خیر الانام سرورکونین خاتم النبیین رحمت اللعالمین امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کے امت پر بے حد احسان ہیں جس کے بدولت امت مسلمہ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بے حد محبت کرنا واجب بن جاتا ہے۔ عظیم الشان پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم کے ذات اقدس کے ساتھ ایسی والہانہ محبت ہونی لازمی ہے کہ جس کا مطالبہ قرآن نے یوں مبذول فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اے محبوب ! فرما دیجئے ان کو کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میری اتباع کرو، خدا تعا لیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کر دیں گے اور اللہ تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے بڑی عنایت فرمانے والے ہیں"- (القرآن؛ آل عمران، ۳:۱۳)
قرآن کریم نے صاف اعلان کر دیا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ اللہ کے محبوب نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کریں، تب جا کے ان کا دعویٰ حق بجانب ہوگا۔ یعنی توحید کے ساتھ ساتھ رسالت پر ایمان لانا لازم و ملزوم ہے۔
اللہ اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی فرمانبرداری کسی نئی بات، نیا طریقہ یا نئی راہ کو اختیار کیے بغیر 'دین' کہلاتا ہے۔اور اپنی زندگی کے لمحات ہر وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک طریقے کے مطابق گزارنا 'اطاعت' کہلاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی رضا میں اللہ کی رضا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت صرف جذبہ کی حد تک ہی محدود نہ ہو۔نہ ہی چند خاص ایام کے ساتھ پابند سلاسل ہو بلکہ ہماری چال و ڈھال، رہن و سہن، قول و فعل، ظاہر و باطن، معاملات و معاشرت، عبادات و خیالات ، علم و حلم اور اخلاقیات میں اس کا نمایاں اثر واضح نظر آرہا ہو۔
رب زوالجلال نے قرآن حکیم میں طبعی (Natural ) محبتوں کی پوری فہرست بتا کر قبل از وقت آگاہ کردیا کہ کہیں ان طبعی چیزوں کی محبت میرے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے محبت پر بھاری (Dominant) ہوئی تو نافرمانوں میں شمار کر کے ہدایت سے بھی محروم کر دئے جاؤ گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ" اے رسول صلعم ! آپ لوگوں کو فرما دیجئے کہ تمہارے ماں باپ، تمہاری اولاد، تمہارے بھائی برادر، تمہاری بیویاں، تمہارا کنبہ قبیلہ اور تمہارا مال و دولت جس سے تم نے کمایا ہے اور تمہاری وہ تجارت جس کے ٹھپ پڑجانے کا تم کو ڈر ستاتا رہتا ہے اور تمہارے رہنے کے وہ مکانات جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ ساری چیزیں) تم کو زیادہ محبوب اور عزیز ہیں اللہ اور اللہ کے رسول صلعم سے اور اس کے دین کیلئے کوشش کرنے سے تو اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا ہے‘‘۔ (القرآن، التوبۃ؛ 24)
اس آیت مبارکہ پر غور و فکر کرکے ذرا ہم اپنے آپ سے پوچھیں کہ ہمیں ان سب اسباب کی محبت زیادہ ہے یا اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت؟ خدارا انصاف کا فیصلہ کیجئے۔ ہماری محبت کا یہ دعویٰ کس حد تک سچ ہے۔ کیا ان سب اسباب کی محبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے محبت پر بھاری تو نہیں ؟
آقا ئے نامدار خیر الانام سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کا دعویٰ کس حد تک ہونا چاہیے۔ حدیث مبارک میں واضح طور پر اس کا معیار فرمایا گیا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی مومن کامل نہیں ہو سکتا جب تک میں (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) اس کو اس کے ماں ، باپ اور اولاد سے اور سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔" ( سنن النسائی؛ 5014 الصحیح البخاری، کتاب الایمان؛ 15)
خاتم النبین صلی اللہ علیہ و سلم نے عدل و انصاف کے پیمبر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ایمان ناقص ٹھہرایا یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہا نے سرورکونین صلی اللہ علیہ و سلم کے ذات اقدس کو اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہونے کا دعویٰ پیش نہ کیا جس پر آپ رضی اللہ عنہ کا ایمان مکمل ہونے کی ضمانت دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم سے مل گئی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :اے عمر،اب آپ پکے مومن ہوگئے۔ (الصحیح البخاری : 6623)
سیاہ فام غلام حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ نے واقعی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک ہی ملاقات پر فدا ہونے کا صحیح ثبوت دے دیا کہ صحابی رسول بعد میں بن گئے اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ و سلم پہلے ہو گئے۔وادی طائف کا بازار گواہ ہے جب نینوا کے عداس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت پہلی ہی نظر میں اپنا عاشق بنا گئی۔عداس کے انگور پیش کرنا محبت ہی کی علامت تھی جس نے آپ کو جنگ بدر کے موقع پر غلامانہ زندگی سے شہادت کا عروج حاصل کرایا۔
