’دیرلس ارتغرل‘سے ’ممالک النار‘تک

دیرلس ارتغرل ایک ترک تاریخی ڈرامہ سیریز ہے جس کے مصنف اور تخلیق کار مہمت بوزداگ ہیں ۔انگن الٹن Engin Altinنے اس سریز میں بطورِ ارتغرل کے مرکزی اداکار کارول ادا کیا ہے۔ یہ ڈرامہ سلطنت ِعثمانیہ کے بانی عثمان اول کے والد ارتغرل غازی کی زندگی کے گرد گھومتا ہے۔ عثمانی روایات کے مطابق ارتغرل سلیمان شاہ کا بیٹا تھا ، جو اوغزOguz ترکوں کے ’’کییKIE‘‘ قبیلے کا رہنما تھا جنہوں نے منگول قتل عام سے بچنے کے لئے وسطی ِایشیا سے ہجرت کی تھی۔ پچھلے کئی برسوں سے اس ڈرامہ سیریز نے60 سے زائد ممالک میں اپنی کامیابی کا لوہا منواتے ہوئے کثیر تعداد میں لوگوں کو اپنا مداح بنایا ہے ۔ مشرقی وسطیٰ سے لے کر جنوبی افریقہ  ایشیاء اور جنوبی امریکہ کے بیشتر ممالک کے لوگوں کواس ڈرامہ سریز نے اپنا گرویدہ بنایا ہوا ہے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس سریز کو اسلامی ممالک میں مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔ یہ سیریزان علاقوں میں بڑی تیزی سے مقبولِ عام ہو رہی ہے جہاں کے لوگ غلامی اور ظلم و تشدد میں زندگی گذار رہے ہیں کیونکہ ’’کئیKIE‘‘ قبیلے کو بھی ابتدائی ادوار میں انہیں حالات و واقعات سے سابقہ پڑا تھا اورجہد ِ پیہم کے بعد ہی اپنے عروج کی طرف گامزن ہو پایا تھا۔
 دیرلیس ارتغرل کے مصنف اور تخلیق کار مہمت بوزداگ ایک ایسے مشہور فلم ساز ہیں جن کا تعلق ترک قدامت پسند تحریک اے ۔کے۔ پی۔ پارٹی سے ہے۔اس سیریز کی کامیابی میں کوئی شک و شبہ نہیں کیونکہ بوزداگ نے کچھ باصلاحیت اداکار وں کو اس سیریز کے لیے منتخب کیا ہے جو ناظرین کے ذہنوں میں ایک گہری چھاپ چھوڑنے میں بہت حد تک کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ ڈرامہ سیریز چونکہ تاریخی واقعات پر منحصر ہے اس لیے اس کے پلاٹ اور پیشکش کو انہی حالات و واقعات کے پسِ منظر میں ترتیب دیا گیا ہے ۔ مہمت بوزداگ ناظرین کی نبض پر مکمل گرفت رکھتے ہیں اور سامعین کو ڈرامہ کی مدہوش کیفیات اور اپنی پکڑ میں رکھنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہر واقعہ اس شک کے ساتھ ختم ہوتا ہے جو اگلی قسط کو آگے بڑھنے کے لئے ایک تجسس پیدا کرتا ہے۔ بالی ووڈ اورہالی ووڈ انڈسٹری سے جو چیز اس سیریز کو جدا کرتی ہے وہ اس کا اخلاقی اصولوں کا پاس و لحاظ ہے۔ پوری ڈرامہ سیریز کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس سیریز میںغیر اخلاقی مناظر نہ ہونے کے برابر ہیں، اِلہ انگریزی کرداروں کے ہاں اس چیز میں کسی حد تک تساہل پسندی سے کام لیا گیا ہے۔تزئن،آرائش ،پیمائش اور انوکھے انداز کی وجہ سے قدامت پسند حلقوں میں بھی اس سیریز نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑے ہیں۔عورتوں کے تعلق سے رائج العام دقیانوسی نقطۂ نظر کی رد کرتے ہوئے اس میں خواتین کو ترقی پسند روشنی میں دکھایا گیا ہے جیسے کہ مردوں کے ساتھ مل کر لڑنا ، جبری شادیوں کی مزاحمت کرنا ،بلا وجہ ان کے حقوق دبانا وغیرہ۔ اسلام کی منفی شبیہ کو کسی حدتک صاف کرنے کے لئے بوذداگ نے اسلام کو ایک اعتدال پسند دین دکھانے کی کوشش کی ہے جس کا اندازہ عیسائیوں،منگولوں اور یہود قبائل کے سرداروں کے ساتھ مختلف معاہدوں سے صاف ہوتا ہے۔ سیریز کی اس خوبی نے بہت سارے غیر مسلم ممالک کو بھی اپنی طرف راغب کیا اور انہوں نے بھی کھلے دل سے اس کا خیر مقدم کیا ۔ تاہم اپنے نام اتنی ساری مقبولیت بٹورنے کے باوجود بھی اس کے رد میں کثیر تعداد میں فتوئے جاری ہوئے۔بحرین،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں اس کی نشریات پر پابندی عائد کردی گئی اور پابندی کے جواز میں مذہبی کتب کا بھر پور سہارا لیا گیا ۔ مصر کے دارالفتا ء کے جاری کردہ فتوے کے ذریعہ اس سلسلے کو دیکھنا ممنوع قرار دیا گیا ہے اورترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کو نشانہ بناتے ہوئے اس پر مشرق وسطیٰ میں عثمانی سلطنت کی بحالی اور عرب ممالک پر خود مختاری بحال کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے ۔ سعودی عرب نے پابندی پر ہی بس نہیں کیا بلکہ اس سریز کے رد میں ’’ممالک النار‘‘ کے نام سے ایک بھاری بجٹ والی سیریز کا آغاز کیا۔برطانوی ہدایت کار پیٹر ویبرPeter webber کا’’ممالک النار‘‘Kingdom of fire ڈرامہ مہمت بوزداگ کے ’’دیرلش ارتغرل‘‘ کے رد میں اس وقت منظر عام پر لایا جا رہا ہے جب کہ ہر طرف ارتغرل کی دھوم مچی ہوئی ہے۔اس میں ارتغرل کی تیار کردہ ترکی کی شبیہ کو داغدار کرنے کے لئے ہر چیز موجود ہے۔اس سیریز میں خلافت ِ عثمانیہ کے منفی گوشوں کو ابھارا گیا ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں ترکی اور خلافت ِ عثمانیہ کے خلاف نفرت پھیلائی جائے۔ سعودی حکومت مبینہ طور اپنی اس سیریز کے لیے40ملین ڈالرکی ایک خطیر رقم صرف کر رہی ہے اور خصوصی طور پر مغربی ڈائریکٹروں کے عملے سے مدد لے رہی ہے تاکہ عثمانی سلطنت کو اس ڈرامہ کے ذریعے سے ایک ظالم و جابر سلطنت کی حیثیت سے دکھایا جائے اور ارتغرل سیریز کااثر کسی حد تک ماند پڑ جائے لیکن ان کا یہ خواب ہنوز شرمندہ تعبیر نہیں ہو پایا ہے ۔ 
 ’دیرلش ارتغرل ‘او’ر ممالک النار‘ نے عصری سیاست میں دو نظریوں کی شکل اختیار کی ہے۔ فکشن کے ان فن پاروں نے حقیقی زندگی پر ان مٹ اثرات مرتب کئے ہیں۔دیرلش ارتغرل کے منظر عام پر آنے کے بعد سے سعودی عرب،بحرین اور متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان ترکی کو اپنے لیے ایک بڑاخطرہ تصور کرنے لگے ہیں کیونکہ انقرہ امت کی زمام تھامنے کے تناظر میں ان کے بہت سارے منصوبوں پرپانی پھیر رہا ہے۔ سعودی اماراتی بلاک جس میں یو۔اے۔ای، بحرین اور مصر بھی شامل ہیں، کا اسرائیل سے ہم آہنگ ہونے اور ترکی کو بے دخل کرنے کا منصوبہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مشرقی وسطیٰ کے ممالک آزادی ،جمہوریت اور آئینی تبدیلی جیسی خواہشات کو ترک کردیں اور عرب سپرنگ کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں ۔ دوسری جانب ترکی نے خلیجی ممالک میں عوامی مطالبات کی حمایت کی ہے اور وہاں کے لوگوں میں حریت کے جذبات کو بڑھاوا دینے میں کلیدی رول نبھایا ہے۔ترکوں کی اپنے خطے میں بڑھتی اجارہ داری دیکھ کر عرب بلاک شدید غم و غصے کا اظہار کر رہا ہے جو کہ عرب سپرنگ Arab spring اور ترکی کی بڑھتی سرگرمیوںکو ایک متعدی انقلاب سے منسوب کررہے ہیں۔ ترکی کی عالمِ اسلام میں بدلتی حیثیت عربوں کے لیے ایک بڑا سر درد بن کر کھڑا ہو رہا ہے ۔خلیجی ممالک ترکی کے خلاف بہت حد تک بدظن ہو رہے ہیں اور بات مرنے مارنے تک پہنچ گئی ہے ۔دونوں ممالک خود کو مسلمانوں کے سچے ہمدرد او رہنما ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے۔ اس سلسلے میں ترکی نے پچھلے کئی برسوں سے اپنے سرکاری موقف میں یکسر تبدیلی لانے کی کوشش کی ہے اور ہر چڑھتے سورج کے ساتھ ہی وہاں پر خلافت ِ عثمانیہ کی بحالی کے لیے اقدام کئے جا رہے ہیں ۔طیب ایردوان نے بارہا خلافت ِ عثمانیہ کی بحالی کا عندیہ دیا ہے جس کی وجہ سے ترکی بیشتر اسلامی ممالک کی آنکھوں کا تارا بنا ہواہے اور لوگوں کی محبت بٹورنے میں کامیاب ہوا ہے تاہم یہ بات سعودی اتحاد کی آنکھوں میں نہیں سماتی کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بغیر کسی اسلامی ملک کو مرکزیت حاصل ہو اور لوگ ان کی طرف متوجہ ہوں۔ 
