ذرائع ابلاغ عامہ کی اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے کیونکہ یہ تعلیم ِ عامہ کا سب سے بڑا ذریعہ بھی کہلاتا ہے ۔ موجودہ دور میںاس کی وسعت اور اثر پذیری میں بے حد اضافہ ہوا ہے،جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو، جو اس کی رسائی سے باہر ہے۔دنیا میں کہیں بھی کوئی واقعہ پیش آئے ،اس کی اطلاع ذرائع ابلاغ عامہ سے نشر ہوتے ہی گھر گھر پہنچ جاتی ہے،تاہم ذرائع ابلاغ کے بُرے تاثرات سے معاشرے کی روایات اور اقدار پر اثر انداز ہونے والے خطرات بھی نمایاں ہورہےہیں۔ذرائع ابلاغ کے منفی اثرات سب سے زیادہ نوجوان نسل پر مرتب ہورہے ہیں ،اس کی اثر اندازی سے ہماری نوجوان نسل نے بہت سی ایسی عادتیں اپنائی ہیں جوکہ ہماری تہذیب و تمدن اور قدروں کے بالکل برعکس ہیں۔ہمارے یہاں عام تاثریہ بھی ہے کہ ذرائع ابلاغ کے طرز عمل سے کسی بھی زبان خاص طور پر اُردو اور کشمیری زبان کی کوئی خاطر خواہ خدمت نہیں ہورہی ہے بلکہ ان زبانوں کو زک پہنچانے کی دانستہ یا نادانستہ کوششیں بدستور جاری ہیں۔ صورت حال پر نظر ڈالیں کشمیریوں کی مادری زبان کا بہت بُرا حال ہے ۔ جہاںکشمیریوں نے خود ہی اپنی مادری زبان سے کافی حد تک ناطہ توڑدیا ہے وہیں اس میں دوسری زبانوں کے الفاط ٹھونس کر اس کا حُلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے ۔ایک طرف اس زبان میں بلا وجہ اور بلا ضرورت دوسری زبانوں کے زیادہ تر لچر الفاظ ٹھونس ڈالے ہیں، دوسری طرف ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا سائٹس کے ذریعے کشمیری زبان میں دکھائے جانے والے ڈراموں ،سلسلہ وار سیریلز کے ساتھ ساتھ گیت سنگیت،ناچ نغمے اور دوسرے پروگراموں میں کشمیری زبان کا لب و لہجےکوئی پاس و لحاظ نہیں ہوتا ہے ،نیز کشمیری تہذیب و تمدن اور کشمیری روایات کا بھی جنازہ نکال دیا جاتا ہے ۔تعجب ہے کہ اب کشمیریوں کی ایک خاصی تعداد اپنی مادری زبان بولنے میں بھی شرم محسوس کرتی ہے ،ہرطبقہ اور ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والی زیادہ ترکشمیری خواتین اب اپنے آپ کو کشمیری نسل ہی تصور نہیں سمجھتیں،جس کی بنیادی وجہ فکری افلاس ہی ہوسکتی ہے جو کتابوں کے انبار پڑھنے سے بھی دور نہیں ہوسکتا جبکہ دوسری وجہ ذہنی مرعوبیت بھی ہوسکتی ہے ۔کسی بھی قوم کی تہذیب و ثقافت کی سب سے بڑی نمائندہ اس کی زبان ہی تو ہوتی ہے ۔اس میں بگاڑ پیدا ہونے سے اُس قوم کی نئی نسل پردوسرے قوموں کی مرعوبیت پیدا کرتی ہے اور وہ اپنے تہذیب و تمدن اور روایات سے دورہوجاتی ہے۔ہمارے ذرائع ابلاغ کی ایک اہم ذمہ داری اس ثقافتی یلغار کو توڑ کرنے کی بھی ہے ۔اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں کا میڈیا اپنی معاشرتی ،اخلاقی اور دینی قدروں سے ہم آہنگ ہوجائے کیونکہ ذرائع ابلاغ پر بہت زیادہ ایسی چیزیں پیش کی جارہی ہیں، جن سے معاشرے کو مغرب زدہ بنانے کا تاثر ملتا ہے ۔حالانکہ ہم اپنی اُس ایک الگ تہذیب و ثقافت اور اعلیٰ اقدار کے وارث ہیں ،جس میںعاقبت اندیشی کے دولت کی طلب بھی مقدم ہے،جس میں ہر شخص با حیا طریقے پر ایک دوسرے کے تئیں دلی احترام کا جذبہ رکھتا ہے اورجس میں اخلاقی محاسن موجزن ہیں ۔ اسلام نے بھی ہمیں لچر ثقافت کے مضر اثرات و تلخ نتائج سے پوری طرح آگاہ کرکے رکھا ہے۔اس لئے ذرائع ابلاغ اور الیکٹرانک میڈیا کی وساطت سے ہماری سرکاری زبان اُردو اور ہماری مادری زبان کشمیری کے ساتھ جو کچھ دانستہ یا نادانستہ طور پرہورہا ہے یا کیا جارہا ہے، وہ بہر حال ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔بے شک ہمارا معاشرہ کوکئی برائیوں اور خرابیوں نے گھیر لیا ہے تاہم اپنے معاشرتی اقدار کے سبب ابھی بھی کافی حد تک مختلف بُرائیوں اور خرابیوں سے صاف و پاک ہے۔اس لئے اپنے معاشرتی اقدار کی حفاظت کرنا ہم سب کا فرض ہے، جس کے لئے ذرائع ابلاغ والیکٹرانک میڈیا پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنا بہترین کردار ادا کریں۔ یا د رہے کہ ایک انسان کی شرافت اس کے اعمال اچھے ہونے سے ہی ظاہر ہوتی ہے ،بُرا اور بخیل آدمی شیطان کا مددگار ہوتا ہے ۔ہماری معاشرتی قدروں میں سے ایک بڑا تصور حیا کا بھی ہے کیونکہ حیا نصف ایمان ہے، لیکن اس حوالے سے ذرائع ابلاغ کو دیکھیں تو ان کے ذریعے پیش کیا جانے والا تصور بالکل برعکس ہے ۔ اس لئے یہ کہنا بے جا نہیںکہ اصولی طور پر جو بات غلط ہے وہ کبھی بھی عملی طور پر صحیح ثابت نہیں ہوسکتی،جبکہ عقل مند لوگ کبھی اپنے اصول و اقدار کی پیروی نہیں چھوڑتے ہیں۔اس لئے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ معاشرتی اقدار کے تحفظ کے لئے ذرائع ابلاغ کے کردار کو صحیح سمت میں متعین کرنے کی ضرورت ہے ،کیونکہ وہی معاشرہ اچھا کہلاتا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں،جس کا کردار اچھا ہو اورجس کی زبان اچھی ہو ۔اس بارے میں ہم سب کے لئےفکر مند رہنا عقلمندی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