ذہنی صحت اور اس کی اہمیت ہر طبقے کےلئے اہم ہے۔ نوجوان طبقہ کے لئے اس کی اہمیت کو سمجھنا بہت ہی ضروری ہے۔لڑکپن سے لے کر نوجوانی تک کے مختلف مراحل میں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کسی نہ کسی قسم کے جذباتی مسائل یا نفسیاتی اُلجھن کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ذہنی، جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ماحول میں رونما ہونے والے واقعات و حالات جیسے غربت ، بے روز گاری ،بے یقینی جیسی صورتحال نوجوانوں کو ذہنی اُلجھنوںمیں دھکیل دیتے ہیں۔اپنی اس وادیٔ کشمیر پر نظر ڈالی جائے تو ہمارے معاشرہ میں گھٹن اور تنگ نظری کے عوامل کچھ زیادہ اثر دکھا رہے ہیں۔ہمارےمعاشرتی بگاڑ کا اثر براہ راست ہمارے رویوں پر پڑ چکا ہے۔ معاشرتی تفاوت، جھنجلاہٹ، حسد، بغض اور کینہ جیسی بیماریوں نے ہماری روز مرہ زندگی اور ہمارے رویوں کوبُری طرح متاثر کیا ہےاور مثبت سوچ ناپید ہورہی ہے۔کسی کے ساتھ بات کی جائےیا کسی سوشل تقریب میں جائیں، مایوسی پھیلانے والی باتیں ہی زیادہ ملتی ہیں۔ ہر کوئی اپنے حالات اورمعاشرتی صورتحال سے پریشان ہی نہیںبلکہ بد دل نظر آتا ہے،گویا ناشکری نے ہماری مثبت سوچ اتنی پست کردی ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، اُس پر خُدا کا شکر اداکرنا تک گوارا نہیں کیا جاتا بلکہ اُس کی تمنا کی جاتی ہےجو دوسروں کے پاس نظر آتی ہے۔ہاں!محنت کرنا، زمانے کی دوڑ میں شامل ہونا،کسی ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لئے سعی و کوشش کرنا ہرگزبُری بات نہیں،مگر یہ کیا کوئی اچھی بات ہے کہ انسان ہر وقت اپنے حال سے غیر مطمئن ہو، ہمہ وقت گلے شکوے کرتا رہے، شکر گزاری کی بجائے آہ و زاریاں کرتا رہے، مایوسی پھیلانے والی باتیں کریںجبکہ رہی سہی کسر ہماری سوشل میڈیا پوری کرتا رہے۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق خیر و شر کا مجموعہ ہے اور ہمارا روزانہ کا واسطہ اپنی ہی طرح کے گھٹن زدہ انسانوں سے پڑتا ہے،جس کے سبب پریشانیاں ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتی ہیں۔اس گھٹن زدہ معاشرے کو بہتر اور خوشگوار بنانےکے لئےایک دوسرے کے باہم محبتیں اور مثبت رویے بانٹنے کی ضرورت ہے۔ اپنے معاشرے کی نوجوان نسل میں ذہنی اور جذباتی نشوونما، تربیت اور ذہنی صحت کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ اپنے معاشرے کے مستقبل کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ بدلتی ہوئی تیز رفتار زندگی اور مقابلے کی دوڑ نے ہماری نوجوان نسل کو عدم تشخص کی طرف دھکیل دیا ہے، جس کی وجہ سے نوجوان اپنی توانائی اوراپنی خوبیوں کو اُجاگر کرنے کے بجائے اپنی شناخت کو دوسروں میں ڈھونڈ نے لگ جاتا ہے، وہ خود کو دوسروں کے مقابلے میں کم تر سمجھنے لگتا ہے اور پھر اندرونی طور پر خلفشار کا شکار بنتا ہے، جس سے اُس کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے ،وہ احساس کمتری کا شکار ہو کر خودساختہ تنہائی اختیار کر لیتا ہے اور یوں اپنی ہی ذات کے خول میں مقید ہو کر رہ جاتا ہے کیونکہ معاشرتی اور گھریلو عدم توجہی ایسے عوامل ہیں، جن کا بہت سے نوجوان کی ذہنی حالت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔نوجوانوں کی ذہنی صحت کی بہتری کو فروغ دینا انتہائی اہم ہے، مگر اس کے لئے معاشرے کے عام ارکان سے ادارے، حکومت، خاندان، صحت عامہ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کا مل جُل کرکام کرنا بہت ضروری ہے، جس میں سب سے پہلے آگاہی اور تعلیم ہےتاکہ ہمارے معاشرے کی نوجوان نسل صحت مند رویوں، متوازن لائف ا سٹائل اورذمہ دارانہ طریقے سے ٹیکنالوجی کا استعمال کرسکیں، سوشل میڈیا کے بے جا اور غلط استعمال سے دور رہ سکیںاور اپنا وقت غیر ضروری سرگرمیوں کے بجائے صحت مندانہ جسمانی سرگرمیوں میں لگائیں ۔جس کے لئے لازم ہے کہ ایسے معاشرتی ،سماجی اور انفرادی گھٹن زدہ عوامل کا سدباب کیا جائے جو انہیں ذہنی پسماندگی کی طرف لے کر جاتے ہیں۔