 عرب اتحاد اور ترکی کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے اثرات پورے عالم ِ اسلام پر پڑ رہے ہیں۔ امت ِ مسلمہ دو خانوں میں تقسیم ہو گئی ہے ۔ ایک خانے میں عرب اتحاد ی جس میں عرب،یو۔اے۔ای،مصر،بحرین وغیرہ شامل ہیں، دوسرے خطے کے ساتھ ترکی،پاکستان،ایران اورملیشیا وغیرہ منسلک ہیں۔حالیہ رشتوں کی تنزلی کے نتیجے میں سعودی حکام کی طرف سے ترکی کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے ۔ ترکی پر ان کے میڈیا مبصرین نے عرب ممالک میں کورونا وائرس پھیلانے کا الزام عائد کیا ہے۔ نیزسعودی حکام نے دو ترک آن لائن نیوز پورٹلز ، ٹی۔ آر۔ ٹی ۔عربی اور اناڈولو۔ ایجنسی (اے۔ اے) کو بھی بلاک کردیا ہے۔ اسی طرح ترکی اور ایران بھی بہت سارے محازوں پر عرب کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے عالم ِ اسلام روز افزوں ترقی کے بجائے پستی کی طرف گامزن ہے۔
قران اور احادیث میں جن لوگوں کو بھائی بھائی کہہ کر پکارا گیا تھا جن کو اللہ کی رسی مضبوطی سے تھامنے کا درس دیا گیا تھا اورسیسہ پلائی دیوار کی طرح ایک ہو کر رہنے اور لڑنے کی تلقین کی گئی تھی، وہی آج ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ذلیل کرنے میں سبقت لے رہے ہیں ۔ مسلمان سیاسی مفادات کی دوڑ میں غیر مسلموں کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لیے تیار تو ہیں لیکن اپنے بھائیوں کا سر تن سے جدا کرنے سے دریغ نہیں کرتے ۔مکرو فریب کے ا س سارے سیاسی کھیل میں کسی ایک کو مورودِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ کوتاہیاں اور غلط فہمیاں دونوں طرف سے ہیں، اسلئے کسی پائیدار حل تک پہنچنے کے لیے سبھی ممالک کو ایک میز پر بیٹھنا چاہیے تاکہ دوستوں اور دشمنوں کی پرکھ یقینی بنائی جاسکے ورنہ وہ دن دور نہیں جب حالات اتنے دگر گوں ہو جائیں گے جہاں سے پلٹنا محال ہو جائے گا۔
 ہم سب چونکہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اس لیے ہمیں اچھائی میں ایک دوسرے کا معاون ومدد گار بننا چاہیے اور ہر قسم کی بُرائی کا مل کر قلع قمع کرناچاہیے تاکہ دنیا میں حقیقی معنی میں امن اور انصاف کا قیام یقینی بنایا جا سکے۔غیر ہم پر ہر طرف سے قافیہ تنگ کئے ہوئے ہیں، ان حالات میںایک دو سرے کے خلاف نفرت و کدورت پھیلانے کے بجائے ایک دوسرے کا سہارا بننے کی کوشش کریں ۔نفرت ، کدورت ،بغض،عداوت،کینہ پروری اور دشمن سازی کی جگہ محبت،امن،بھائی چارے،پیار اور برداشت کا درس دیں ۔ورنہ بھائی کے پیروں پر کلہاڑی مارنے سے اپاہج ہونے کا خمیازہ دیر سویر ہم کو بھی بھگتنا پڑے گا۔اپنے مفادات ہر کسی کو عزیز ہوتے ہیں لیکن ان کے حصول میں ہمیں آپسی بھائی چارے اور یگانگت کے اسلامی آفاقی اصولوں کو پامال نہیںکرنا چاہیے جس سے امت مزید پارہ پارہ ہوجائے اور غیر ہم کو ترنوالہ سمجھ کر حلق سے نیچے اتار لیں۔اس لئے ہوشیار باش!
رابطہ۔ریسرچ سکالر، مرکزی جامعہ کشمیر
ای میل۔     [email protected]