میں سرگرم رہتا ہے اور منہیات سے پہلو تہی اختیار کرنے کا خوگر ہوتا ہے۔اسلامی اخلاقیات کی عمارت میں ایمان اور اسلام کے بعد تقوٰی ہی کو گاڑنا(inter) پڑتا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے حاصل کرنے کے بعد یہ دولت چھن جایے اور بندے کا معاملہ اس شخص کی طرح ہو جایے جو ہر سال رمضان میں ایک مضبوط عمارت کی بنیاد تو رکھتا ہے لیکن رمضان کے بعد اسے خود اپنے ہاتھوں ہی منہدم کر دیتا ہے۔اس شخص کی یہ بیک وقت تعمیری اور تخریبی عمل پر قیاس کر کے اس کے ہاتھوں قیامت کی صبح تک ایک چھوٹی سی عمارت کا تعمیر ہونا حقیقت کے برخلاف ایک خواب ہی باقی رہ سکتا ہے۔قرآن کریم نے سورۃ النحل میں اس کردار کی وضاحت کرتے ہویے بیان کیا ہے ’’اس عورت کی طرح نہ ہوجائو جس نے توڑ ڈالا اپنے سوت کو مضبوط کاتنے کے بعد اور تارتار کر ڈالا‘‘
رمضان المبارک کی وجہ سے اگر ایک بندے کو تقویٰ شعاری کے حصول میں مدد فراہم ہوئی تو رمضان کے بعد اس چیز کی حفاظت کے لیے مزید ہوشیاری کی ضرورت ہے۔کیونکہ ایک انسان کی لمحہ بھر کی بے احتیاطی اس کو دوبارہ کنگھال بنا سکتی ہے،اس کا ازلی دشمن اسی فراق میں ہے کہ کب اسے یہ دولت چھین لے۔تقویٰ کی دولت ہی حقیقت میں ایک مومن کا قیمتی سرمایہ( asset costly) ہوتا ہے،اس دولت کا ایک ذرہ بھی اگر مومن کے ہاتھوں سے چلا جایے تو ساری دنیا کو بیچ دینے کے بعد بھی واپسی میں اس کی تلافی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
مومن کی ساری زندگی صبر سے عبارت ہے اور مومن کی زندگی کا کوئی گوشہ بھی ایسا نہیں جہاں صبر کا نور دمک نہ رہا ہو۔رمضان المبارک کو’’شہر صبر‘‘کے نام سے بھی جانا جاتا ہے یعنی یہ مہینہ بندہ مسلم کے وجود میں صبر کو مزید پروان چڑھانے میں ایک کلیدی رول ادا کرتا ہے۔ یہ لفظ پوری زندگی کو محیط ہے اور رمضان المبارک میں مزید نشوونما(progress) ملنے پر ماہِ رمضان کے بعد اسے مزید دوام بخشنے کی ضرورت ہے۔
شہر صبر کے ساتھ رمضان المبارک کو’’شہر المواسات‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے یعنی یہ ہم دردی،غم خواری،رحم دلی اور خویے دلنوازی کا مہینہ ہے۔یہ ماہ ایک تربیتی مہینہ ہوتا ہیکہ جس میں ایک بندے کو بھوک،پیاس اور دوسری صعوبتیں(hardships) برداشت کرکے مشق کرائی جاتی ہے تاکہ اسے ان لوگوں کا احساس پیدا ہو جایے جو سال بھر انہی مصیبتوں میں آگھیرے ہوتے ہیں۔اس ماہِ مبارک نے اگر ہمیں بندوں کے حقوق ادا کرنے کے جذبے کی حوصلہ افزائی کی تو ماہ بعد رمضان اس جذبے کو سرد پڑنے کی نوبت نہ آنے دینے پر ہی ایک حقیقی مومن کی اْخروی نجات کا دارومدار منحصر ہے۔
رمضان المبارک میں ایک مہینے کی مسلسل(continued) مشق کرائی جاتی ہے تاکہ صیام و قیام کے اثرات ہمارے وجود پر نقش ہو جائیں اور بعد ماہِ رمضان ان کا اظہار ہمارے اوپرصادر ہوں۔پس جو شخص باقی مہینوں میں شب وروز ان ثمرات کو دوام بخشنے میں کامیاب ہوا، اس نے واقعی طور پر روزوں کی روح کو پالیا۔ایک مہینے میں روزے کا مشقی کورس کراکے دراصل اللہ تعالیٰ ہمیں کسی بڑے مقصد کے لیے تیار کراتا ہے اور وہ مقصد ہماری زندگی کی غرض و غایت یعنی عبادتِ رب ہے۔