یہی وہ حقیقی عشق تھا جس نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو بہ آواز بلند مقام ابراہیم پر مشرکین کے سامنے قرآن پڑھنے اور سنانے پر مجبور کیا۔ آپ ؓ کو کافی مارا گیا، لیکن جب تک دم میں دم رہا قرآن سناتے سناتے گئے یہاں تک کہ بے ہوش ہوگئے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے برادر نسبتی حضرت عبداللہ بن جحش تھے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بے پناہ عشق تھا، آپ رضی اللہ عنہ جیسے بہادر سپاہ سالار اسلام کو جنگ احد کے دوران شہادت کے عظیم رتبہ کو حاصل کرنے کے لئے دعا کرنے پر مجبور کیا کہ آپؓ کی ناک و کان کٹتے ہوئے شہادت نصیب ہوئی۔ یہ بھی عشق حقیقی کا باب ہے جب جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے شہید ہونے کی غلط افواہ پھیل گئی تو حضرت انسؓ بن نظر کی رگوں میں حقیقی عشق کا خون ٹھاٹے مارتے ہوئے دوڑنے لگا اور آپ ؓنے مشرکین کی صفوں سے بے شمار کفار کو داخل فی النار پہنچایا، خود بھی 80سے زائد زخم کھا کر شہید ہو گئے ۔ جب پہنچان نہ ہوئی تو آپؓ کی ہمشیرہ نے انگلیوں کے پوریوں سے پہنچان لیا۔یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ بے لوث محبت تھی جس نے جنگ خیبر کے دوران اسود الراعی کو چرواہا سے جنت کا پروانہ بنایا کہ شہید عزیمت کہلایا۔یہ اسی عشق کی کتاب کے اوراق تھے جو حضرت خباب رضہ بن الارت کو طعنے سننے پر برداشت کا مادہ پیدا کرتا تھا اور دہکتے ہوئے آگ کے شعلوں کو آپ کے جسم کی چربی سے بجھانے پر مجبور کرتا تھا۔
انصاریہ خاتون کے عشق کا ذکر کئے بغیر شاید اس تحریر کے ساتھ ناانصافی ہوگی جو اپنے باپ، بھائی اور شوہر کی شہادت کی خبر سننے کے باوجود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خیر و عافیت کی تلاش میں بے چین و بے قرار ہو کر آگے بڑھتی گئیں۔ یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار اپنی نگاہوں سے کر لیتی ہیں تو بے اختیار پکار اٹھی کہ 'آپ صلعم کے ہوتے ہوئے ہر مصیبت ہیچ ہے'- (بیہقی؛ ۲۰۳/۳) اللہ اکبر یہ قوت ایمانی تھی یہ بے انتہا عشق تھا جس نے آپ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا شیدائی بنایا۔ ایسی محبت کی مثال کہاں ہم پیش کر سکتے ہیں۔ ہماری محبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کس حد تک ہے ؟ جب کہ رب زوالجلال کو اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خاطر اس معیار کی محبت مطلوب ہے۔
محمد کی غلامی دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگرخامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اس قدر شدید محبت کا حکم کیوں ہے ؟ یہ اس لئے ہے کہ محبت کے بغیر اتباع رسولؐ ممکن نہیں ہے اور اتباع رسول ؐکے بغیر اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت بھی ممکن نہیں ہے۔ قرآن کریم کا کھلا اعلان کہ " بے شک تمہارے لیے رسول صلعم ایک کامل نمونہ ہیں-" (القرآن؛ سورۃ الاحزاب ۳۳:۱۲)
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کو ایمان کا لازمی جز قرار دیا گیا ہے۔ آج ہم عشق رسول ؐکا دم بھرتے ہیں لیکن صرف جذباتی طور پر حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے حقیقی محبت کی سچائی و صداقت عملی طور پر ظاہر ہونی چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کے مطابق زندگی بسر کی جائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی شریعت کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے مشن کی آبیاری کرنا ہمارا مقصد ہے۔ تعلیمات نبوی کو عام کرنے کا پختہ عزم کرناہوگا تاکہ دنیا کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دین کی صحیح ترویج و اشاعت اور آپؐ کا لایا ہوا پیغام انسانیت واضح ہوسکے۔ہمیں اپنے دلوں کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ اس کے اندر عشق رسول ؐ کس قدر جاگزیں ہے ۔آج سیرت رسول ؐسے مکمل راہ نمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا حقیقی عشق ہمارے دلوں میں پیوست ہو سکے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ قرآن مجید کی محفوظ ترین عملی شکل ہے اور قرآن مجید بذات خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت مبارک کی محفوظ ترین تحریری شکل ہے۔ اسی لیے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ؐ کو مضبوطی سے پکڑ کے رکھنے سے گمراہی سے بچا جا سکتا ہے۔باپ داداؤں کے رسم و رواج کو توڑ کر شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نافذ العمل بنایا جائے۔ قرآن کو نسخہ کیمیا اور مردہ دلوں کی آواز بنا کر ایک ایسا نظام تیار کیا جائے جہاں عورتوں کی عفت و عصمت ہر لحاظ سے محفوظ ہو ، ان کی عزت و آبرو کا خاص خیال ہو، چوری، نشہ، دھوکہ دہی، دغابازی، جھوٹ، اور بے ایمانی جیسے برے اوصاف سے صاف و پاک معاشرہ تشکیل پائے۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرح غریبوں، محتاجوں و مسکینوں، بیواؤں ، یتیموں اور دیگر ضرورت مندوں کی خاطر ماویٰ اور والی بن کر ہر دم اور ہر آں ان کی خدمت میں پیش پیش رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سکھلائے ہوئے حسن سلوک کے مطابق اپنے رشتہ داروں، ہمسایوں، دوستوں اور غیر مسلم اقوام کے ساتھ غم خوار بن کر پیش آنا وقت کی پکار ہے۔ رنگ، نسل، ذات اور مسلک کو ایک طرف چھوڑ کر ایک جسم کے مانند بھائی چارہ قائم کرنا دشمن قوتوں کو ناکام بنانے کا واحد علاج ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے محبوب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حقیقی اور عملی عشق کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین
رابطہ۔ہاری پاری گام ترال
فون نمبر۔ 9858109109
���������