جے پور،//راجستھان اسمبلی انتخابات میں لیڈروں پر ذاتی الزام تراشیوں ، ذات پات اور مذہب کے معاملہ نے انتخابی ماحول کو گرما دیا ہے ۔انتخابی مہم کر رہے کانگریس اور بی جے پی کے رہنما ایک دوسرے کے اوپر ذاتی الزام لگانے لگے ہیں۔ ٹاپ رہنماؤں کے رویہ اور چال چلن کو بھی ایشو بنایا جا رہا ہے . وزیر اعلی وسندھرا راجے کا پارٹی صدر امت شاہ کے استقبال کرنے کے معاملہ کو بھی سابق وزیر اعلی اشوک گہلوت نے ایشو بنایا لیکن بعد میں انہوں نے معافی مانگ لی۔کانگریس صدر راہل گاندھی نے بھی وزیر اعظم کو بار بار ‘چوکیدار’ اور مسٹر مودی نے بھی مسٹر گاندھی کو ‘نامدار ’بتا کر ایک دوسرے کو کمتر ثابت کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے ۔ پنجاب حکومت میں وزیر نوجوت سنگھ سدھو نے ضلع الور کے کھیرتھل میں وزیر اعظم کے خلاف سطحی تبصرہ کیاجس کی کافی تنقید ہو رہی ہے ۔اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ بھی کانگریس لیڈروں پر ذاتی تبصرہ کرنے سے نہیں چوکے اور ھنومان جي کو انہوں نے انتخابی ایشو بنا دیا۔ ترقیات کے ایشو پر راجستھان کی انتخابی جنگ میں ذات پات، مذہب اور گوتر کو ایشو بنایا جا رہا ہے ۔ مسٹر گاندھی کے گوتر کو لے کر انتخابی چوپالوں پر کافی چرچائیں ہو رہی ہیں۔ وزیر اعلی وسندھرا راجے کو ‘مہارانی’ اور پبلک ریسٹ ہاؤسوں میں نہیں ٹھہر کرہوٹلوں اور محلوں میں ٹھہرنے والی ‘رانی’ بتا کر کانگریس نے ان پر کافی طنز کئے ہیں۔ مسز راجے نے اپنی شبیہ کو عام لوگوں سے جوڑنے کے لئے خود ہی یہ کہہ دیا کہ جمہوریت میں کوئی مہارانی نہیں ہوتی ہے ۔اس الیکشن میں کانگریس کی لیڈر سونیا گاندھی کے میدان میں نہیں اترنے پر اس بار غیر ملکی کا مسئلہ نہیں ہے لیکن ان کے بیٹے راہل کی آنکھوں پر اٹالین شیشے چڑھا ہونے کے الزام بی جے پی صدر امت شاہ جگہ جگہ لگا رہے ہیں۔انتخابات میں داغدار، باغی اور بیرونی امیدوار کا مسئلہ بھی نہیں گرما پایا بلکہ ہندوتو کے معاملہ پر دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کو آگے بتانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بی جے پی جہاں کانگریس کے ہندوتو کی راہ پر چلنے میں اپنی جیت مان رہی ہے وہیں کانگریس اسے سیکولرازم سے جوڑ رہی ہے ۔انتخابی میدان میں باغیوں کے ڈٹے رہنے سے دونوں پارٹیاں مشکل محسوس کر رہی ہے لیکن بی جے پی باغیوں کو ہٹانے کے معاملہ میں زیادہ فکر مند نظر نہیں آتی جبکہ کانگریس ایک ایک نشست کا حساب لگا رہی ہے ۔ مسٹر گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل نے باغیوں اور ناراض کانگریس لیڈروں کو آمادہ کرنے کے لئے حکومت بننے پر عہدہ دینے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔کانگریس لیڈر بی جے پی کے چھوٹے موٹے لیڈروں کو کانگریس میں شامل کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں جبکہ بی جے پی میں ایسی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آ رہی ہے . کانگریس نے بی جے پی کے مضبوط مانے جانے والے ووٹ بینک راجپوت برادری کو ٹارگٹ کرنے کی بھی پوری کوشش کی اور کرنی سینا جیسی تنظیموں سے کانگریس کے حق میں فتوی بھی دلوا دیا۔انتخابات میں بی جے پی کے بڑے لیڈروں کے خلاف کانگریس کے بڑے لیڈر کھڑے کرنے کی حکمت عملی بھی کافی کامیاب نظر آرہی ہے جبکہ کانگریس کے ریاستی صدر سچن پائلٹ کے سامنے بی جے پی کی ایسی حکمت عملی کا کوئی خاص اثر نہیں دکھائی دے رہا ہے ۔ مسٹر پائلٹ کے سامنے بی جے پی کے یونس خان خود کو تنہا محسوس کر رہے ہیں اور بی جے پی کا کوئی اسٹار پرچارک ان کے انتخابی حلقے میں اب تک نہیں پہنچا ہے ۔ بی جے پی مسلمان لیڈروں کو بھی پرچار سے دور رکھ رہی ہے جبکہ کانگریس کے مسلمان لیڈر اپنے اپنے علاقوں میں خوب دم خم لگا رہے ہیں۔تیسرے مورچے کا رہنما بن کر قومی جمہوری پارٹی کے ہنومان بینی وال ریاست کی اقتصادی پسماندگی کے لئے کانگریس اور بی جے پی دونوں کو ذمہ دار قراردے رہے ہیں۔