لہٰذا رمضان المبارک میں مشقی کورس کو مکمل کر کے اس کی جھلک ساری زندگی پر منطبق(apply)ہونی چاہئے۔ ایک انسان کو ہر لمحہ اور ہر آن بندگی رب میں دیکھ کر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ اس کے روزے اور قیام الیل قبولیت کا درجہ پا چکے ہیں۔کیونکہ نیکی قبول ہوجانے کی علامت اس کے بعد بھی نیکی کا جاری رہنا ہے ،اور برائی کی سزا کی علامت اس کے بعد بھی برائی کرتے رہنا ہے۔
بدقسمتی سے بہت سے لوگوں کا یہ رویہ بن گیا ہے کہ رمضان ختم ہونے کے بعد ہی مسجد کو الوداع(farewell) کرتے ہیں،عبادت اور اطاعت کے کاموں سے بھی ہاتھ روک لیتے ہیں۔نہیں،ایسا نہیں ہونا چاہئے۔جس رب کو ہم نے تسلیم کیا ہے وہ اگر رمضان کا رب ہے تو شوال،ذوالقعدہ اور دیگر مہینوں کا بھی وہی رب ہے۔مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی معیت میں دائمی(unending) کے ساتھ چلنے میں ہی کامیابی پنہاں ہے۔اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہر زمانہ اور ہرحال میں ہونا چاہئے جس کا اشارہ ایک حدیث ِ پاک میں ان الفاظ میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ’’تم جہاں بھی ہو،اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔جن لوگوں کے ذہنوں میں تقویٰ کا حقیقی مفہوم محفوظ ہے،واقعی طور پر انہی لوگوں کا جینا اور مرنا اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہوتا ہے۔وہ دنیا میں چلتا پھرتا قرآن نظر آتے ہیں اور اللہ کی زمین پر اس قرآنی نظام کو غالب کرنے کے لیے وہ کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔وہ ماہِ مبارک کے ختم ہونے کے بعد ہی اب پھر سے دین ِ مبین کی خدمت میں لگ جاتے ہیں۔وہ حق کے راستے کو یقین والے ایمان کے ساتھ ہی چن لیتے ہیں اور آزمائشوں کے ٹھاٹھے مارتے ہوئے سمندر میں اپنی سفینہ(ship) کو کسی طرح ساحل تک پہنچانے میں ہی اپنے لیے ایک بڑی سعادت سمجھتے ہیں۔
ماہِ مبارک کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ بندہ مسلم تقویٰ شعار زندگی گزارنے کا عادی ہو اور بالآخر اسکا اختتام(ending) اسلام ہی پر ہو۔سورۃ اٰل عمران میں مسلمانوں کو یہی درس دیا گیا ہے کہ’’اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور نہ مرو تم مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو‘‘اس لیے حاصل کلام یہ ہے کہ اگر روزے اور شب بیداری انسان میں حقیقی تبدیلی نہ لا سکے تو یہ موسمی بخار تھا جو اتر گیا یا مذہبی فیشن تھا جو وقت کے ساتھ رخصت ہوگیا۔ لہٰذا ماہِ مبارک کے رخصت ہونے کے بعد ہی اب بندۂ مسلم کو احتساب کے عمل سے گزرنا چاہئے نہ کہ پایا ہوا کھونا چاہئے۔اور یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ خود احتسابی( introspection self) قوم کی بیداری کا پیش خیمہ ہوتا ہے اور جو قوم احتسابِ نفس کے عمل میں سرگرم رہتی ہے،وہی قوم دنیا میں بھی ایک طاقت بن جاتی ہے اور آخرت میں بھی اس کو پزیرائی ملے گی۔علامہ اقبالؒ نے ٹھیک کہا ہے کہ ؎
صورتِ شمشیر ہے دست ِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب