مکمل صفائی اور بیت الخلاء کی دستیابی کے حصول کے لیے مرکز ی حکومت نے 2 اکتوبر 2014 کو سوچھ بھارت ابھیان مشن کا آغاز کیا تھا ۔اس کا مقصد 2019 تک ملک کوکھلے میں رفع حاجت سے پاک کرنا تھا۔خاص طور پر دیہی علاقوں کے لیے مکمل حفظان صحت کے حصول کے مقصد سے جس میں ہر گھر میںٹائلٹ بنانے کی بات کی گئی تھی۔ اس کا نام عزت گھر دیا گیا تھا۔اس کے لئے حکومت غریبوں کو مدد کرنے کے لئے سبسڈی بھی فراہم کرتی ہے۔ سوچھ بھارت ابھیان کی ویکیپیڈیا کے مطابق حکومت کے ذریعہ 2014 سے 2019 کے درمیان تقریباً 90 ملین بیت الخلاء کی تعمیر کے لیے سبسڈی فراہم کی گئی تھی۔لیکن کیا یہ گراؤنڈ لیول پر بھی اتنی ہی کامیاب رہی جتنی رپورٹ میں بتائی جا رہی ہے؟اس سلسلے میں جموں کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کے بالاکوٹ گاؤں میں رہنے والی فزینہ کوثرسے جب سوچھ بھارت ابھیان کی ا سکیم کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کچھ اس طرح جواب دیا '۔’’یہ کیا چیز ہوتی ہے؟میں پہلی بار آپ سے ہی اس کا نام سن رہی ہوں‘‘!راقم نے انہیں اس اسکیم کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ کے گھر پر سرکار کی طرف سے ٹوائلٹ بنایا گیاہے؟وہ روتے ہوئے جواب دینے لگی ’’آپ ٹائیلٹ کی بات کرتی ہو، مجھے تو سرکار کی طرف سے ایک کمرے کی چھت تک نہیں ملی ۔ میرے شوہر دل کے دل کا آپریشن ہوا ہے۔ وہ کوئی کام نہیں کر پاتے۔ میری دو بیٹیاں اور ایک چھوٹابیٹا ہے۔ لوگوں سے مانگ کر میں دووقت کی روٹی اپنے پریوار کو کھلا پاتی ہوں‘‘۔وہ کہتی ہیں کہ میری جوان بچیاں پیریڈز کے دوران بیت الخلاء نہ ہونے کی وجہ سے جب کھلے میں صفائی کرنے جاتی ہیں تو مجھے اپنی بے بسی پر بہت شرمندگی محسوس ہوتی ہے کیوںکہ اس مشکل کا حل سرکار کی مدد کے بغیر میرے پاس کوئی بھی نہیں ہے ۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ سرکار کی طرف سے دی جانے والے جن سہولیات کاآپ ذکررہی ہیں، اُن کا نام آج میں نے پہلی بار سنا ہے۔ اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والی اقر ہ خانم جو گرلز ہائی سکینڈری اسکو ل مینڈھر کی ٹیچر ہیں، کے مطابق ''ہمارے اسکول میں 600 سے زاید تعداد میں لڑکیاں ہیں۔ ان کے لیے 6 واش روم ہیں اور میں شکریہ گذار ہوں، ا سکول کے پرنسپل اندرجیت کی ،جن کے آنے کے بعد ہی اسکول کی صفائی اور خاص طور پر بیت الخلا کی صفائی کا خاص خیال رکھا جا تا ہے۔لیکن اگرمیں اپنے گاؤں بالاکوٹ کی بات کرو ں تو وہاں پر بہت کم لوگوں کے گھر وںمیں ٹوائلٹ بنا ہے اور جہاں تک’’ سوچ بھارت ابھیان‘‘ کی بات ہے تو وہاں پر کسی کو بھی اس کا فائدہ نہیں ملا ہے۔یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ جب ہم سرکار کی طرف سے دی گئی سہولیات کی بات کرتے ہیں تو ہمیں دو ہرا رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔جہاں سرکاری اداروں کواس اسکیم کا بھرپور فائدہ ملتا ہے وہاں دیہی اور سرحدی علاقوں کوان فائدوں سے محروم رکھا جاتا ہے۔اسی (بالاکوٹ) گاؤں کی سرپنچ نصرت بی کے نمائندے حاجی ایاز نے بتایا کہ 2019 سے پہلے کئے گئے سروے میں سرکار سے بیت لخلا کے لئے کوٹہ آیا تھا لیکن اس کے بعد ابھی تک کوئی بھی کوٹا نہیں آیا۔
سرکار کی طرف سے بنائے جانے والے بیت الخلا کی سب سے پہلی ترجیح بی پی ایل کارڈ کے لوگوں کو دی جاتی ہے۔پھر جو لوگ رہ جاتے ہیں ،وہ بھی مستفد ہوجاتے ہیں۔ لیکن 2019 سے پہلے کیے گئے سروے کے بی پی ایل کارڈ کے بھی لوگو ں کو ابھی تک اس کا فائدہ نہیں ملاہے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ہماری پنچایت کے اندر چار گاؤں آتے ہیں دو گاؤں ایسے ہیں جہاں نیٹورک بالکل بھی نہیں ہے اور سرکار کی ہدایت کے مطابق سب کچھ ہمیں آن لائن اَپلوڈ کرنا پڑتا ہے ۔لیکن جب ہم وہاں پر جیو ٹیک کرنے جاتے ہیں تو لوکیشن ٹریس نہیں ہو پاتی، اس لیے ان دو گاؤں کے بی پی ایل کارڈ والوں کو بھی ابھی تک ٹوائلٹ میسر نہیں ہوئے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ سرکار سے ایک گھر کے ایک ٹوائلٹ کے لئے صرف 12 ہزار روپے دیے جاتے ہیں اور آپ خود سوچیں کہ اس 12 ہزار میں مضبوط ٹوائلٹ کیسے بنے گا؟ لوگ رقم لے کر سیمنٹ کی جگہ مٹی کا استعمال کر کے دیواریں بناتے ہیں جو کچھ دن بعد ہی گر جاتی ہیں ۔یہ بھی سن 2019 سے پہلے کی فنڈنگ کی بات کر رہی ہوں ۔اس کےبعد ابھی تک کوئی فنڈ نہیں آیا۔ ان کے مطابق گاؤں کی سہولیات کے لیے پی ایم اے وائی سوچھ بھارت ابھیان اورنریگا جیسی اسکیم کی فنڈنگ سرکار کی طرف سے پنچایت میں آتی ہے اور سر پنچ کے ذریعے لوگوں تک پہنچائی جاتی ہے۔
سوچھ بھارت ابھیان پر مزید بات کرتے ہوئے ضلع پونچھ کے گرسای کی ماسٹر ڈگری کرنے والی عنم کو سرکہتی ہیں’’ مجھے یہاں سے جموں اپنی پڑھائی کے سلسلے میں جب جانا ہوتا ہے تو سات گھنٹے کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اور راستے میں بہت پریشانیاں سامنے آتی ہیں ۔جب وا شروم کی ضرورت پڑتی ہے تو راستے میں کہیں بھی وا شروم نظر نہیں آتاہے ۔ پھر اس مشکل کا حل کوئی ریسٹورنٹ ملنے پر ہی ہوسکتا ہے۔اور وہاں کے واشروم بھی استعمال کرنے کے قابل نہیں ہوتےہیں۔ جن کو دیکھ کر من خراب ہو جاتا ہے۔جب کسی کمیونٹی میں کچھ لوگوں کے پاس محفوظ بیت الخلاء نہیں ہوتے ہیں تو ہر ایک کی صحت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ صفائی کی ناقص صورتحال سے پینے کے پانی کے ذرائع، دریا، ساحل اور کھانے کی فصلیں آلودہ ہوجاتی ہیں، جوکہ وسیع آبادی میں مہلک بیماریاں پھیلنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ اگر جموں کشمیر کی بات کی جائے تو جموں کشمیر کا جو سرحدی ضلع پونچھ ہے وہاں پر کسی بھی اسکیم کی گراؤنڈ لیول پر یا سرحدی گاؤں میں اس کا نفاذ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔ وجہ تو یہ رہتی ہے کہ سرحدی علاقوں میں جانے سے ورکرز ڈرتے ہیں۔
لیکن یہ کہانی صرف جموں کشمیر کی ہی نہیں ہے بلکہ اس بارے میں بات کرتے ہو ے ہریانہ کے ضلع کیتھل گاؤں بالوں باتا کی رہنے والی اور چندی گڑھ میں اپنی وکالت کی پڑھائی کرنے والی عائشہ بھرا کہتی ہیں ''مجھے چندی گڑھ سے اپنے گھر تک جانے کے لئے چار گھنٹے کا سفر کرنا پڑتا ہے، کئی بار مجھے بیت الخلا جانے کی ضرورت پڑتی ہے اور گھر پہنچنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ راستے میں صرف پیو ہ ضلع میں بس رُکتی ہے۔لیکن وہاں کے بیت الخلاء استعمال کرنے کے قابل نہیں ہیں کیوں کہ لڑکیوں کے بیت الخلاء پر نہ تو چھت ہیں اور نہ ہی دروازے بس چھوٹی چھوٹی دیواریں ہیں ِ،جس سے آسانی سے باہر چلتے پھرتے لوگ جھانک سکتے ہیں۔ پیریڈز کے دوران بھی لڑکیوں کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر میں اپنے گاؤں بالو باؔتا کی بات کرو ں تو اتنا مشہور گاوں اور تین سرپنچ ہونے کے باوجود دور دور تک کوئی بیت الخلا نظر نہیں آتا ۔میرا سوال یہ ہے کہ سوچھ بھارت ابھیان کی اسکیم ابھی تک ان گاؤں میں لاگو کیوں نہیں ہو پائی؟ تاہم ٹوائیلٹ کے عالمی دن پر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ’’ باتھ روم‘‘ جیسی بنیادی چیز درحقیقت کاروبار اور معاشرے کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کا کلیدی حصہ ہوتا ہے۔
ہر سال 19نومبر کو بنایا جانے والا ورلڈ ٹوائلٹ ڈے کو ورلڈ ٹوائلٹ آرگنائزیشن نے 2001 میں قائم کیا اور اس کے بارہ سال بعد 2013 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ورلڈ ٹوائلٹ ڈے کو اقوام متحدہ کا سرکاری دن قرار دیا۔عالمی ادارے کے پائیدار ترقی کے اہداف 6 کے مطابق، عالمی رہنماؤں کو 2030 تک ہر ایک کے لیے ''صفائی اور پانی کی دستیابی اور پائیدار انتظام'' کو یقینی بنانا ہے۔ کویڈ۔19کی وبا کے بعد یہ لازمی ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے آس پاس زیادہ سے زیادہ صاف صفائی کو یقینی بنائیں، تا کہ دیگر بیماریوں سے معاشرے کو بچایا جا سکے، خاص طور سے ملک کی آدھی آبادی یعنی خواتین کو، کیونکہ جب ایک عورت صحت مند ہوگی تو پورا گھر صحت مند ہوگا۔
(مینڈھر،پونچھ )